خوب گزرے گی

 خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے!

10.05.2013

پچھلے دنوں اخبار میں ایک خبر پڑھی (دروغ بر گردن اخبار) کہ ” اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر جناب آصف علی زرداری نے عرب جمہوریہ مصر کے صدر جناب محمد مرسی کواس بات کی پیشکش کی ہے کہ اگر وہ چاہے تو صدر زرداری مصر میں جاری بحران ختم کر نے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں”پہلے تو میں یہ سمجھ بیٹھا کہ شاید کوئی خواب دیکھ رہا ہوں اور چونکہ زرداری صاحب پچھلے پانچ سالوں سے تمام پاکستانیوں کی طرح میرے بھی اعصاب پر بھوت کی طرح سوار ہیں اس لئے شاید میں خواب میں بھی انہیں بھگت رہا ہوں لیکن بچوں کے چیخنے چلانے اور لڑنے جھگڑنے کی آوازیں سن کر مجھے اس بات کا یقین ہو گیا کہ میں کوئی خواب ہرگز نہیں دیکھ رہا۔ حقیقت کا احساس ہوتے ہی میں حیرت کے سمندر میں ڈوبتا چلا گیا۔ مجھے تو یہ بات پہلے ہی ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ بے شمار بحرانوں میں مبتلا کسی ملک کا سربراہ ایک ایسے ملک کے دورے پہ کیوں نکلا ہے جو خود بے شمار بحرانوں تلے دبا ہوا ہے۔ لیکن کیوں کہ میں ایک جینئس ہوں اورلفافہ دیکھتے ہی خط کا مضمون بھانپ لیتا ہوں اس لئے فوراَ بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔میں سمجھ گیا کہ مرسی صاحب اس لئے پاکستان آئے ہوں گے تاکہ وہ ایک ایسے ملک کو قریب سے دیکھ سکیں جو مصر سے بھی زیادہ بُرے دور سے گزر رہا ہے لیکن نہ تو اس کے کسی کونے کھدرے سے کسی قسم کا کوئی انقلاب جھانک رہا ہے اور نہ ہی صدرسمیت کسی حکمران کوکسی بات کی پرواہ ہے۔ یقیناَ وہ صدر زرداری سے کچھ ٹپس لینے آئے ہونگے تاکہ معلوم کر سکیں کہ بے شمار بحرانوں کے باجود اپنی حکومت کو کیسے طول دیا جاسکتا ہے؟      

صدر مرسی 18 مارچ بروزسومواراپنے ایک روزہ دورے پر پاکستان پہنچے۔ اس دوران انہوں نے وزیراعظم سمیت کئی دیگر پاکستانی رہنماوں سے بھی ملاقاتیں کیں لیکن اصل ملاقات وہ تھی جو ان کی زرداری کے ساتھ ہوئی خبروں کے مطابق انہیں اس دورے کی دعوت خود صدر زرداری نے دی تھی۔ اس بارے میں میڈیا کو مختصر طور پربس اتنا ہی بتایا گیاتھا کہ دونوں رہنما کئی معاہدوں پرد ستخط کریں گے (اور لازم ہے کہ آپس میں باہمی دلچسپی کے امور پر بھی بات کریں گے)            

اگرچہ اس ملاقات اوران معاہدوں کی زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں لیکن آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ”میں ہوں ناں“اب اگرمجھ جیسا باخبر بندہ بھی آپ کو اندر کی باتیں نہ بتا سکے تو پھر با خبر کہلوانے کا فائدہ ہی کیا؟ لہٰذا میں نے بڑی محنت سے وہ ساری باتیں کھوج نکال لی ہیں جن تک رسائی کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔

