انتخابات، امید کی ایک کرن
انتخابات، امید کی ایک کرن
پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست نے فیس بک پر ایک فہرست شیئرکی تھی۔ یہ ان امیدواروں کی فہرست تھی جو کوئٹہ کے حلقہ پی بی 2 سے الیکشن میں حصہ لینے جارہے ہیں۔ اس میں تقریباَ 47 لوگوں کے نام تھے۔ مجھے ایک ہی حلقے سے امیدواروں کی اتنی تعداد دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ وجہ یہ تھی کہ ایک تو یہ ابتدائی فہرست تھی جس میں اصل امیدواروں کے علاوہ ان کے متبادل امیدواروں کے نام بھی شامل تھے۔ دوسرا یہ کہ ابھی ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال کا مرحلہ بھی باقی تھا۔ جو لوگ اس سے قبل انتخابات کا نزدیک سےمشاہدہ کر چکے ہیں وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ جوں جوں انتخابات کے دن قریب آتے ہیں، امیدواروں کی تعداد میں کمی ہونے لگتی ہے۔ کچھ تو مقررہ وقت میں ہی اپنے کاغذات باقاعدہ طور پر واپس لے لیتے ہیں جبکہ کچھ امیدوار مناسب وقت دیکھ کر کسی دوسرے کے حق یا پھر پبلک کے پرزور اصرار پرقوم کے حق میں الیکشن سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔ یہ صرف پی بی 2 کا ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کا کلچر ہے۔ آپ کوئٹہ کے کسی بھی قومی یا صوبائی اسمبلی کے حلقے کا جائزہ لیں تو صورت حال ایک جیسی نظر آئے گی۔ دراصل سیاسی پاٹیوں کی بھر مار اور وسیع اختلاف رائے کی موجودگی میں ایسا ہونا ایک فطری بات ہے۔ اور اس کا اطلاق صرف ہزارہ قوم پر ہی نہیں ہوتا بلکہ پاکستان جیسے ملک میں آپ کوہر طرف کچھ ایسا ہی منظر نظر آئے گا۔
ہماری بدقسمتی کہہ لیں کہ ہم بحیثیت قوم اگر کہیں سے اپنا نمائندہ منتخب کر سکتے ہیں تو وہ کوئٹہ کے ہی بعض حلقے ہیں۔ لہٰذا ہمارا خوف بھی بجاہے اسی لئے امیدواروں کی زیادہ تعداد دیکھتے ہی ہم چیخنا چلانا شروع کرتے ہیں کہ “اس بار یہ سیٹ تو ہاتھ سے گئی”۔ اس مرتبہ بھی کچھ لوگ ابھی سے اس خوف کا اظہار کرنے لگے ہیں حالانکہ ابھی بادل چھٹنے اور مطلع صاف ہونے میں کافی وقت باقی ہے۔ اور پھر یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ لوگ اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں بلکہ جب بھی انتخابات ہونے لگتے ہیں یہ باتیں بڑی تیزی سے گردش کرنے لگتی ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کوئٹہ کی تاریخ میں صرف ایک مرتبہ (غالباَ 1993امیں) ایسا ہوا کہ کوئی ہزارہ امیدوار پی بی دو کی نشست نہیں جیت سکا۔ تب ہزارہ قوم کو اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اگر اسمبلی میں ان کا کوئی نمائندہ نہ ہو تو اُنہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس نشست سے محروم ہونے کی کیا وجہ تھی یہ تو مجھے یاد نہیں ہاں البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ اس الیکشن میں تنظیم نسل نو ہزارہ مغل کے چیئرمین جناب غلام علی حیدری بھی امیدوار تھے۔ یہ بات بھی مجھے اس لئے یاد رہ گئی کہ جس دن حیدری صاحب نے بنفس نفیس انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیااسی دن سے ان کے مخالفین اس بات کی پیش گوئی کرنے لگ گئے کہ “اس مرتبہ تو سیٹ ہاتھ سے گئی”۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ جب جب تنظیم نے جس اُمیدوار کی حمایت کی وہ الیکشن ہار گیا اورچونکہ اس بارخود ان کے چیئرمین انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اس لئے اس مرتبہ یہ سیٹ ہی ہاتھ سے چلی جائے گی۔ اب اسے اتفاق ہی کہہ سکتے ہیں کہ ویسا ہی ہوا اور پھراس کے بعد جہاں حیدری صاحب نے آئندہ کسی انتخابات میں حصہ لینے سے توبہ کرلی وہاں اگلے کئی سالوں تک قوم کے افراد اپنے معمولی کاموں کے اجرا کی خاطر بھی در بہ در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ہر اس شخص کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق ہے جو ملکی قوانین کی رو سے اہلیت کی شرائط پو ری کرتا ہو۔ واضح رہے کوئی امیدوار ہم سے زور زبردستی ووٹ نہیں ڈلوا سکتا نہ ہی اپنی تقدیر کا فیصلہ وہ خود کر سکتا ہے۔ یہ ہم عوام ہی ہیں جواپنے ووٹ کے ذریعے قوم کے مستقبل کا تعین کر سکتے ہیں۔ تو پھر امیدواروں کی تعداد سے کیا ڈرنا؟ یہ تو ہم ووٹروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے لئے ایک ایسے نمائندے کا انتخاب کریں جس میں اتنی قابلیت ہو کہ وہ ہم عوام کی زبان بن سکے،جس کو عوام کے مسائل کا مکمل ادراک ہو، جو اچانک کسی کونے کھدرے سے نمودار ہونے کے بجائے ہمیشہ عوام کے غم اور خو شی میں شریک رہا ہو، جس کی سیاسی سوچ واضح ہو، جس کے پاس عوام کی فلاح کا ایک واضح اور جامع پروگرام ہو اور جو بحرانوں سے لڑنے اور قوم کومتحد رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
کئی سال پہلے میں نے کسی اخبار میں ایک خبر پڑھی تھی جو امریکہ سے متعلق تھی۔ خبر کے مطابق ایک مرتبہ کسی الیکشن میں ایک ایسا شخص بھی حصہ لے رہا تھا جو انتہائی سرمایہ دار اور کئی بڑی کمپنیوں کا مالک تھا۔ سینکڑوں لوگ اس کے ہاں کام کرتے تھے۔ اس نے الیکشن پر پیسہ پانی کی طرح بہایا۔ اس نے اپناپورا الیکشن کمپین اپنے پرتعیش ڈرائنگ روم اور اپنے قیمتی وینٹی وین میں بیٹھ کر ہی چلایا۔ اس نے بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنی پبلسٹی کے کام پر مامور کیا اورایک کثیر رقم اپنی انتخابی مہم پر خرچ کی لیکن جب الیکشن کا نتیجہ نکلا تو انہیں گنتی کے چند ووٹ ہی ملے تھے۔ اس بدترین ناکامی پرجب صحافیوں نے ان کے تاثرات جاننے کی کوشش کی تو ان کے چہرے پر بلا کا اطمینان تھا۔ کہنے لگے “میں پہلے بھی امریکی عوام کی جمہوریت پسندی کا قائل تھا۔ لیکن اس تجربے کے بعد میرا یقین اور بھی پختہ ہو گیا ہے۔ مجھے یہ جان کربالکل حیرت نہیں ہوئی کہ مجھے میری کمپنی کے ملازمین نے بھی ووٹ نہیں دیا جنہیں میں ہر مہینے تنخواہیں ادا کرتا ہوں۔ حتیٰ کہ میرے اپنے دوستوں اورگھر والوں نے بھی مجھے اپنے ووٹ کے قابل نہیں سمجھا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ سب مجھ سے بے انتہا پیار کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سیاست میرے بس کی بات نہیں۔ میں ایک اچھا بزنس مین، اچھا دوست،اچھا شوہراور ایک اچھا باپ تو ہوسکتا ہوں لیکن ضروری نہیں کہ ایک اچھا سیاست دان بھی ثابت ہو سکوں۔ اس لئے مجھے خوشی ہے اور اس بات پر فخر ہے کہ میں ایک ایسے معاشرے کا فرد ہوں جہاں لوگ کسی خاندانی، کاروباری یا ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکراپنے لئے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں”۔
اب زرا اپنی حالت زار پرایک نظر ڈالتے ہیں۔ ہزارہ قوم پچھلے تیرہ سالوں سے بالعموم اور گزشتہ پانچ سالوں سے بالخصوص جس عذاب کا سامنا کررہی ہے اس سے قوم کا بچہ بچہ آگاہ ہے۔ اس دوران فرقہ واریت کی آڑ میں قوم پر جو یک طرفہ جنگ مسلط کی گئی اس سے قوم کا ہر فرد متاثر ہوا۔ یہ سوال شاید ہر ہزارہ کے ذہن میں ابھرتا ہو کہ ملک بھرکے فرقہ پرست اور انتہا پسندگروہوں نے سارے پاکستان کو چھوڑ کرکوئٹہ ہی کو اپنا مرکز کیوں بنا رکھا تھا؟ اگر یہ ایران اور سعودی عرب کی جنگ تھی تو کوئٹہ میں ہی کیوں لڑی جارہی تھی؟ اگر ہمارے قاتل واقعی ایران، لاہور اور کراچی میں چھپنے والے لٹریچرپر ناراض تھے تو اس کی سزا ہمیں کیوں مل رہی تھی؟ کیا ایسا نہیں لگتا کہ فرقہ واریت تو صرف ایک بہانہ تھی جس کی آڑ لیکر کوئٹہ کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کی سازش ہورہی تھی تاکہ ہزارہ قوم کی نسل کشی کی راہ ہموار ہوسکے؟ اگر چہ یہ سازش یک طرفہ نہیں تھی بلکہ اس میں دونوں اطراف کے فرقہ پرست گروہوں کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا گیاتھا۔ لیکن اس کا جو نتیجہ نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔ ہزارہ قوم کے بارہ سو سے زیادہ لوگ جن میں مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے سبھی شامل تھے ان فرقہ وارانہ نفرتوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ سینکڑوں زخمی اور معذور آج بھی ہسپتالوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ سینکڑوں گھروں کے چشم و چراغ فرقہ وارانہ تعصب اور دہشت گردی سے پاک کسی پرامن جگہ کی تلاش میں سفر کے دوران یا تو سردی سے ٹھٹھر کر مر گئے یا سمندر ی مچھلیوں کی خوراک بن گئے۔ اسی فرقہ واریت نے تاجروں سے ان کا کاروبار اور طالب علموں سے انکی تعلیم چھین لی۔ یہ فرقہ واریت ہی کا نتیجہ تھا کہ مائیں اپنے ان بچوں کوجنہیں وہ ایک لمحے کے لئے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھیں، سمندر کی بے رحم موجوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہوئیں۔ اس فرقہ واریت نے گھروں کے گھر اُجاڑ دیئے، بے شمار خاندانوں کے کفیل مار دئیے اور گھر کی عورتوں کو محنت مزدوری کی خاطر باہر نکلنے پر مجبور کیا۔ اور یہ سب ایک ایسے وقت ہوا جب آصف علی زرداری کی شکل میں ایک شیعہ پاکستان کے صدر تھے جن کی رہائش گاہ پر ہمیشہ علم لہراتا تھا اور جن کی پارٹی مرکز کے علاوہ بلوچستان میں بھی حکمران تھی۔ صوبائی حکومت میں دوسری بڑی پارٹی جمیعت علمائے اسلام کی تھی جس نے حکومت میں رہتے ہوئےکبھی ہزارہ قوم کے قتل عام کے خلاف کوئی موثر آواز بلند نہیں کی اور جب ہزارہ قوم پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا تھا تو ہمارے یہ حکمران اپنی عیاشیوں اور لوٹ مار میں مصروف تھے۔
دوسری طرف بلوچستان کی وہ ہزارہ، بلوچ اور پشتون لبرل اور قوم پرست قوتیں تھیں جنہوں نے فرقہ واریت کی آڑ میں ہونے والی اس سازش کا بر وقت ادراک کیا اور اسمبلی میں نمائندگی نہ ہونے کے باوجود اپنی کوششوں سے بلوچستان خصوصاَ کوئٹہ کو ایک بڑی خانہ جنگی سے بچائے رکھا۔ زرا سوچئے کہ اگر اس دوران بلوچستان میں دہشت گردوں کے اُن مدد گاروں کے بجائے ان لبرل اور قوم پرست پارٹیوں کی حکومت ہوتی تو کیا فرقہ واریت کے نام پرہزارہ قوم کا اس بے دردی سے قتل عام ممکن ہوتا؟
اب جبکہ انتخابات قریب آرہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہزارہ قوم سمیت بلوچستان کے تمام عوام اس بات کا فیصلہ کریں کہ وہ اپنے بچوں اور اپنی آئندہ نسل کو کس طرح کا ماحول فراہم کرنا پسند کریں گے؟ یہ ایک بہترین موقع ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے لئے ایک بہتر مستقبل کا تعین کر سکتے ہیں۔
ہم اس بات کا شاید کچھ زیادہ ہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایک تعلیم یافتہ، متمدن اور مہذب قوم ہیں۔ ہم اس بات پر بھی ہمیشہ فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ ہماری قوم میں تعلیم کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو اس بات سے بالکل خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں کہ انتخابی امیدواروں کی بھر مار کی وجہ سے ہم اپنی سیٹ سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ بلکہ اگر ہم واقعی ایک باشعور قوم ہیں تو ہم سو امیدواروں کی موجودگی میں بھی اپنا ایسا نمائندہ منتخب کرسکتے ہیں جو اسمبلی میں قوم کے حقوق کا دفاع کرسکے اوردیگر لبرل قوتوں کے ساتھ مل کر بدامنی، دہشت گردی، فرقہ واریت اور مذہبی تعصب کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرسکے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم مزید کسی طالع آزمائی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اب قوم کا مستقبل قوم کے ووٹرز کے ہاتھ میں ہے۔آنے والا الیکشن قوم کے شعور کا امتحان ہے۔ اگر اس بار بھی ہم ایک صحیح نمائندہ منتخب کرنے میں ناکام رہے تو اس میں ان امیدواروں کا کوئی قصور نہیں ہوگا بلکہ اس ناکامی کے ذمہ دار ہم عوام ہوں گے۔
8 اپریل 2013