بلوچستان، بد امنی کے سائے میں انتخابات
بلوچستان، بد امنی کے سائے میں انتخابات
انتخابات میں محض چند دن ہی باقی ہیں لیکن بلوچستان میں ابھی تک وہ گہماگہمی اورجوش و خروش نظر نہیں آرہا جس کی توقع کی جارہی تھی۔اس کے برعکس آئے دن انتخابی جلسوں،امیدواروں کے دفاتر اور ریلیوں پر حملوں اور بم دھماکوں کی خبریں عام سننے کو مل رہی ہیں۔16 اپریل کو خضدار کے قریب مسلم لیگ (ن) کے صوبائ سربراہ سردار ثناء اللہ زہری کے قافلے پر ہونے والے ایسے ہی ایک حملے میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بی این پی مینگل سمیت اے این پی،جمیعت علمائے اسلام، نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کے علاوہ کئی آزاد امیدواروں کے دفاتراور جلوسوں پر حملے کئے جاچکے ہیں۔ ان حملوں اور دھماکوں کی ذمہ داری کچھ کالعدم بلوچ تنظیموں نے قبول کی ہے۔ 21 اپریل کو پشین کے قریب ہونے والے ایک اور حملے میں عوامی نیشنل پارٹی کے تین اراکین کو قتل کردیا گیا تھا جبکہ 23 اپریل کو ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ عبدالخالق ہزارہ بھی کوئٹہ میں ہونے والے ایک خود کش بم دھماکے میں اس وقت بال بال بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے جب وہ ایک کارنر میٹنگ سے فارغ ہونے کے بعد ساتھیوں کے ہمراہ اپنے انتخابی دفتر کی طرف لوٹ رہے تھے۔
اس واقعے میں دو ایف سی اہلکاروں سمیت چھ افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہو ئے تھے۔اس خود کش کار بم دھماکے کی ذمہ داری کا لعدم لشکر جھنگوی نے قبول کرتے ہوئے مزید ایسے حملوں کی دھمکی دی تھی ۔ اس طرح اطلاعات کے مطابق بلوچستان میں تواتر کے ساتھ ہونے والے ان واقعات میں اب تک 13 قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں جب کہ درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ان پر تشدد کاروائیوں کے نتیجے میں سیاسی کارکن اور اُمیدوار اپنی انتخابی سرگرمیاں محدودکرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ صوبے کی سیاسی پارٹیوں کے لئے یہ بات تعجب کا باعث ہے کہ پنجاب میں امیدوار نہ صرف آزادانہ اپنی انتخابی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ انہیں بڑے بڑے اجتماعات کے زریعے عوام سے براہ راست رابطے کی مکمل سہولت بھی میسرہے لیکن بدامنی اور پسماندگی کے شکار بلوچستان میں جہاں لوگ آئندہ انتخابات سے ڈھیروں امیدیں لگائے بیٹھے ہیں انہیں عوام سے رابطہ کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔
بعض امیدواروں کو یہ بھی شکایت ہے کہ صوبے میں حکومتی اداروں کے منظور نظر افراد بڑی آزادی کے ساتھ اپنی انتخابی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جبکہ خود انہیں اپنی انتخابی مہم چلانے میں بھی دشواری ہورہی ہے۔ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ انتخابات کی مخالفت کرنے والی بعض تنظیموں کی دھمکیوں کے باعث صوبے کے بعض حلقوں میں امیدواروں کو اپنے پوسٹرز چسپانے کی بھی ہمت نہیں ہورہی جبکہ ان علاقوں میں عام لوگ بھی ڈر کے مارے اپنی دیواروں پرالیکشن سے متعلق اشتہارات چپکانے سے منع کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ بلوچستان کے عوام نے پچھلے پانچ سال جس حال میں گزارے وہ ان کے لئے کسی عذاب سے ہر گز کم نہیں تھے۔اس دوران بلوچستان خصوصاَ کوئٹہ شہر میں مکمل طور پر دہشت گردی کا جوراج رہا اس کے اثرات سے کوئی نہیں بچ پایا ۔اگر ایک طرف فرقہ واریت کے نام پر ہزارہ قوم کے قتل عام، بم دھماکے اورٹارگٹ کلنگ میں سینکڑو ں بے گناہ مرد عورتوں اور بچوں کا خون بہایا گیا تو دوسری طرف لا تعداد بلوچ جوانوں اور سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں بھی صوبے کے مختلف ویرانوں میں پھینکے جانے کی خبریں موصول ہویئں ۔
