مستقبل کا پاکستان
مستقبل کا پاکستان
پاکستان کو انگریزوں اور ہندوستان سے آزادی حاصل کئے ہوئے ساٹھ سال سے زیادہ بیت چکے ہیں۔ ایک علیحدہ ملک کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں کی طویل جدوجہد اور لاتعداد قربانیوں کے بارے میں ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ چونکہ ہندوستان میں مسلمان ہر طرف سے ظلم اور نا انصافی کاشکار تھے لہذاایک آزاد اور با عزت زندگی گزارنے کی خاطرایک ایسے پاکستان کے حصول کی جدوجہد کی گئی، جہاں ہر شہری کو برابری کی بنیاد پر خوشحال زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو ۔ہر انقلاب اور آزادی کی جدوجہد کے پیچھے یہی سوچیں کار فرما ہوتی ہیں۔ لیکن آنے والا وقت ہی اس بات کو ثابت کرتاہے کہ ان سب قربانیوں اور جدو جہد کے بعد حا صل کیا ہوا۔
پاکستان کا معاشرہ آج جس صورتحال سے گزر رہا ہے وہ یقیناًکسی بھی پاکستانی کے لئے باعث اطمینان نہیں۔ خصوصاً گزشتہ کچھ دہائیوں سے پاکستان مسلسل جس انحطاط اور خرابی کا شکار ہو تا جا رہا ہے، اس نے نہ صرف خود پاکستانیوں کو حد درجہ تشویش میں مبتلا کر دیا ہے بلکہ بین الاقوامی برادری بھی پاکستان کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا شکار نظر آتی ہے۔
مغربی دنیا جسے تہذیب و تمدن اور ترقی کا سر خیل مانا جاتا ہے۔ ان سے مقابلہ کرنا تو دور کی بات ، ہم اپنے ہمسایہ ممالک سے بھی اپنا موازنہ کرتے ہوئے شرمندگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ایک افغانستان کو چھوڑ کر جسے بین الاقوامی بازی گروں نے گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں جھو نک رکھا ہے۔ خطے کے سارے ممالک آج زندگی کے تمام شعبوں میں پاکستان سے کہیں آگے ہیں۔ ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ ایک ہی دن انگریزوں کے تسلط سے آزادی حا صل کی، لیکن آج وہی ہندوستان دنیا کی سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کر نیوالے ممالک میں سے ایک ہے۔ پاکستان سے آبادی اور رقبے کے لحاظ سے پانچ گناہ بڑا اس ملک نے اس عرصے میں زندگی کے تمام شعبوں میں جس تیز رفتاری سے ترقی کی ہے وہ پوری دنیا کے لئے ایک مثال ہے۔ چین کے عوام نے ماوزے تنگ کی سربراہی میں اپنی لازوال جدوجہد کے نتیجے میں جو آزادی حاصل کی اس کی عمر بھی پاکستان سے کم ہی ہے، لیکن دنیا میں سب سے زیادہ آبادی اور رقبے کا حامل یہ ملک آج معاشی اورسیاسی استحکام کے جس مرحلے پر سینہ تانے کھڑا ہے اس نے ترقی یافتہ ممالک کی بھی نیندیں حرام کر رکھی ہے۔ ہمارا ایک اورہمسایہ ملک ایران جو گزشتہ تین دہائیوں سے بین الاقوامی پابندیوں کا شکار ہے وہ بھی عزت اور آبروکے ساتھ اپنی آزادی اور خود مختاری نہ صرف برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ تمام تر مشکلات کے باوجودایرانی عوام کی حالت پاکستانیوں سے بدر جہا بہتر ہے۔حتی کہ بنگلہ دیش جس کی عمر پاکستان سے چوبیس سال کم ہے وہ بھی خطے میں آبرومند اور ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن ایک مثالی ملک کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔
دوسری طرف اگر ہم پاکستان کی مجموعی صورت حال پر نظر ڈالیں تو جس تیزی کے ساتھ ہم انحطاط کی طرف جا رہے ہیں اس کے بارے میں سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہر آنے والا دن ہمیں مزید خرابی کر طرف لے جا رہا ہے۔اگرچہ پاکستان میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو اس صورت حال کو ملک پر مسلط کی جانے والی بار بار کی فوجی آمریت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔جب غیر جمہوری طریقے سے اقتدار پر قبضہ کر نیوالوں نے یا تو بیرونی طاقتوں کے مفادات کی خاطر یا پھر شوق حکمرانی اور مہم جوئی میں متعدد بار ملک کی منتخب حکومتوں کا تخت الٹا۔ لیکن اگر تصویر کے دوسرے رخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہماری منتخب جمہوری حکومتوں نے بھی عوام اور ملک کی خاطر وہ نہیں کیا جو ان کی ذمہ داری بنتی تھی ۔اگر آمرانہ طاقتوں نے ملکی آئین کو بار بار روندتے ہوئے عوام پر ڈنڈے کے زور پر حکومت کی تو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے حکمرانوں نے بھی عوام کو ہمیشہ اپنا غلام بنائے رکھا۔