ملاقات کے آغاز میں مصری صدر بہت پریشان نظر آرہے تھے ۔ انہوں نے پہلے تواپنے ملک میں جاری بحران اور اپنی پریشانیوں سے متعلق سارااحوال دل کھول کے صدر زرداری کے سامنے بیان کیا پھر ان کے حل اوراپنی مشکلات کے ازالے کے لئے ان سے مدد کی درخواست کی۔ جب صدر مرسی تفصیل سے اپنا دکھڑا بیان کرچکے تو زرداری صاحب نے انہیں وہ تاریخی پیشکش کردی جو اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئی اور جس نے مجھے معاملے کی تہہ تک پہنچنے پر مجبور کردیا۔ اب آپ غور سے سنتے جائیے اندر کی وہ خاص باتیں جو مجھے میرے کبوتر نے بتائی ہے اور آپ کو پتہ ہے کہ میرا کبوتر کبھی کوئی غلط خبر نہیں دیتا۔ خبر یہ ہے کہ صدر مرسی کو مصر میں جاری بحران کے حل کی پیشکش کرنے کے بعد صدر زرداری انہیں پاکستان کی صورت حال اور اپنے تجربات بیان کرنے لگ گئے۔انہوں نے معزز مہمان کو بتایا کہ جب وہ پاکستان کے صدر بنے تو ملک کی کیا حالت تھی؟ معیشت ڈوب رہی تھی،پاکستان کا بال بال قرضے میں جھکڑا ہوا تھا،پی آئی اے،ریلوے،گیس اور بجلی کے محکمے سمیت سارے بڑے ادارے تباہی کی طرف جارہے تھے،امن و امان کی صورت حال خراب تھی،کرپشن اپنے عروج پر تھی،قبائلی علاقوں میں طالبان اورشہروں میں لشکر جھنگوی نے ڈیرے جمالئے تھے۔ہر طرف قتل و غارتگری کا راج تھا ۔ یعنی یہ وہ ساری مشکلات تھیں جو اُنہیں ورثے میں ملی تھیں۔

“تو پھرآپ نے ان سب پرکیسے قابو پالیا”؟ صدر مرسی نے انتہائی مرعوب انداز میں پوچھا۔

”قابو پانے کی ضرورت ہی نہیں تھی“صدر زرداری نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا۔”دراصل ہم پاکستانی اپنی تاریخ اورورثےپربہت فخرکرتےہیں۔ہماری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ورثے کی نہ صرف حفاظت کریں بلکہ اپنی بساط کے مطابق اس میں اپنا بھی حصہ ڈالیں چاہے وہ ورثہ جائیداد کی شکل میں ہو یا روایات کی شکل میں۔ اس لئے ہم نے بھی سابقہ حکومت سے ملنے والےاس ورثے کی نہ صرف دل و جان سے حفاظت کی بلکہ جتنا ہو سکا ان میں اضافہ بھی کیا۔ہم نے معیشت کی حالت پہلے سے زیادہ خراب کردی تاکہ لوگ سادہ زندگی بسر کرنے کی طرف راغب ہوں، جو ادارے تباہی کے کنارے پر کھڑے تھےانہیں ہم نے بند ہونے کے قریب پہنچادیا تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، ہم نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے اتنے قرضے لئے کہ اب وہ پاکستان کو مزید قرضے دینے سے مکمل انکاری ہیں ۔ اس طرح ہم نے نئے حکمرانوں کے لئے اُدھار اور بھیک مانگنے کے سارے رستے بند کردئے تاکہ وہ خود اپنے پاوں پر کھڑا ہو سکیں۔ رہی امن و امان کی صورت حال تو اس کے متعلق بھی ہم نے اپنی پالیسی بہتر بنائی اور دہشت گردوں کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا۔جس کی بدولت آج یہ حال ہے کہ پاکستان کا نام دنیا بھر کی میڈیا میں شہ سرخیوں کے ساتھ زندہ ہے ورنہ یہ ظالم دنیا والے پاکستان کو کب کا بھول چکے ہوتے۔ اس موقع پر انہوں نے رحمان ملک کی خدمات اور اقدامات کا تفصیل سے ذکر کیا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جب وہ رحمان ملک کا زکرکررہےتھےتوان کی آنکھوں میں کیسا پیا راُمڈ رہا تھا۔

