دھوم دھام
دھوم دھام
اس رات وہ اپنی بیوی اور بچی کے ساتھ حاجی صاحب کے بیٹے کی شادی سے واپس گھر لوٹا تو کافی دیر ہو چکی تھی۔ راستے میں وہ اس عالیشان شادی کی ہی باتیں کرتے رہے۔مہمانوں کی تعداد تو اتنی تھی کہ صحیح اندازہ لگانا ہی مشکل تھا۔علاقے کا ہر معتبرشادی میں شریک تھا۔ نہ صرف علاقے کا عوامی نمائندہ بلکہ کئی ریٹائرڈ اور حاضرسروس آفیسران کے علاوہ مختلف برادریوں کے سربراہ، متعدد سیاسی اور سماجی تنظیموں کے عہدیدار سبھی اس تقریب میں شامل تھے۔شادی ہال کے باہر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی تھیں جنہیں دیکھ کر ہی تقریب کی شان و شوکت کا اندازہ ہو سکتا تھا۔شادی کی جگہ کا انتخاب بھی بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔یہ شہر کا سب سے پر امن اورمہنگا علاقہ تھا۔ایسی تقاریب میں صرف وہی لوگ شرکت کرسکتے تھے جن کے پاس اپنی ذاتی گاڑی تھی یا پھر وہ مہنگی گاڑیاں کرائے پر لینے کے متحمل ہو سکتے تھے۔
”ماشاء اللہ بہت زیادہ خرچہ کیا گیا تھا،پیسہ تو جیسے پانی کی طرح بہایا گیا تھا“ اس نے اپنی بیوی سے کہا جو شادی میں شریک قیمتی زرق برق لباس پہنے اور زیورات سے لدی پھندی خواتین کے بارے میں سوچ رہی تھی۔”ہاں میں آج تک جتنی شادیوں میں گئی ہوں یہ ان سب سے منفرد اور شاندار تھی۔کھانے تو اتنے لذیز تھے کہ میں انگلیاں چاٹتی ہی رہ گئی۔گھر پہنچنے پر وہ گاڑی سے اترے تو دیکھا کہ ان کی بچی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر سورہی تھی۔اسے جگا کر گھر کے اندر جانے لگے توان کی بوڑھی ملا زمہ کہیں سے نمودار ہوئی۔
”اماں کیسی ہے“؟ اس نے ملازمہ سے پوچھا۔”اسے پھر سے کھانسی کا شدید دورہ پڑا تھا۔میں نے دوائیں دے دی ہے تب جا کے سوئی ہے“ ٹھیک ہے تم بھی جاکے سوجاؤ اس نے ملازمہ سے کہااور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔کمرے میں پہنچاتو اس پر ایک تھکن سی طاری تھی۔بچی تو بستر پر گرتے ہی دوبارہ سو گئی۔لیکن اسے اس رات کافی دیر تک نیند نہیں آئی۔وہ مسلسل کسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔اگلی صبح صحن میں گملوں کو پانی دیکر وہ گھر کے اندر آیا تو اس کی بیٹی سکول جاچکی تھی جبکہ بیوی اس کے لئے ناشتہ لگانے میں مصروف تھی۔
”فاطمہ کچھ کھا کے گئی ہے یا پھر ہمیشہ کی طرح۔۔۔؟ اس نے بات ادھوری چھوڑی۔”وہ صبح کچھ کھاتی ہی کب ہے بس روز کی طرح اس نے آج بھی دودھ کا ایک گلاس ہی لیا ہے۔دراصل رات کو دیر سے سوئی تھی اس لئے صبح بھی بہت مشکل سے اٹھی ہے“۔دونوں کچھ دیر کے لئے خاموشی سے ناشتہ کرنے لگے۔”یہ حاجی صاحب کا بیٹا لندن میں کرتا کیا ہے؟“ بیوی نے ایک دم سوال پوچھا۔”شاید کوئی سپر سٹور چلاتا ہے“اس نے جواب دیا۔”لیکن میں نے تو سنا ہے کہ وہ کسی سٹور پر صفائی ستھرائی کا کام کرتا ہے“ اس کی بیوی نے کہا۔”اری نیک بخت لوگوں کی باتوں کی زیادہ پرواہ نہیں کیا کرتے۔تم نے دیکھا کہ کل رات کی تقریب کتنی شاندار تھی؟ حاجی صاحب تو ایسے خوش نظر آرہے تھے جیسے ان کی اپنی شادی ہو رہی ہو۔کیا تمھیں یاد نہیں کہ جب ہمارے بیٹوں کی شادیاں ہو رہی تھیں تب ان کے بارے میں بھی لوگ کچھ اسی قسم کی باتیں کیا کرتے تھے کہ امریکہ میں ہوٹل ان کا اپنا نہیں بلکہ وہ تو وہاں برتن وغیرہ دھونے کا کام کرتے ہیں۔ اسی لئے کہتا ہوں کہ لوگوں کی باتوں پر زیادہ دھیان مت دیا کرو۔وہ کچھ بھی کرتے ہوں ہمارے لئے پیسے تو بھیجتے ہیں اگر وہ یہ ڈھیر سارے پیسے نہ بھیجتے تو خود سوچو کہ کیا آج ہمارے پاس یہ شاندار مکان ہوتا،اور یہ گاڑی،یہ آرام و آسایش یہ سب انہی کے دم سے تو ہیں۔اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم نے جس طرح اونچے گھرانوں میں ان کے رشتے کرائے اور دونوں کی شادیوں پر جتنا خرچہ کیا،کیا وہ کوئی معمولی بات تھی؟