کسی دانشور کا قول ہے کہ ایک حقیقی لیڈر وہی ہوتا ہے جو اپنے آپ کو عوام کے مفاد کے لئے وقف کریں۔جبکہ ایک غیر حقیقی لیڈر وہ ہو تا ہے جو عوام کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرے۔ غیر جمہوری اور بین الاقوامی مفادات کے تحت بر سر اقتدار آنے والی حکومتوں میں فوجی آمر ضیاء الحق کی حکومت کو اس لحاظ سے بے مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔کہ اسی دور میں ہی در اصل پاکستان کے زوال کی بنیاد رکھی گئی۔ضیاء الحق نے اپنی آمریت کو دوام دینے اور اپنے بین الاقوامی سر پرستوں کے مفادات کے حصول کی خاطر پاکستانی معاشرے کو جس راہ پر ڈالااس نے تمام پاکستانیوں کی سوچ اور نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کئے، امریکی مفادات کے حصول کی خاطر معاشرے کو جس بنیاد پرستی کی طرف دھکیلا گیااس کا نتیجہ زندگی کے ہر شعبے میں نظر آنے لگا۔اس سے پہلے پاکستان میں رہنے والا ہر شخص چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہوتا، ایک پاکستانی کی حیثیت سے کسی بھی دوسرے پاکستانی کے ساتھ اپنے آپ کو جڑا ہوا محسو س کرتا۔لیکن ضیاء الحق کے اس نعر ے نے کہ ہم پہلے مسلمان ہیں بعد میں پاکستانی، ملک کے عوام میں آغاز سے موجود ایک وجہ مشترک ((Common Factor یعنی پاکستانی ہونے کو درمیان سے نکال ڈالا۔ تب لوگ پہلے مسلمان، ہندو، عیسائی اور پھر پاکستانی بننے لگے۔لیکن یہ سلسلہ یہی رکا نہیں بلکہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی گئی کہ وہ پہلے سنی یا شیعہ بلکہ پہلے دیوبندی یا بریلوی یا اہل حدیث یا اثناعشری یااسماعیلی غیرہ وغیرہ پھر پاکستانی ہے۔ایسا کرکے ضیاء الحق نے امریکی مفادات کے حصول یعنی افغانستان میں سویت فوجیوں کے خلاف جہاد پر لوگوں کو آمادہ کرنے میں تو کامیابی حا صل کر لی لیکن پاکستانی عوام کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کر دیا۔
اس عمل نے نہ صرف عوام کے اندر موجود اجتماعی ہم آہنگی کو درہم برہم کر دیا بلکہ ملک میں اسلحے کی ریل پیل، اقربا پروری ،کرپشن اور لاقانونیت کو بھی بام عروج پر پہنچا دیا۔امریکی امداد کی بے تحاشا آمداور جہادی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والے پیسوں کی ریل پیل اور لا قا نونیت نے جہاں ایک طرف عوام میں معاشی تناسب کو درہم برہم کر دیا وہاں اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر ضیاء الحق نے اقربا پر وری اور ہر شعبے میں سفارش کو رواج دے کر تمام ملکی اداروں میں کرپشن اور سفارش کو عام کر دیا۔ضیاء الحق کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بعد کی جمہوری حکومتیں ماضی کی پالیسیوں کو ترک کر کے ملکی مفادات پر مبنی نئی اور آزاد خارجہ پالیسی بناتیں اور عوام کے مختلف طبقات اور گروہوں کے درمیان نفرتوں اور تعصبات کا خاتمہ کر کے ایک نئے اور جدید پاکستان کی بنیاد رکھتیں۔ لیکن یہ ان کی نا اہلی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔کہ انہوں نے سابقہ دور آمریت کی پالیسیوں کو ہی جاری رکھا اور اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔افغانستان سے سوویت فوجیوں کی واپسی اور اس کے بعد کئی سالوں تک وہا ں رہنے والی خانہ جنگی نے بھی پاکستان کی صورت حال پر اپنے اثرات مرتب کئے۔ پاکستانی حکمرانوںاور اسٹیبلشمنٹنے اپنی نام نہاد تزویراتی گہرائی (Strategic Depth)کو بر قرار رکھنے کی خاطر افغان خانہ جنگی میں ملوث اپنے منظور نظر گروہوں کی سر پرستی نہ صرف جاری رکھی بلکہ پاکستان سے بھی جہادی گروپوں کو وہاں جا کر تربیت حاصل کرنے اور لڑائی میں حصہ لینے کی ترغیب دیتی رہی۔افغانستان میں طالبان کی شکست کے بعد ان جہادی گروپوں کا واپس پاکستان آنا لازمی امر تھا۔یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی آشیرواد سے تربیت پانے والے یہ جہادی آج خود پاکستان میں جس جہاد میں مصروف ہیں اس کا کیا نتیجہ نکل رہا ہے۔
