انتخابات اور بلوچستان
انتخابات اور بلوچستان
جیسے جیسے انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں ملک کے دیگر حصوں کی طرح کوئٹہ میں بھی انتخابی سرگرمیوں میں تیزی آرہی ہے۔ حالانکہ وفاقی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق الیکشن کے دوران کوئٹہ سمیت ملک کے بعض علاقوں میں دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے لیکن بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں کی انتخابات میں شرکت کے اعلان نے بلوچستان کے عوام میں امید اور گرمجوشی کی ایک نئی لہر دوڑا دی ہے۔اس سے قبل 2008 میں صوبے کی تقریباَ تمام قوم پرست پارٹیوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ان کے اس فیصلے کا براہ راست فائدہ کئی ایسے لوگوں کو پہنچاجو مذاق ہی مذاق میں اور کسی انہونی کی اُمید پر الیکشن میں حصہ لینے جارہے تھے۔ان میں کئی امیدوار ایسے تھے جو اس سے قبل ناظم اور کونسلر کے انتخابات میں بھی قسمت آزما چکے تھے۔ لیکن بری طرح شکست کھا کے ”پویلین” واپس لوٹ گئے تھے۔ لیکن چونکہ بلوچستان کی سیاست کے کئی اصل کھلاڑی انتخابی دنگل میں اترنے سے انکار کر چکے تھے لہٰذا خوس قسمتی سے ان طالع آزماؤں کو”واک اوور” مل گیا اور وہ ذرا سی محنت اور تگ ودو کے بعد عوامی نمائندے بن کر اسمبلی جا بیٹھے۔
ان دنوں کوئٹہ کے اخبارات میں ایک بات کا بڑا چرچا رہا جس کے مطابق انتخابات میں کامیاب ہونے والے کئی لوگ ایسے بھی تھے جن کو خود بھی اس بات کا یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ یہ معرکہ سر انجا م دے چکے ہیں۔یہ قوم پرست سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کا ہی نتیجہ تھا کہ پرویز مشرف کی حمایت یافتہ مسلم لیگ (ق) بلوچستان کی پینسٹھ رکنی اسمبلی میں اٹھارہ نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ لیکن جب وفاق میں چلنے والی ہوا کے رخ کو دیکھتے ہوئے آزاد اراکین کی اکثریت کے علاوہ کئی سیاسی پارٹیوں نے نواب اسلم رئیسانی کو اپنا قائد ایوان مقرر کیا تو مسلم لیگ قاف کے اراکین کی اکثریت بھی رئیسانی سے جا ملی اور یوں پی پی پی پی محض بارہ نشستوں کے ساتھ اپنا وزیر اعلٰی منتخب کرنے میں کامیاب ہوئی۔
شاید یہی وجہ تھی کہ نوازشریف نے ایک مرتبہ اپنے ایک انٹرویو میں ان انتخابی نتائج کو این آر او کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے سچ ہی کہا ہوگا ورنہ کوئی تو ہوتا جو پانچ سال تک صوبے کے وسائل کی بے دردی سے لوٹ مار، اربوں روپے کے گھپلوں، صوبے بھر کو نو گو ایریا میں تبدیل کرنے اور کوئٹہ شہر کو کھنڈر بنانے والوں سے کسی قسم کی باز پرس کرتا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں بلوچستان کے عوام کی جو درگت بنی سو بنی خود پیپلز پارٹی کو بھی اپنی نالائقی کی کافی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ اسلم رئیسانی کو پارٹی سے نکال دیا گیا، چھوٹے نواب یعنی لشکری رئیسانی کچھ دوسرے اراکین اسمبلی اور پارٹی ممبران کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رن وے پر اُتر گئے۔
کوئٹہ سے منتخب ہونے والے ایم این اے ناصر علی شاہ بی این پی مینگل سے جا ملے تو ان کی جعلی ڈگری کا معاملہ اچھل کر سامنے آگیا جبکہ متعدد دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی یہ حالت ہے کہ وہ اپنی جعلی ڈگریاں بغل میں دبائے عدالتوں اور عوام سے مُنہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔کچھ ایسی افواہیں بھی گردش کررہی ہیں کہ اس مرتبہ پیپلز پارٹی کو امیدواروں کی تلاش میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ بلکہ کوئٹہ کی نشست پر انتخاب لڑنے والے بعض آزاد امیدواروں کو تو یہاں تک کہتے سنا گیا ہے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کی طرف سے ٹکٹ کی پیشکش شکرئے کے ساتھ لوٹادی ہے کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ ان کے جیتنے کے جو امکانات ہیں پیپلز پارٹی سے وابستگی کی صورت میں وہ بالکل ختم ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ ایسے امیدوار بھی میدان میں اُترے ہیں جو پیپلز پارٹی (ناہید خان) سے اپنا تعلق ظاہر کرنے کو زیادہ بہتر خیال کرتے ہیں۔