اسی طرح سیٹلرز کے نام پربھی بے شمار لوگوں کو خون میں نہلایا گیا جس کے نتیجے میں ان کی بڑی تعداد اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر دوسرۓ صوبوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔ان پانچ سالوں میں شاہراہوں پر عملاَ ڈاکوؤں کا راج رہا،تاوان کے لئے اغوانتہائی منافع بخش کاروبار بن گیا۔بدامنی اور لاقانونیت کا یہ حال تھا کہ حکومتی اراکین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عہدیدار تک اغوا کی ان وارداتوں میں ملوث پائے گئے۔ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ان پانچ سالوں میں بلوچستان پردر حقیقت کس کی حکومت تھی کیوں کہ وزیر اعلیٰ رئیسانی کا تو بیشتر وقت اسلام آباد میں گزرتا تھا جہاں اخباری اطلاعات کے مطابق وہ مضحکہ خیز کاؤ بوا ئے لباس زیب تن کئے ستّر لاکھ روپے کی موٹر سائیکل پرشہر کی کھلی سڑکوں پر گھوما کرتے تھے جبکہ ان کی وسیع و عریض کابینہ صوبے کے وسائل کی لوٹ مار میں مصروف رہتی تھی۔خودان کی ساری توجہ صوبے کی صورت حال کو ٹھیک کرنے کے بجائے دوبئی اور لندن میں جائیدادیں بنانے پر مرکوز تھی جبکہ محکمہ تعلقات عامہ کا ایک کارندہ وقتاَ فوقتاَ کوئٹہ کے اخبارات کو ان سے منسوب کوئی بیان جاری کردیا کرتا تھا تاکہ صوبے کے عوام اپنے وزیر اعلیٰ کے نام کوہی نہ بھول جائیں۔ اب بھی دیکھنے میں صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں۔پاکستان کی تاریخ میں شاید ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ اکیلے ہی پوری نگران کابینہ کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہیں۔ایسے میں عبوری کابینہ کی تشکیل میں ناکامی سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں اور ایک بار پھر لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ صوبے پر اصل حکمرانی کس کی ہے؟
وزیر اعلیٰ باروزئی کی کارکردگی بھی بظاہر اخباری بیانات کی حد تک ہی محدود ہے۔اُنہوں نے حال ہی میں یہ بیان جاری کیا ہے کہ انتخابات کو پرامن بنانے کی خاطر بلوچستان کے متعدد اضلاع میں ٹارگٹد آپریشن کیا جائے گالیکن بیان سے واضح ہے کہ اس مرتبہ بھی کالعدم فرقہ وارانہ گروہوں سے چھیڑ چھاڑ کی زحمت نہیں کی جائیگی بلکہ سارا زور بلوچ تنظیموں پر ہی صرف کیا جا ئے گا۔بعض حلقے اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ صوبے کی حقیقی سیاسی پارٹیوں کو ڈرا دھمکا کرانہیں مستقبل میں حکومت سازی سے دور رکھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں جبکہ الیکشن کے نتیجے میں ایک بار پھر من پسند حکومت لانے کی تیاریاں اپنے زوروں پر ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے انتخابات سے بلوچستانی عوام کی بہت ساری توقعات وابستہ ہیں۔
انتخابات مخالف تنظیموں کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں،الیکشن کے دنوں میں ان کی طرف سے دی جانے والی ہڑتال کی کال اور امن و امان کی خراب صورت حال کے باوجود پارلیمانی سیاست ا ور جمہوری جدوجہد کے زریعے حقوق کے حصول پر یقین رکھنے والی جماعتوں کی ان انتخابات میں شرکت سے عوام کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں۔انہیں اس بات کا یقین ہے کہ اگرالیکشن شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوئے اورنہیں اپنے نمائندوں کے انتخاب کا آزادانہ موقع دیا گیا تو آنے والی منتخب اسمبلی بلوچستان کے معاملات کو ٹھیک کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے جو ملک کی سا لمیت اورمحفوظ مستقبل کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
http://www.urdu.pakvotes.pk/?p=609