پاکستان میں ان جہادیوں کی بدولت جاری اس فساد اور خون ریزی میں آج تک ایک اندازے کے مطابق ۳۵ ہزار سے زیادہ پاکستانی اپنی جانوں سے ہا تھ دھو بیٹھے ہیں۔ جو لوگ زخمی یا معذور ہو کر زندگی بھر دوسروں کے محتاج بن گئے ہیں وہ ان کے علاوہ ہیں جن کی تعداد کا اندازہ کسی کو نہیں۔ پاکستان میں جاری اس شدید بد امنی اور لا قانونیت نے جہاں ایک طرف ریاستی اداروں پر سے عوام کا اعتماد مجروح کیاہے وہی حکمرانوں کی نا اہلی اور بے بسی بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔اب تو پاکستان کا تقریباً ہر شخص اپنی زندگی اور شخصی مفادات کے تحفظ کی تگ و دو میں مصروف نظر آتا ہے۔اگرایک طرف غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ لگانے سے اجتناب کر رہے ہیں تودوسری طرف بڑی تعداد میں خود پاکستانی سرمایہ دار بھی اپنا سرمایہ لپیٹ کر ملک سے باہر بھاگنے میں مصروف ہیں۔ عوام غربت ، بے روزگاری اور فاقوں کے با عث خود کشی اور ڈکیتیوں کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔جبکہ حکومت کو اپنی شاہ خرچیوں سے فرصت نہیں۔اور غیر ضروری اور ذاتی دوروں پر کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔بجلی اور گیس کے بحران کی بدولت کارخانوں کی پیداواری صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ ریلوے، پی آئی اے سمیت تمام چھوٹے بڑے ادارے تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
وسیع معدنی ذخائر ہونے کے باوجود ملک میں توانائی کے بحران سے ان باتوں کو تقویت ملتی ہے کہ حکمران بیرونی دباؤ اور ذاتی منفعت کی خاطر ان مسائل کے حل سے گریزاں ہیں۔ حکومتی ارکان سمیت ہماری اشرافیہ ملکی وسائل کو لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے میں مسلسل مصروف ہیں۔ شاہانہ زندگی گزارنے والے او ر ماہانہ کروڑوں خرچ کرنے والے سال میں صرف چند لاکھ روپے کا ٹیکس دے کر تمام فرائض سے بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔ اربوں روپے کی کرپشن کرنے والوں کے چہروں پر ندامت کا زرا بھی تاثر تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ عدالتی انصاف کا یہ عالم ہے کہ سالوں تک انتظار کرنے کے باوجود مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو پاتا اور درجنوں بلکہ بعض اوقات سینکڑوں لوگوں کو دہشت گردی کے ذریعے قتل کرنے والوں کو با عزت بری کیا جاتا ہے۔مختلف ریاستی اداروں کی ہٹ دھرمی اور ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت بلکہ سینہ زوری کا چلن عام ہے اور بڑوں کی اس لڑائی میں عوام گھن کی طرح پس رہی ہیں۔ لے دے کے فوج ہی ایک ایسا ادارہ باقی بچا تھا جو سیاسی امور میں بے جا مداخلت اور جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے کے معاملات میں ملوث ہونے کے باوجود ایک منظم ادارہ سمجھا جاتاتھا ۔ لیکن اب اس کی بھی کارکردگی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں ۔