رحمان ملک کا نام سنتے ہی صدر مرسی کوجیسے ایک دم سے کچھ یاد آیا۔ اس نے پاس رکھی ایک فائل اُٹھائی، اُسے کھولا اورجناب زرداری کے سامنے رکھ دی۔ اس میں وہ معاہدہ تھا جس پر دونوں رہنماؤں نے دستخط کرنے تھے۔

معاہدے پرنظر ڈالتے ہی زرداری صاحب کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو نا شروع ہوگیا لیکن اس نے بہت جلداپنے آپ پر دوبارہ قابو پالیا اور چہرے پر مسکراہٹ طاری کرتے ہوئے فائل بند کرکے ایک طرف رکھ دی۔مصری صدر کے پوچھنے پر اس نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے معاہدے کو مکمل طور پر ناقابل عمل قرار دیا پھر وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگے ”اگرچہ میں نے اپنی حکومت کے ان آخری دنوں میں مختلف ملکوں سے کئی اہم معاہدے کئے ہیں جن میں چین کے ساتھ گوادر پورٹ کا معاہدہ اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ بھی شامل ہیں۔لیکن جس معاہدے کی آپ بات کررہے ہیں اس پر عملدرآمد ناممکن ہے۔ ٹھیک ہے کہ مصر کے حالات کافی خراب ہیں اور میں چاہتا بھی ہوں کہ وہاں کے حالات سدھارنے میں آپ کی مدد کروں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ میں رحمان ملک،اسلم رئیسانی،قائم علی شاہ اور فیصل رضا عابدی کی خدمات آپ کے سپرد کردوں۔اس طرح تو میں خود بالکل اکیلارہ جاؤں گا۔ انہی لوگوں کے دم سے تومیں نے پانچ سال ہنسی خوشی بلکہ قہقہے لگاتے ہوئے گزارے پھر آئندہ بھی مجھے ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ مجھے اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ رحمان ملک بہت قابل شخص ہیں حالانکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ دنیا کی کوئی زبان حتیٰ کہ اپنی مادری زبان بھی ٹھیک طریقے سے نہیں بول سکتے مگرمیں اتنا جانتا ہوں کہ انہیں کم از کم عربی پر تو مکمل عبور حاصل ہے اور وہ لگتے بھی مصری باشندہ ہی ہیں مگر کیا کیا جائے کہ پاکستان بھر میں ایک وہی تو ہیں جو نہ صرف دہشت گردی کے ہر واقع کی بالکل صحیح پیش گوئی کرتے ہیں بلکہ اگر ان کا بس چلے تو اسے درست بھی ثابت کرتے ہیں۔اب ایک ایسے کار آمد شخص کو میں کیسے کھو سکتا ہوں؟ بالکل اسی طرح اسلم رئیسانی کی بذلہ سنجی اور فلسفیانہ گفتگو کا بھی کوئی جواب نہیں۔کیا یہی کم ہے کہ ایک ایسے صوبے میں جہاں دہشت گردی کا راج رہا وہاں اس نے بطور وزیر اعلیٰ نہ صرف تقریباَ پانچ سال بڑی کامیابی سے گزار دئیے بلکہ اس نے ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی بھی سنوار لی۔ ویسے بھی اگر ان کی خدمات آپکے حوالے کربھی دوں تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ وہ کسی کے ہاتھ آنے والے نہیں۔ کبھی وہ دوبئی کے دورے پر ہوں گے تو کبھی لندن سے اُن کی خبر آئے گی اور آپ چراغ لیکر اس کے رخِ زیبا کو ڈھونڈتے ہی رہیں گے۔

