مجھ کو یقین ہے
مجھ کو یقین ہے
بخدمت جناب اسلامی جمہوریہ پاکستان
جناب عالی!
مودبانہ گزارش ہے کہ میں اُن عام پاکستانیوں میں سے ایک ہوں جو پاکستان کے ہر گوشے میں آبادہے۔ میں خودکوئٹہ کا باسیہوں لہٰذا کوئٹہ کے حوالے سے بات کروں گا۔ اپنا صحیح تعارف کرانے کے لئے میرے لئے اتنا کہناہی کافی ہے کہ میں وہ ہوں جسے آئے دن مولی گاجر کی طرح کاٹ کے رکھ دیا جاتا ہے۔مجھے روز قتل کیا جاتا ہے۔کسی کوڈرانا ہوتو چھری میرے گلے پر پھیری جاتی ہے اورکسی کو خوش کرنا ہو تو بھی میرا ہی لہو بہایا جاتا ہے۔آپکے دوست اسلامی ملکوں کے درمیان جاری سرد جنگ کا شکار بھی میں ہی ہوں اور ٹکڑوں میں بٹی سرد لاشوں کوجمع کرنے کی ذمہ داری بھی میرے ہی سپرد ہے۔الیکشن ملتوی کرنے ہوں تو میری لاش گرائی جاتی ہےاور بلوچستان کو بچانا ہو تو بھی مجھے کاٹ کے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میری بے کار زندگی کسی اچھے مقصد کے لئے قربان ہو رہی ہے۔اگر میری قربانی دے کرکچھ”دوست“اسلامی ملکوں کی خوشنودی حاصل کرکے وطن عزیز کی ترقی کے لئے خیرات حاصل کی جاسکتی ہے یاکچھ بلوچ سرپھروں (سرمچاروں)کو ڈرا دھمکا کے پاکستان کو ان کے شر سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے تو ”صد بسم اللہ“۔
مجھے توسو نقابوں کے پیچھے چپے آپ کے منظور نظر فرشتوں کے ان لشکروں سے بھی کوئی گلہ نہیں جو ان عظیم مقاصد کی تکمیل کی خاطردن رات مصروف عمل ہیں۔آخر وہ بھی تو دین اور ملک کی ہی خد مت کر رہے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ ان فرشتوں کوہرگزاس بات میں دلچسپی نہیں کہ ہمیں ڈرا دھمکا کے بھگانے اور پاکستان کو ہمارے وجود سے پاک کرنے کی کوشش کریں بلکہ اس کے بر عکس ان کے جہاد کا مقصد یہی ہے کہ ہم جیسے پاکستان دشمن لوگ ملک کی قدرو قیمت سے واقف ہوں ۔یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ وہ اپنے اس مقدس مشن میں کامیاب ہو چکے ہیں اور ان کے ان اقدامات کے نتیجے میں ہماری قبروں کی تعداد میں جتنا اضافہ ہوا ہے اس سرزمین سے ہمارا رشتہ بھی اتنا ہی مضبوط ہوا ہے جو ہم جیسے ملک دشمن عناصر کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
مجھے اس بات کا بھی افسوس نہیں کہ قتل کرنے والے تو اپنے ان نیک کاموں کی ذمہ داری قبول کرنے سے زرا بھی نہیں ہچکچاتے جبکہ عوام کی حفاظت کی ذمہ داری کوئی بھی قبول نہیں کرتا میں اس درخواست کے زریعے آپکا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے اداروں نے ہمارے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے جتنے دعوے کئے اور جتنے بیانات دئے اس سے ہمارا خون سیروں بڑھ چکا ہے۔اب کیا یہی کم ہے کہ ہمارے قتل عام کے سوگ میں آپ کا جھنڈا تین روز تک سر نگوں رہا؟
میں نے ہمیشہ آپکے اداروں پہ اعتبار کیا ہے۔ مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ آپ کی اپنی بھی بہت ساری ذمہ داریاں اور مجبوریاں ہیں ،کیوں کہ آپ عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہیں لہٰذا آپ نے پاکستان کے علاوہ ہمسایہ ملک افغانستان کی سلامتی کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے اور چونکہ پاکستان ہی تو دنیا میں اسلام کا واحد قلعہ ہے اس لئے اسلام کا بھی بول بالا رکھنا آپ کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ مجھے اس بات کا سو فیصد یقین ہے کہ اگر خدا نخواستہ پاکستان کو کوئی نقصان پہنچا تو اسلام کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔
مجھے اسلام دشمن اور پاکستان مخالف ہیومن رائٹس کمیشن اورہیومن رائٹس واچ وٖغیرہ وغیرہ کی ان رپورٹوں پر کبھی بھی اعتبار نہیں آیا جن میں آپ کے مقدس اداروں پر اُنگلی اُٹھائی گئی تھی اور ان کو ہمارے قتل عام میں برابر کاشریک ٹہرایا گیا تھا۔ مجھےاس بات کایقین ہے کہ انسانی حقوق کی آڑ میں کام کرنے والے یہ نام نہاد ادارے دراصل غیر ملکی ایجنٹ ہیں اور یہودی لابی کے لئے کام کرتے ہیں۔اس کے بر عکس اگر مجھے اعتبار ہے تو اپنی فوج کے ترجمان پر جنکا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی یہ تنظیمیں وطن دشمنوں کی آلہ کار ہیں اور ان کے بیانات سے پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہو سکتا ہے ( اُنہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا ہوا بھی ایسے ہی) میں نے پاک افواج کے سپہ سالار کے اس بیان کو بھی کئی باراپنی آنکھوں سے چوما جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کوئٹہ میں فرقہ وارانہ دہشت گردوں کا تعلق صرف دو مدرسوں سے ہے جن کو ختم کرنا کوئی مشکل کام نہیں بشرطیکہ حکومت ہمیں ایسا کرنے کو کہے۔
مجھے تو ان بین الاقوامی زرائع ابلاغ کی خبروں سے بھی سازش کی بو آتی ہے جو آئے دن ہمارے قتل عام کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹ کے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ میں کچھ بدخواہوں کی ان باتوں کو بھی سراسر بکواس سمجھتا ہوں جن کے مطابق کوئٹہ کے کسی عام پولیس سپاہی کو بھی دہشت گردوں کے نام، خاندانی پس منظر،ٹھکانوں،مختلف اداروں سے ان کی وابستگی حتیٰ کہ ان کے استعمال میں موجود موٹرسائکلوں اور گاڑیوں تک کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہے۔اگرمجھے یقین ہے تو گورنر بلوچستان کی نیک نیتی اور خلوص پر مبنی اس اعلان پر جس کے مطابق ان دہشت گردوں کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے والے کو ایک کروڑ روپے انعام دیا جائے گااور مجھے یقین ہے کہ اطلاع دینے والے کا نام اُتنا ہی صیغہ راز میں رکھا جائے گا جتنا دہشت گردوں کو صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے۔
مجھے اس بات کا بھی مکمل احساس ہے کہ اسلام خصوصاَ پاکستان کے خلاف دنیا بھر میں سازشیں اپنی عروج پر ہیں۔امریکہ،اسرائیل اور بھارت توہاتھ دھو کے اس مملکت خداداد کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو یہ بات کسی طرح ہضم ہی نہیں ہورہی کہ غربت، بے روز گاری،تعلیم کی کم شرح، پسماندگی اور بد امنی کے باوجود ایک اسلامی ملک ایٹمی طاقت کیسے بنا؟درحقیقت ان کو ہمارے ایمان کی حرارت اور ہمارے جوش اور جذبے کا اندازہ ہی نہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ ہم بھوک سے مر تو سکتے ہیں لیکن دشمن کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتے کہ وہ ہماری طرف میلی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔یہاں میں ایک وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ دشمن سے میری مراد وہ لوگ ہر گز نہیں جو آئے دن بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے زریعے ”گناہ کاروں“ کو واصل جہنم کرتے ہیںکیوں کہ وہ ہمارے ہی تو بچے ہیں ہم ہی نے انہیں پال پوس کے بڑا کیا ہے اور وہ ہماری ہی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ویسے بھی بچوں کی چھوٹی موٹی غلطیوں کو در گزر کرنا بڑوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔
لیکن کیوں کہ جناب عالی میں ایک اچھا پاکستانی اور سچا مسلمان ہوں اور ملک کے مفادات پہ اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہوں۔اس لئے میں تہہ دل سے آپ کا اور آپکے اداروں کا شکر یہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے ہمارے تحفظ کی خاطر بر وقت اقدامات اُٹھائے۔ آپ کا یہ احسان بھی میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا کہ تیرہ سالوں کے قتل عام،تیرہ سو زندگیوں کی قربانی اورہزاروں زخمیوں، معزوروں،یتیموں اور بیواؤں کی آہ و بکاہ کا آپ نے ”بروقت“ نوٹس لیتے ہوئے کچھ دہشت گرد پھڑکا کے اور چند مشکوک افراد گرفتار کرکے ہمیں اس بات کا احساس دلایا کہ ہمیں مزیدپریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں اب مجھے اس بات کا مکمل اطمینان ہو چکا ہے کہ ہمارے محافظ ابھی زندہ ہیں اور ہمارا مزید کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔
جناب عالی
کچھ دنوں سے آپ کے عقلمند اداروں نے ہمارے ارد گردخوشنما دیواریں کھڑی کرنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس نے میرے اندر تحفظ کا کچھ زیادہ ہی احساس پیدا کردیا ہے۔ ان پکی دیواروں کو میں کوئٹہ کی خوبصورتی میں ایک اچھا اضافہ تصور کرتا ہوں۔ ان اونچی دیواروں کی تعمیر کے بعد ہمارے ہمسایوں نے بھی یقینا سکھ کا سانس لیا ہوگا جو پچھلی ایک دہائی سے ہماری آہیں اور سسکیاں سن سن کے بیزار آچکے تھے۔اب انکو سکون کی نیند سونے کے لئے اپنے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونسنے کی ضرورت باقی نہی رہی۔ آپ کی اس مہربانی کی بدولت اب ہمارے بچے بھی پڑوس کے بچوں کے ساتھ نہیں کھیل سکیں گے۔نہ کوئی ”ہائیڈ اینڈ سیک“ ہوگانہ کوئی شور شرابہ۔ اب مجھے اپنے ہمسایوں کی خوشی اور غم میں بھی شرکت کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ اب وہ میرے ہمسائے ہی نہیں رہے۔ہمارے درمیان آپ نے یہ اونچی اور پختہ دیواریں کھڑی کرکے ہمیں ایک دوسرے کے شر سے محفوظ رکھنے کا جو مناسب اور شرعی طریقہ نکالا ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ آپ کے حکمرانوں کی طرح مجھے بھی اس بات کا پختہ یقین ہے کہ لاکھوں لوگوں کو ایک قلعے میں بند کر کے انہیں تحفظ فراہم کرنا زیادہ آسان ہے بجائے اس کے کہ کچھ سو دہشت گردوں کو گرفتار کرکے اُنہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
ویسے تو پاکستان شروع ہی سے اسلام کا قلعہ تھا لیکن تعریف کرنی چاہئے آپ کے پالیسی سازوں کی جن کے مشوروں اور اقدامات کی بدولت آج اس قلعے میں اتنے زیادہ قلعوں کا اضافہ ہوچکا ہے کہ اب پاکستان کو بجا طور پر قلعوں کا پاکستان کہا جا سکتا ہے۔کسی جگہ کو ریڈزون قرار دے کر کنٹینرز کی مدد سے قلعے میں تبدیل کردیا گیا ہے تو کسی مقام کو حساس قرار دے کر اور ارد گرد اونچی دیواریں اور بُرج تعمیر کرکے مکینوں کے لئے محفوظ بنا دیا گیاہے۔ حکمرانوں کی بات تو میں کرتا ہی نہیں کہ ان کو قلعوں میں رہنے کی عادت ہے۔ میں تو اپنے جیسے عام آدمی کی بات کر رہا ہوں ۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خاکم بہ دہن میں خواص اور عوام کی حفاظت کی خاطر اُٹھائے گئے ان خصوصی اقدامات کے خلاف ہوں یا پھر کچھ دیگر سازشی عناصر کی طرح انہیں عوام کے مختلف طبقات کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کا باعث سمجھتا ہوں بلکہ میں تواس درخواست کے زریعے انتہائی عاجزی کے ساتھ آپ کے محب وطن اداروں کی حب الوطنی،وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی قابلیت اور خصوصاَ آپکے جاذب نظر اور انتہائی بردبار وزیر داخلہ کی بصیرت، عوام سے انکی محبت اور سچی پیشین گوئیوں کی ان کی بے پناہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے آپ سے دست بستہ گزارش کرتا ہوں کہ آپ ان سب کو اس بات کی سختی سے تاکید کریں اور انہیں اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ اپنی ان کامیاب پالیسیوں کو اسی طرح جاری و ساری رکھیں اوراسی طرح بروقت اور صحیح فیصلے کرتے رہیں تاکہ بانی پاکستان اور شاعر مشرق کے خوابوں کی حقیقی تعبیر حاصل کی جاسکے اور پاکستان کو جنت کا نمونہ بنایا جا سکے۔
مجھے اُمید ہے کہ آپ میری درخواست پر ہمدردانہ غورکرکے مجھے شکریہ کا موقع دیں گے
فقط آپ کا تابعدار
ایک پاکستانی (بقلم خود)
پتہ ۔ علمدار روڑکوئٹہ پاکستان
یہ مضمون پہلی بار ڈان اردو پر شائع ہوا ۔
Saturday 9 March 2013
http://urdu.dawn.com/2013/03/09/mujh-ko-yaqeen-hai-riza-changezi-aq/