ان تمام معاملات میں کوئی بیرونی ہاتھ ملوث ہو یا پھر یہ آستین کے سانپوں کی کاروائی ہو۔ بہر حال ایک بات طے ہے کہ ملک میں ہر طرف ایک افراتفری کا عالم ہے۔ حکمرانوں سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ملک کو درپیش ان مسائل کو حل کر سکے۔عوام کی بیزاری اور بے یقینی بڑھ رہی ہے، چھوٹے صوبے بالخصوص بلوچستان میں آگ سلگ رہی ہے اور لوگوں کا غم و غصہ اس بات کی علامت ہے کہ وہاں کے عوام موجودہ صورت حال سے بالکل مطمئن نہیں لیکن ہمارے حکمران چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کو ختم کرنے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے اپنے سیاسی ایجنڈوں کے حصول کی خاطر نئے صوبے بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔نئے صوبے بیشک بنائیے، لیکن جو صوبے پہلے ہی سے اپنا وجود رکھتے ہیں وہاں کے عوام کو ان کے جائز حقوق تو دیں۔
اگرچہ چھوٹے صوبوں کے ساتھ نا انصافی کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں، بلکہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی چھو ٹے صوبوں بالخصوص بلوچستان کے ساتھ سوتیلی ماں جیساسلوک روا رکھا گیا لیکن یحیےٰ خان کے دور حکومت میں ون یونٹ کے قیام اور صوبوں کی حیثیت کو ختم کر کے ان کے تمام اختیارات کی مرکز کو منتقلی اور عوام کی خواہشات اور مینڈیٹ سے روگردانی نے بھی چھوٹے صوبوں کے عوام میں بے اطمینانی کو جنم دیا۔ حد تو یہ ہے کہ ۱۹۷۱ میں آبادی کے لحا ظ سے اکثریتی حصے مشرقی پاکستان میں عوام کی دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے والی شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو ان کے حق حکمرانی سے محروم رکھنے کی خاطر وہاں فوج کشی کی گئی ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں کے عوام اس نا انصافی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور یوں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش کی صورت میں ایک آزاد ریاست بن گیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستانی حکمران اور اسٹیبلش منٹ اس سانحے سے سبق سیکھتیں اور باقی ماندہ پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے اقدامات کرتیں لیکن چھوٹے صوبوں سے نا انصافی کا سلسلہ رک نہیں پایا بلکہ حقوق کی خاطر آواز بلند کرنے کی پاداش میں رقبے کے لحا ظ سے پاکستان کے سب سے بڑے اور معدنی وسائل سے مالامال صوبے بلوچستان پر بار ہا فوج کشی کی گئی اور صوبے کے عوام کی آواز کو بہ زور طاقت دبانے کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلوچستان کے عوام مرکز سے دور ہوتے گئے۔یہی وجہ ہے کہ آج بلوچستان کے عوام کی ایک قابل ذکر تعداد آزادی کے نعرے بلند کرتے ہوئے مرکز سے بر سر پیکار ہے ۔ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی ان نا انصافیوں میں بلا شبہ ہماری عدلیہ نے بھی ان کا ساتھ دیا اور نظریہ ضرورت کے تحت حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کے ہر ناجائزعمل کی نہ صرف پردہ پوشی کی بلکہ عدالت کے ذریعے انہیں جائز حیثیت بھی دلا دی۔
دوسری طرف اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی پر نظر ڈالی جائے تو بہ آسانی اس با ت کا اندازہ ہوجاتاہے کہ اگرچہ ہم اپنا گھر ٹھیک طرح سے نہیں سنبھال سکتے لیکن بڑے فخر سے دوسروں خصوصاً ہمسایوں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا اور ان پر اپنی مرضی کی پالیسی مسلط کرناہماری عادت بن گئی ہے۔ پاکستان اپنی بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاعی ضروریات پر خرچ کرتا ہے۔
اگر ہم ہمسایہ ملکوں کے ساتھ عدم مداخلت کی پالیسی پر صدق دل سے عمل کریں، تو اس سے نہ صرف ہمارے بہت سارے اندرونی مسائل حل ہو سکتے ہیں بلکہ ہندوستان اور افغانستان کی حکومتوں سے مفاہمت کی پالیسی اختیار کر کے ہم دفاعی اخراجات کو بھی کنٹرول کر سکتے ہیں۔ پاکستان ہندوستان اور افغانستان کے درمیان متنازعہ موضوعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کر کے ہم پاکستان کو بہت سارے بیرونی و اندرونی مشکلات سے نجات دلا سکتے ہیں جن میں امن و امان سر فہرست ہے۔ اگر ہم پاکستان کو مستقبل کے متوقع خطرات سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو ہمیں بہت ساری باتوں پر سنجیدگی سے توجہ دینی ہوگی ۔ عوام میں تحفظ اور ریاست پر ان کے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے حکومت کو چاہئے کہ سب سے پہلے امن و امان کی بحالی پر بھر پور توجہ دے۔ اچھے جہادی اور برے جہادی کی تکرار چھوڑ کر بلاتمیز ہر دہشت گرد کے خلاف بھر پور کاروائی کی جائے کیونکہ یاد رہے کہ جو لوگ ہمارے لئے برے جہادی ہیں وہ کسی دوسرے کے لئے اچھے جہادی ہو سکتے ہیں۔ دہشت گرد اگر صرف اس لئے اچھا ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک میں بے گناہوں کو قتل کر رہا ہے اور وہاں بم دھماکے کر رہا ہے تو جو لوگ ہمارے ہاں جہاد کے نام پر ہزاروں لوگوں کے قتل میں ملوث ہیں وہ بھی کسی اور کے منظور نظر ہو سکتے ہیں ۔ ایک دانشمند لیڈر کا قول ہے کہ اگر پانی چشمے سے ہی گدلا آرہا ہو تو اس کی فلٹر/ صفائی کا انتظام بھی وہی پر ہی ہونا چاہئے۔یہ نہیں کہ سینکڑوں کلومیٹر دور دریا کے پانی کو صاف کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے لازمی ہے کہ دہشت گردی کے مراکز کو نیست و نابود کیا جائے ، ورنہ شہروں میں اکا دکا دہشت گرد وں کے پکڑنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا ۔ عوامی مفادات اور خواہشات کو مد نظر رکھ کر نئی آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دینی ہو گی اور ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دینی ہو گی۔عوام کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے لازمی ہے کہ حکمران اپنی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں سے باز آجائیں اور عوامی فلاح کے منصوبوں پر خلوص دل سے کام کریں۔ بجلی ،گیس اور دیگر سہولیات کی سستی اورمسلسل فراہمی اور ڈوبتے اداروں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کی خاطر دوست ممالک سے تکنیکی مدد لی جائے اور اس سلسلے میں کوئی بیرونی دباؤ قبول نہیں کیا جانا چاہئے۔ قانون سب کے لئے یکساں ہو اور حکمران بھی اپنے آپ کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے۔ رشوت ، سفارش اقرباء پروری کے کلچر کو ختم کرنے کے لئے حقیقی معنوں میں انتہائی سخت اقدامات کئے جائیں ۔ بد عنوانی میں ملوث اشخاص کے لئے بے رحمانہ اور شفاف احتساب کاطریقہ کار رائج کیا جائے۔ حکمران اور اشرافیہ بیرون ملک رکھے اپنے اثاثوں کو ملک میں لا کر اور ان کی سرمایہ کاری سے روزگارکے نئے مواقع پیدا کریں۔ چھوٹے صوبوں بالخصوص بلوچستان کے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لئے لفاظی اور دلفریب وعدوں سے کام لینے کے بجائے حقیقی معنوں میں عملی اقدامات کئے جائیں تاکہ وہاں کی عوام کا عزت نفس بحال ہو اور وہ پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح باعزت اور برابری کی زندگی گزار سکیں۔
ہر ادارے کی حدود اور اختیارات کا تعین کر کے دوسرے ادارے کے معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا۔ عوام کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لئے لازمی ہے کہ عدالتی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں ۔ اور عدالتی نظام کو درپیش مسائل فوری حل کئے جائیں اور یہ سب تب ہی ہو گا جب ہمارے حکمران حقیقی لیڈرز کا کردار ادا کریں اور اپنے آپ کو عوام کے سامنے جواب دہ اور زذمہ دار تصور کریں۔ اس ضمن میں ملکی ذرائع ابلاغ کو بھی اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا اور پاکستانی معاشرہ میں تحمل ، رواداری ، ایک دوسرے کے عقائد کا احترام اور پر امن بقائے باہمی کی سوچ کو فروغ دینے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ تب ہی پاکستان اور اس کے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکتاہے۔
Nov 05, 2012
http://www.wahdatnews.com/ur/?p=941