کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں!
آج جب میں ٹیلی ویژن پر عبدالستاّرایدھی کے بارے میں ایک پروگرام دیکھ رہا تھا تو مجھے کچھ سال قبل کراچی میں گزارے ہوئے اپنے وہ دن یاد آگئے جب میں وہاں اپنے علاج کے سلسلے میں مقیم تھا۔دن بھر ہسپتالوں کے چکر لگانا اور گھنٹوں سٹریچر پر لیٹے ڈاکٹروں سے ملاقات کے لئے اپنی باری کا انتظارکرنا! کئی دن اسی طرح گزرجاتے۔حالت ایسی نہیں تھی کہ آنے جانے کے لئے عام سواری کا انتخاب کرتا لہٰذا فون کرکے ایدھی ایمبولینس منگوالیا کرتاتھا۔ایمرجنسی فون ملانے پر ایدھی سنٹر کا خوش اخلاق عملہ فون اُٹھاتا،مریض کا نام و پتہ اوراُس کی منزل کے بارے پوچھتا،اور کوئی رابطہ نمبر لیکراور ایمبولینس کی آمد کا متوقع وقت بتا کر فون بند کردیتا۔تین سالوں کے دوران میں نے درجنوں بار ایدھی کی اس سروس سے استفادہ کیا لیکن مجال ہے کہ کبھی کسی ایمبولینس ڈرائیور نے کرائے کے معاملے پر کوئی حجت کی ہو۔جتنا ہم نے اُسے تھما دیا اُس نے بلا حیل و حجّت خاموشی سے رکھ لیا۔
اگر کبھی کسی موقع پر اُنہیں زیادہ انتظار بھی کرنا پڑ جاتاتو بھی نہ اُن کی پیشانی پرکبھی کوئی شکن نمودار ہوتی اور نہ ہی زیادہ معاوضے کا تقاضا کیا جاتا۔ میرے لئے تو یہ ایک نعمت سے ہرگز کم نہیں تھا۔پھر انہی دنوں جب میں اچھے دنوں کی آس لگائے سارا دن بستر پہ پڑا رہتا تھا تب ایک مہربان خاتون نے مجھے پڑھنے کے لئے دو کتابیں لا کر دی۔اُن کا مقصد یقینا یہی ہوگا کہ ان کتابوں کے مطالعے سے نہ صرف میرا وقت اچھّا گزرے بلکہ اس طرح شاید مجھ میں اپنی بیماری سے لڑنے کا حوصلہ بھی پیدا ہو۔ان کتابوں کے نام تو اس وقت ذہن میں نہیں آرہے لیکن ان میں سے غالباَ ایک کتاب کچھ سیلف میڈلوگوں کے بارے میں تھی۔ایسے لوگوں کے بارے میں جن کی زندگی میں بہت ساری مشکلیں آئیں لیکن اُنہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور بالآخراپنا مقصد پانے میں کامیابی حاصل کرلیں۔
کتاب کا جو حصہ مجھے سب سے ذیادہ اچھا لگا اور مجھے آج تک یاد ہے وہ عبدالستّار ایدھی کے بارے میں تھا۔اسے پڑھ کر میں پہلی بارانسانیت کے کچھ ان دیکھے پہلوؤوں سے آشنا ہوا۔ایک ایسا شخص جس کا ادارہ نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس چلاتا ہو بلکہ اپنے درجنوں ذیلی اداروں کے زریعے ہزاروں بلکہ لاکھوں یتیموں، بیواوؤں، مریضوں ، بوڑھوں اور لاوارثوں کی کفالت کرتا ہو، جن کے اربوں روپوں کے اثاثے ہوں، زرا اسکی ذاتی زندگی ملاحظہ کریں کہ اس نے جو کپڑے پہن رکھے ہیں یہ وہی ہیں جوتدفین سے قبل کسی لا وارث میت کے جسم پر موجود تھے۔رنگ اور پالش سے عاری پرانے جوتے بھی کسی گمنام مردے کی باقیات میں سے ہونگے جسے ایدھی کے رضا کاروں نے ایدھی ہی کے کسی قبرستان میں امانتَا دفنادیا ہوگا۔اس کے علاوہ ایک پرانی سی سالخوردہ ٹوپی جو ہمیشہ بڑے وقار اور تمکنت کے ساتھ اس جوان بوڑھے کی پیشانی پر ٹکی رہتی ہے۔وہ اگر چاہے تو دنیا کی بہترین گاڑیاں اپنے ذاتی استعمال میں لا سکتا ہے لیکن کہیں ضروری آنا جانا ہو تو اسی ایمبولینس کا سہارالیتا ہے جس میں عام مریضوں،زخمیوں اور میتوں کو لایااور لے جایا جاتا ہے۔
بہترین کھانے کھانے کی سکت رکھنے کے باوجود وہ اور ان کے بچّے وہی کچھ کھاتے ہیں جو بیواوؤں، یتیموں، مریضوں، گھر سے دھتکارے ہوئے بوڑھوں اور لاوارثوں کے لئے پکایا جاتا ہے۔بیٹی کا گھر بھی اسی ادارے کے ایک کونے میں ہے جہاں لا وارث عورتیں کھانے پینے اورچھت کی فکروں سے بے نیاززندگی کے ایّام گزار رہی ہیں۔اپناگھر قیمتی فرنیچر سے عاری اور دفتر ایک پرانی میز،کرسی اور الماری سے مزّین۔کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک نوجوانڈاکٹر ان کے پاس آیا اور بطورِرضاکار ان کے ادارے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور ساتھ ہی ان سے درخواست کی کہ چونکہ اس کے پاس کوئی ذاتی سواری نہیں لہٰذا اسے اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ ادارے کی کسی ایمبولینس پر آیا اورجایا کرے۔ایدھی نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ایمبولینس ضرورت مندوں کی خدمت کے لئے ہیں اگر وہ بغیر کسی شرط و شرائط کے کام کرنا چاہے تو ٹھیک ورنہ اپنی راہ لے سکتا ہے۔
