11 مئی Last minutes ، 2013
11 مئی Last minutes ، 2013
2008کے الیکشن میں پی بی 2 اور پی بی 6 میں امیدواروں نےجتنے ووٹ حاصل کئے ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
پی بی 2
1۔ جان علی چنگیزی آزاد 5045
2۔عبدالخالق ہزارہ ایچ ڈی پی 4183
3۔سحر گل خلجی پاکستان مسلم لیگ (ن) 3522
4۔کرنل محمد یونس مسلم لیگ 2225
5۔ غلام رضا آزاد 2382
ان اعدادو شمارکے مطابق گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ نون کے امیدوار سحر گل خلجی پی پی 2 میں3522 ووٹ لیکر تیسری پوزیشن پر رہے۔اس مرتبہ صورت حال اس لحاظ سے مختلف قرار دی جاسکتی ہے کہ سحر گل خلجی کومسلم لیگ )ن( کے علاوہ اہل سنت والجماعت کی اعلانیہ اور دیگرکئی سیاسی پارٹیوں کی درپردہ حمایت حاصل ہے جن کی کوشش ہے کہ انہیں ہر صورت میں کامیاب کیا جائے ۔دوسری طرف ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی ،مجلس وحدت المسلمین اور پشتونخوا میپ کے علاوہ کئی آزاد امیدوار اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۔اس طرح قومی اسمبلی کی نشست حلقہ 259 کے لئے بھی کئی نامور شخصیات میدان میں ہیں جن میں کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے۔آپ کو یاد ہوگاکہ جب پاکستان مسلم لیگ )ن( کے رہنما شہباز شریف کوئٹہ آئے تھے تو تب ہی انہوں نے حلقہ 259 میں پشتونخوا میپ کےرہنماء محمود خان اچکزئی کی حمایت کا اعلان کردیا تھا ۔اس طرح کی حمایت یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیوں کہ یک طرفہ نہیں ہو سکتی لہذٰایقینی طور پر پی بی 2 میں پشتونخو امیپ کے حمایتی اپنا ووٹ مسلم لیگ (ن) کےسحر گل خلجی کے حق میں استعمال کریں گے جس سے ان کی پوزیشن مزید بہتر ہو سکتی ہےایسے میں اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ پشتونخوا میپ کے نامزد امیدوار سید محمد علی آغا کو ان کے اپنے احباب کے علاوہ ان کی پارٹی کےدیگر لوگوں کےووٹ بھی مل سکیں گے یا نہیں۔ایک آزاد امیدوار طاہر خان ہزارہ نے بھی قومی اسمبلی کی اس نشست پر محمود خان اچکزئی کی حمایت کا اعلان کیا ہے البتہ اس بات کا پتہ نہیں چل سکا کہ اس حمایت کے بدلے میں پی بی 2 کی نشست پر اسے کیا فایدہ پہنچ سکتا ہے جبکہ پشتونخوا میپ کا امیدوار پہلے ہی اسی حلقے سے انتخاب لڑ رہا ہے؟ کچھ لوگ ان تمام سرگرمیوں کومسلم لیگ (ن) ، اہل سنت والجماعت اور پشتونخوا میپ کی ایک خاص مشترکہ حکمت عملی سے تعبیر کر رہے ہیں جس کا مقصد سحر گل خلجی کی کامیابی کو یقینی بنانا ہے۔
دوسری طرف اگر پی بی 6 کا جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی انتخابی سر گرمیاں عروج پر ہیں۔ یہ کوئٹہ شہر کے چھ حلقوں میں سب سے بڑا حلقہ ہے جو سریاب روڈاور ہزار گنجی سے لیکر ایک جانب ہنہ اوڈک اور دوسری طرف کچلاک تک پھیلا ہوا ہے۔ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار کے قریب ہے۔2008 کے انتخابات میں یہاں سے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار عین اللہ شمس 5441 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ ایچ ڈی پی کے امیدوا حسین علی یوسفی 3401 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
2008 کے انتخابات میں پی بی 6 سے حصہ لینے والے کچھ اہم امیدواروں اور ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
1۔عین اللہ شمس متحدہ مجلس عمل 5441
2۔حسین علی یوسفی ایچ ڈی پی 3401
3۔سید عبدالوہاب آزاد 3525
4۔ڈاکٹر حیات اللہعوامی نیشنل پارٹی 2729
5۔سید عباس شاہ آزاد 2511
6۔ کرنل محمد یونس آزاد 973
ان اعدادو شمار سے ظاہر ہے کہ اگر سید عباس کے ووٹ(2511) حسین علی یوسفی کے ووٹوں (3401)سے مل جاتے تو یوسفی کی جیت یقینی تھی(5912)
کچھ دیر کےلئے تصور کرتے ہیں کہ اگر ہم کوئٹہ شہر کی چھ سیٹوں میں سے دو سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو کیا ہوگا
1۔ہم وقت آنے پر سینیٹ کی ایک نشست حاصل کرسکتے ہیں جہاں ہم اپنی بات اونچے ایوانوں میں زیادہ بہتر طریقے پہنچا سکتے ہیں ۔
2۔ ہم مخصوص نشستوں پر اپنےکسی خاتون نمائندے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
مختصراَ یہ کہ اگرہم اپنے دو نمائندے اسمبلی میں بھیجنے میں کامیاب ہو سکیں تو شاید اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ قوم کے قتل عام اورفرقہ واریت کے خلاف موثر طریقے سے آواز بلند کی جا سکے گی۔ اور یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ ہم ذاتیات سے بالا تر ہوکر مستقبل کے بارے میں سوچیں ،آئندہ آنے والی مشکلات کو مد نظر رکھیں ، اپنے ووٹ کا سوچ سمجھ کر استعمال کریں اوراپنے لئے ایسے نمائندے کا انتخاب کریں جو ہمیشہ آپ کے دکھ درداور خوشی میں شریک رہاہو، جو کسی کونے کھدرے سے اچانک نمودار نہ ہوا ہو اور جو کوئٹہ شہر کو اس کا روایتی امن لوٹانے میں اپنا کردار ادا کرسکے۔
/span