جہاں تک فیصل رضا عابدی کی بات ہے تو اسے پاکستانی عدالتوں کے بارے میں بے شک مکمل معلومات حاصل ہیںلیکن مصر کی عدالتوں کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتے ایسے میں ان سے اس بات کی توقع کرنا بالکل فضول ہے کہ وہ مصرمیں بھی ویسا ہی کردار ادا کریں گے جیسا انہوں نے پاکستان میں ادا کیاتھا ۔ رہی بات قائم علی شاہ کی تووہ ٹہریں ایک مست ملنگ آدمی جو ہمیشہ مراقبے میں رہتے ہیں،مجرموں کو کوستے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے امن و امان کے لئے دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔اب ایسے نیک اور درویش انسان کو میں اپنے آپ سے دور کیسے بھیج سکتا ہوں جن کی دعاؤں کی بدولت آج سندھ بھر میں امن وامان قائم ہے؟

”لیکن ہاں میں ان کے بجائے ذوالفقار مرزا،بابر اعوان،جمشید دستی اورنبیل گبول سمیت کئی دوسرے رہنماؤں کو لمبے عرصے کے لئے آپ کے ساتھ بھیجنے پر تیار ہوں“ زرداری نے حسب معمول مسکراتے ہوئے کہا ۔ ان کی اس فراخ دلانہ پیشکش کے پیچھے چُھپی شرارت کو بھانپتے ہوئے جواب میں مرسی صاحب نے جو کہا زرا وہ بھی سن لیجئے۔ کہنے لگے”جو آپ جیسے دبنگ شخص کے قابو میں نہ رہ سکے وہ میرے جیسے شریف شخص کی بات کہاں مانیں گے؟“

ملاقات میں صدر زرداری نے مہمان صدر کو یہ بھی مشورہ دیا کہ حالات کیسے بھی ہوں ”ٹینشن لینے کا نہیں دینے کا ہے“ یعنی جب آپ کو معلوم ہے کہ آپ ملک اور عوام کا کوئی مسئلہ حل ہی نہیں کرسکتے تو ٹینشن لے کر بیمار پڑنے کا کیا فائدہ؟ اس لئے بہتر یہی ہے کہ میری طرح”کھائیں پئیں اور عیش کریں“؟

اس ون آن ون ملاقات(اردو میں اسے دو بہ دو ملاقات کہتے ہیں)میں صدر زرداری نے صدر مرسی کو ایسے تمام گُر بتادئیے جن پر عمل کرکے بحرانوں میں خوش بھی رہا جاسکتا ہے اوراپنے اقتدار کو بھی طول دیا جاسکتا ہے۔اس دوران جب یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کا زکر آیاتو صدر زرداری کے ہونٹوں پر کھیلتی مسکراہٹ اور آنکھوں سے چھلکتی شوخی کو صدر مرسی نے بھی یقیناَ دیکھا ہوگا۔

ملاقات کے اختتام پر جب عرب جمہوریہ مصر کے صدر محمد مرسی رخصت ہونے لگے تو خلاف معمول ان کے چہرے سے اطمینان جھلک رہا تھا۔ایک ایسا اطمینان جو کسی مریض کے چہرے پر کچھ دیر کیلئے تب نظر آتا ہے جب اس کا سامنااپنے سے زیادہ سیریس مریض سے ہو۔ایسے میں وہ اپنی موجودہ حالت پرخدا کا شکراورسابقہ ناشکری پر توبہ کرنے لگ جاتا ہے۔

اب سنئے اس ملاقت کی آخری اور سب سے اہم بات ۔ اور وہ بات یہ ہے کہ(دروغ بر گردنِ کبوتر) مصرکے صدر نے رخصت ہوتے وقت بڑے اعتماد سے صدر زرداری کو پیش کش کی کہ اگر وہ چاہیں تو صدر مرسی پاکستان کے بحران کو حل کرنے میں اُن کی مدد کر سکتے ہیں

اب یہ آخری بات کسی اخبار میں کیوں نہیں چَھپی؟یہ تومیرے کبوتر کو بھی نہیں معلوم۔

                                           

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.