کیا آپ کو یاد نہیں کہ کافی عرصے تک پوری برادری میں ان کی شادیوں کے ہی چرچے رہے؟ ورنہ تمھیں تو معلوم ہے کہ ہم نے شروع میں کیسی عسرت زدہ زندگی گزاری۔ ہماری شادی ہوئی تو ہمارے پاس تھا ہی کیا؟بس ایک ٹوٹا پھوٹا کچا مکان۔ ابوتو طویل عرصے سے بیمار تھے۔مجھے بھی امی نے ہی پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ہم اپنے بچوں کو بھی زیادہ اچھی تعلیم نہیں دلا سکے نہ ہی ابو کا ٹھیک طریقے سے علاج ہو سکا۔تبھی تو وہ وقت سے پہلے ہی چل بسے۔یہ ہمارے بیٹے ہی تو تھے جنہوں نے مکان بیچ کر باہر جانے کی ضد کی۔ پھر انہوں نے وہاں جاکر کمانا شروع کیاجس کے بعد ہم نے نہ صرف اس اچھے علاقے میں اپنا یہ شاندار مکان بنا لیا بلکہ دونوں کی شادی بھی دھوم دھام سے کرادی۔آج یہ عالم ہے کہ جو لوگ پہلے ہمارے سلام کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اب ہماری خیریت پوچھنے ہمارے گھر آتے ہیں۔برادری کا کوئی مسئلہ ہو لوگ ہمارے ہی گھر جمع ہوتے ہیں،اب ہمارے مشوروں کو بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔کیا یہ اللہ کی شان نہیں؟مجھے تو بس اس بات کا افسوس ہے کہ ہمارا کوئی اور بیٹا نہیں ورنہ میں اس کی شادی اتنی دھوم دھام سے کراتا کہ لوگ حاجی صاحب کے بیٹے کی شادی کو بھول جاتے“
وہ انہی باتوں میں مگن تھے جب بوڑھی ملازمہ گھبرائی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی اور بتایا کہ اماں کو نہ صرف کھانسی کا دوبارہ شدید دورہ پڑا ہے بلکہ انہیں سانس لینے میں بھی دشواری ہو رہی ہے۔دونوں تیزی سے اٹھے اور اماں کے کمرے کی طرف بھاگے۔انہیں دیکھا تو لگا جیسے وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہوں۔جب تک وہ ان کے قریب پہنچتے اماں نے ایک آخری ہچکی لی اور ساکت ہوگئی۔
اسکی بیوی نے اس غیر معمولی صورت حال کو بھانپتے ہوئے ایک چیخ ماری اور رونے لگ گئی۔اسے بھی لگا کہ اس کی ماں شاید تمام تکالیف سے آزاد ہو چکی ہے۔یقین کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔اس کی ماں نے بہت مشکل حالات میں اسے پالا پوسا تھا۔اس نے بھی ماں کی خدمت کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی تھی۔ماں بیمار پڑی تو اس نے ہر اس ڈاکٹر سے رجوع کیا جو اس کی ماں کا علاج کر سکتا۔تب پیسوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔وہ اسے شہر سے باہر بھی لیکر گیا لیکن سب ڈاکٹروں کا ایک ہی خیال تھا کہ جو بیماریاں انہیں لاحق تھیں اس عمر میں ان کا علاج ممکن نہیں تھا۔اس لئے اس نے گھر پر ایک کل وقتی ملازمہ کا بندوبست کر رکھا تھاجو ماں کی ضروریات کا خیال رکھتی تھی۔
وہ چاہ رہا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر روئے لیکن اسکی مردانگی آڑے آرہی تھی۔وہ ایک ٹک اپنی مردہ ماں کے چہرے کی طرف دیکھے جارہا تھا۔تب بوڑھی ملازمہ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا”اپنے آپ کو سنبھالئے اور آگے کی سوچئے۔اللہ کی مرضی کے آگے سب کو سر جھکانا پڑتا ہے۔اپنے رشتہ داروں اور برادری کے لوگوں کواطلاع دیں تاکہ ان کی آخری رسومات کا بند و بست ہو سکے۔ضبط کے باوجود اس کی آنکھیں بھر آئیں۔اس کی بیوی بین کرتے ہوئے زارو قطار رو رہی تھی۔اسے یاد آیا کہ کل تک وہ کتنے خوش تھے۔ حاجی صاحب کے بیٹے کی شادی سے واپس آئے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اگلے دن یہ سانحہ ہونے والا ہے۔
حاجی صاحب کے بیٹے کی شادی کا خیال آیا تو ذہن کچھ دیر کے لئے بے اختیار پھر ادھر چلا گیا۔دل میں اک ہوک سی اٹھی”کاش میرا کوئی اور بیٹا ہوتاتو اس کی شادی اتنی دھوم دھام سے کراتا کہ۔۔۔؟“اچانک اس کے دماغ میں ایک شعلہ سا لپکا۔میرا کوئی اور بیٹا نہیں تو کیا ہوا؟ ماں کی آخری رسومات اتنے دھوم دھام سے انجام دوں گا کہ لوگ حاجی صاحب کے بیٹے کی شادی کوبھی بھول جائیں گے۔
یہ سوچ کر اس نے اپنی مری ہوئی ماں پر ایک نظر ڈالی،آنکھوں سے چھلکنے کے لئے بے تاب آنسوؤں کو ہاتھوں سے پونچھا اور موبائل نکال کر نمبر ملانے لگا۔