الیکشن میں تشدد کا عنصر
الیکشن میں تشدد کا عنصر
ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک سینئر رہنما محمد اسماعیل چنگیزی پر حملے سے یہ بات توثابت ہو گئی کہ ہمارے ہاں الیکشن میں تشدد کا عنصر داخل ہو چکا ہے یا جان بوجھ کر داخل کرادیا گیا ہے۔ کچھ دنوں سے فیس بک پر جو طوفان بد تمیزی برپا تھا اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھاکہ ہزارہ قوم کے مختلف طبقات کو آپس میں لڑانے کی کوئی سازش ہو رہی ہےاوراس سازش میں ان لوگوں کا ہاتھ ہے جو جھوٹے ناموں اور جھوٹی شناخت کے ساتھ فیس بک پرہر ایک سے گالی گلوچ کر رہے ہیں۔اس بات کااحتمال ہے کہ یہ حرکت ایسے لوگوں کی ہو سکتی ہےجو ایک منظم پروگرام کے تحت قوم کو مختلف طبقوں میں بانٹ کر ان کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ نہ صرف ان میں نفاق ڈالا جاسکے بلکہ انتخابی عمل کو بھی پر تشدد بنایا جا سکے۔اس کام کا آغاز کس نے کیا ؟ اس کا تعین کرنا مشکل ہے لیکن اسماعیل چنگیزی پر حملہ سے اس بات کا اندازہ لگانا ہر گزمشکل نہیں کہ بعض عناصرتشدد کاراستہ اپنا کر قوم کو ایک نئی آزمائش میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ابھی چند ہفتہ پہلے تک ہمیں اپنے جوانوں ،بوڑھوں، ماوں اور بچوں کی لاشیں اُٹھانے اور رونے دھونےسے فرصت نہیں تھی اور آج جب کچھ فرصت میسر آئی ہے تو ہم اپنی تمام تکالیف اور مصائب بھول کر اور مستقبل کے خطرات سے قصداَآنکھیں چراتے ہوئے اپنوں ہی کے خلاف بہادری کی داستانیں رقم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔یہ کس کی خدمت ہورہی ہے اور کون ہے جو یہ سب کروا رہا ہے؟ ان بچوں اور جوانوں کے اذہان میں اتنی نفرت کس نے بھر دی کہ یہ آج اپنوں کے خلاف زہر اُگلتے نظر آرہے ہیں؟ نقابوں کے پیچھےوہ پوشیدہ چہرے کن کے ہیں جو قوم کے ان جوانوں کے ہاتھوں میں چاقو اور اسلحہ تھماکر انہیں اپنوں کے ہی خون سے رنگین کرنے کی ترغیب دے رہےہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر امیدوار کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ قانون اور انتخابی ضابطہ اخلاق کے اندر رہتے ہوئے اپنی انتخابی مہم چلائے اور اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کرے ۔لیکن یہ کہاں کی جمہوریت ہے کہ آپ اپنی مخالف پارٹی کے ارکان پر جان لیوا حملے کریں،ان کے جھنڈے اُتاریں اور انہیں قدموں تلے روند کر فخر سے ان کی تصاویر فیس بک پر ڈال دیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہر شخص اپنے عقیدے سے پیار کرتا ہے جو ایک فطری بات ہے لیکن ہماری سادہ لوحی دیکھئے کہ شاطر لوگ ہمارے عقیدے اور اخلاص سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر بڑی ہوشیاری سےاپنا مقصد حاصل کرتے ہیں لیکن ہمیں کانوں کان خبر نہیں ہوتی ۔ مذہب اور عقیدے کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ہمیشہ سے فریبی حلقوں کا پسندیدہ طریقہ واردات رہا ہے ۔ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں اپنی مخالف پیپلز پارٹی کو بدنام کرنے کی خاطر اسی فریب سے کام لیا ۔اس نے عوام کے جذبات کو بھڑکانے کی خاطرٹیلی ویژن پرقرآن مجید کے ایک ایسے نسخے کی بار بارنمائش کروائی جس کے اندر کےصفحات کو بڑی مہارت سے کاٹ کر ایک ڈبے کی شکل دی گئی تھی جس میں بم رکھا گیا تھا تاکہ “امیرالمومنین” کو “شہید “کیا جاسکے لیکن ان کے بقول چونکہ ان پر اللہ کی رحمت سایہ فگن تھی اس لئے وہ بچ گئے۔اس نے قرآن کی اس “بے حرمتی” کا الزام پیپلز پارٹی پر لگایا تا کہ پاکستان کے مسلمان اور مومن عوام جمہوری حکومت کی برطرفی اور بھٹو کی پھانسی کو بھول کر اپنے امیرالمومنین کی حقانیت پر یقین کرلیں۔ مجھے تو اس بات کا ڈر ہے کہ آج جولوگ ایچ ڈی پی کے جھنڈے کو فخر سےپاوں تلے روند رہے ہیں کل یہی لوگ کسی عَلم کو ایسے ہی پاوں تلے مسل کر انکی تصاویر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کریں گےاور اس کا الزام ایچ ڈی پی پر لگا دیں گے تاکہ مذہب کو ایک آلے کے طورپر استعمال کرکے اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھار کر انتخابات میں کامیابی کی راہ ہموار کرسکیں ۔ ہمارے معاشرے میں ایسی نادیدقوتوں کی کمی نہیں جو قوم کے مختلف طبقات پر کفر کا ٹھپہ لگا کر اپنا اُلو سیدھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ہزارہ قوم کے قاتلوں کا طریقہ واردات بھی یہی تو ہے ۔وہ بھی توکچھ ایسے لٹریچرز کا حوالہ دے کر اورہمیں کافراور واجب القتل قرار دے کر ہمارا قتل عام کرتے ہیں جن کی چھپائی سےہماراکوئی معمولی تعلق بھی نہیں ۔ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم ابھی تک دہشت گردی کے چنگل سے آزاد نہیں ہوئے۔خطرات اب بھی موجود ہیں اورکسی وقت بھی کوئی سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قوم کے خلاف ہونے والی ان اندرونی اور بیرونی سازشوں سے ہوشیاررہیں، اپنے ان بلندبانگ دعووں کی پاسداری کریں کہ ہم ایک تعلیم یافتہ اور باشعور قوم ہیں اور الیکشن کو ایک جمہوری عمل کا حصہ سمجھیں اسے میدان جنگ نہ بنائیں۔
15 اپریل 2013