دوسری طرف غوث بخش باروزئی بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنا حلف اُٹھا چکے ہیں اور ان دنوں مختلف سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر نے میں مصروف ہیں۔ کابینہ کی تشکیل بھی جلد متوقع ہے۔ صوبے کی اکثر سیاسی پارٹیوں نے انتخابات میں حصہ لینے پر آمادگی ظاہر کردی ہے جو خوش آئندبات ہے۔سردار اختر مینگل کی وطن واپسی بھی ان اہم واقعات میں سے ایک ہے جو بلوچستان کے عوام کو ایک بہتر مستقبل کی امید دلا سکتے ہیں۔ جلا وطن رہنما برہمداغ بگٹی اور سردار اختر مینگل کے بھائی جاوید مینگل گرچہ ان انتخابات سے اپنی لاتعلقی کا برملا اظہار کر چکے ہیں لیکن اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی اس الیکشن میں حصہ لینے پر آمادہ نظر آتی ہے جس نے انتخابی ماحول کو کافی گرمادیا ہے۔
ایسے میں اس بات کی توقع کی جارہی ہے کہ اگربی این پی(مینگل)، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، پشتونخوا میپ اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی پر مشتمل بلوچستان کی جمہوری اور قوم پرست پارٹیاں چند نکات پر مشتمل کسی انتخابی منشور پر متفق ہوجائیں تو وہ مل کر مستقبل میں ایک ایسی حکومت تشکیل دے سکتی ہیں جو بلوچستان کے مسئلے کو خلوص نیت سے حل کرنے میں سنجیدہ ہو۔بلوچستان کے جمہوری اور قوم پرست حلقوں کی ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ صوبے پر چاہے کسی کی بھی حکومت ہوں اصل اختیارات ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہی ہوتے ہیں جب کہ منتخب حکمرانوں کی حیثیت محض ایک کٹھ پتلی کی ہوتی ہے۔یاد رہے کہ سردار اختر مینگل 1997 میں بھی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ ان کے وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے بلوچستان کے اکثر در و دیوار “آزاد بلوچستان زندہ باد” اور “پنجابی سامراج مردہ باد” کے نعروں سے رنگین تھے لیکن جب وہ صوبے کے منتخب وزیر ا علیٰ بنے تو ایک موقع پر “پنجابی وزیر اعظم” نواز شریف کی گاڑی خود چلاتے ہوئے کوئٹہ ائرپورٹ سے گورنر ہاوس تک لے آئے جس کا اخباروں میں بڑا چرچا ہوا۔ ان کی اس پالیسی نے پنجاب کے خلاف بلوچوں کی نفرت کو کم کرنے میں کافی مدد دی۔ لیکن افسوس کہ تب بھی انہیں اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں ملا۔
بلوچستان کی قوم پرست پارٹیاں آج بھی سیاسی اور حکومتی معاملات میں ریاستی اداروں کی مداخلت سے شاکی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض تو اب بھی انتخابات کے صاف و شفاف انعقاد کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے کے تمام طبقات کو اس بات کا اطمینان دلایا جائے کہ کسی غیر جمہوری طریقے سے انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی جائیگی نہ ہی ماضی کی طرح منظور نظر افراد کو آگے آنے کے غیر قانونی مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ ورنہ اس بات کا خطرہ ہے کہ مستقبل میں بھی صوبے کی صورت حال ویسی ہی ہوگی جیسی رئیسانی کے دور میں تھی۔بلوچستان کی اگلی منتخب حکومت کو بہت سارے چیلنجز درپیش ہونگے جن میں ناراض بلوچ رہنماؤں سے نیک نیتی پر مبنی نتیجہ خیز مذاکرات اور امن و امان کی بحالی سر فہرست ہیں۔
رئیسانی حکومت اور انکے اتحادیوں کے گند کو صاف کرکے عوام کے اعتماد کی دوبارہ بحالی، فرقہ واریت کا خاتمہ اور صوبے کی تعمیر وترقی بھی ایسے معاملات ہیں جن کو بہت زیادہ اہمیت دینی ہوگی۔سردار اختر مینگل ایک سنجیدہ اور بردبار شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ نہ صرف بلوچستان کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں بلکہ قبائلی حوالے سے بھی وہ ایک قابل احترام شخصیت جانے جاتے ہیں۔ اگر وہ انتخابات میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ بلوچستان کی دیگر بلوچ، پشتون اور ہزارہ قوم پرست پارٹیوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی حکومت تشکییل دیں جو صوبے میں جاری بحران کے خاتمے اور امن و امان برقرار کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہو۔اب یہ صوبے کے عوام پر منحصر ہے کہ اپنے ووٹ کی طاقت سے وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ مستقبل میں کس طرح کا بلوچستان دیکھنا چاہتے ہیں؟
یہ مضمون ڈان اردو کے لئے لکھا گیا۔
Tuesday 9 April 2013
http://urdu.dawn.com/2013/04/09/intikhaabaat-aur-balochistan-riza-changezi-aq/