ایسے ہی جب ایک ثروتمند آدمی نے اسے فون کرکے کہا آپ فلاں جگہ تشریف لائیں کیونکہ وہ اس کے ادارے کولاکھوں روپے عطیہ دینا چاہتے ہیں تو ایدھی نے انکار کرتے ہوے کہاکہ وہ اپنا عطیہ کسی بینک کے ذریعے جمع کراسکتے ہیں کیونکہ اسے ایسے عطیات نہیں چاہئے جس سے نمودونمائش کی بو آتی ہو۔لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب کسی کام کے لئے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کشکول گلے میں ڈال کرگلی گلی گھومنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ ملک میں کہیں بھی کبھی بھی کوئی حادثہ ہوجائے، قدرتی آفت آ جائے یاانسان دوسرے انسانوں کا خون بہانے لگے اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ متّاَثرین کا تعلق کس قوم،مذہب،علاقے یا زبان سے ہے ایدھی کے رضاکار سب سے پہلے پہنچ جاتے ہیں۔ کبھی کبھار اسے دیکھ کر میں سوچ میں پڑجاتا ہوں کہ یہ کیسا آدمی ہے؟ لوگ تو ایک پرتعیّش زندگی کی خاطر کیا کچھ نہیں کرتے۔غریبوں اور مساکین کے منہ سے نوالہ چھین لیتے ہیں،مساجد اور درگاہوں کی تجوریوں میں پڑنے والے پیسوں سے اپنے لئے محلّات اورجائیدادیں تعمیر کر لیتے ہیں،عوامی فلاح کے منصوبوں کی آڑ لے کر بڑی بڑی زمینوں اور جاگیروں کے مالک بن بیٹھتے ہیں۔
اچھی خوراک،اچھے کپڑے،خوبصورت گھر،پر تعیّش گاڑیاں اور پرآسائش زندگی۔انہی کے لئے تو لوگ زندگی بھر محنت کرتے ہیں یا پھر چوری کرتے، ڈاکہ ڈالتے،جھوٹ بولتے،لوگوں کو دھوکہ دیتے حتٰی کہ قتل بھی کردیتے ہیں۔لیکن ایک یہ ہے کہ نہ اسے نمودو نمائش کا شوق نہ ڈیزائنر کپڑوں کی تمنّا، نہ لمبی چوڑی گاڑیوں کی طلب،نہ وسیع و عریض مکان کی خواہش اور نہ ہی جاہ و منصب اور اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کی ہوس۔حالانکہ خود ان کے بقول ان کے ذاتی اکاونٹ میں بھی اچھی خاصی رقم ہے جو ان کے سماجی خدمات کے نتیجے میں انہیں دنیا بھرسے ایوارڑز کی شکل میں ملی ہے۔ پھر یہ دوسروں کے غم میں کیوں اتنا ہلکان ہوئے جارہا ہے؟اسے تو اس عمر میں گھر بیٹھ کر اللہ اللہ کرنا چاہئے ویسے بھی ایسے موقعوں پر ہمارے ہاں لوگ تو کہتے ہی ہیں کہ اتنی دولت کیا کوئی اپنے ساتھ قبر میں لے کرجاتا ہے؟کبھی کبھارتومیں بھی یہی سوچ کے رہ جاتا ہوں کہ یہ ان پیسوں سے کوئی اچھی گاڑی یاکم از کم اچھے کپڑے جوتے اورٹوپی کیوں نہیں خریدتا یااپنی آخری زندگی عیش و آرام میں کیوں بسر نہیں کرتا؟
کوئی بھوکا ہے تو اس کی بلا سے،یتیم اور بے آسرا بچّے دربدر کی ٹھوکریں کھانے اور گداگری پر مجبورہیں تو ہوا کریں کہ یہ تو انکی قسمت میں لکھا ہوا ہے اگر روزانہ بے گناہ لوگوں کی لاشیں گرتی ہیں تو کیا؟آخر کوئی نہ کوئی ان لاشوں اور زخمی اجسام کو اُٹھاکر لے ہی جائے گا۔کیا اس نے ان سب کاموں کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟اور پھر کیا کرے گا وہ اتنے پیسوں کا؟کیا انہیں اپنے ساتھ قبر میں لے کر جائے گا۔۔۔۔؟لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر وہ میرے خیالات جان بھی لے تو بس مسکرا کے رہ جائے گاکیوں کہ اس کو معلوم ہے کہ جب وہ وقت آئے گا تو وہ تہی دست نہیں ہوگا تب نہ صرف لاکھوں یتیموں،بے آسراؤں اور دھتکارے ہوئے لوگوں کی دعائیں اس کے ساتھ ہونگیں بلکہ وہ دنیا میں انسانیت اور انسان دوستی کی ایک روشن لکیر بھی چھوڑ کر جا رہاہو گا۔