میں پھر ایک خواب بُنوں گا

میں پھر ایک خواب بُنوں گا

13 مئی، 2013

پچھلے کئی دنوں سے میں مسلسل ایک خواب دیکھ رہا تھا۔یہ خواب میں سوتے میں نہیں بلکہ جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔خواب کچھ یوں تھا کہ ہزارہ قوم نے الیکشن میں اپنے لئے دو ایسے نمائندوں کا انتخاب کرلیا ہے جن میں سے ایک کا تعلق علمدار روڑ سے ہے جہاں اس سال کے آغاز میں دس جنوری کے دن دو خود کش دھماکے  کرکے سو سے زیادہ جوانوں، بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو چیتھڑوں میں تبدیل کر دیاگیا تھا۔دوسرے امیدوار کا انتخاب اس حلقے سے ہوا ہے جو ہزارہ ٹاون کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں سولہ فروری کو پانی کے ٹینکر میں بھرے ایک ٹن بارود کے دھماکے سے سو کے قریب لوگوں کو خون میں نہلا دیا گیا تھا۔

مجھے خواب میں وہ سڑکیں نظر آرہی تھیں جہاں آئے دن مزدوروں اور طالب علموں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی تھی۔مجھے وہ تعلیمی ادارے دکھائی دے رہے تھے جن کے دروازے ہزارہ طلباء اور طالبات پر بند کئے جاچکے تھے۔میں خواب میں نقابوں کے پیچھے چھپے ان وحشی شکلوں کو بھی دیکھ رہا تھا جو بے رحمی سے بچوں اور عورتوں پر گولیاں چلا کے ٹہلتے ہوئے آرام سے نکل جاتے تھے،میں دہشت گردی کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی ان عورتوں کی سسکیاں بھی سن رہا تھا جو اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے محنت مزدوری کرنے پر مجبور تھیں۔

مجھے اپنے ارد گردان بچوں کے رونے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں جن کے سرپرست ان قاتلوں کی درندگی کی بھینٹ چڑ چکے تھے۔مجھے عوام کو ووٹوں سے منتخب ہونے والے وہ نمائندے بھی دِکھ رہے تھے جوالیکشن سے قبل لوگوں سے ووٹ حاصل کرنے کی خاطران سے وعدے وعید تو بہت کرتے ہیں لیکن منتخب ہونے کے بعدانہیں بھول کے لوٹ مار میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
میں اس بات میں خوشی محسوس کر رہا تھا کہ بالآخر ایک دہائی سے فرقہ واریت کے نام پرقتل عام کے شکار لوگوں نے اپنے لئے ایسے نمائندوں کاانتخاباب کرہی لیاتھا جو اسمبلی میں جاکر ان مظلوموں کی آواز بن سکیں۔انہوں نے فرقہ واریت اور مذہبی تنگ نظری کے خلاف اپنے ووٹ کا استعمال کرکے پاکستانی قوم کو یہ پیغام دے دیاتھا کہ دیکھو ہم کتنے پرامن لوگ ہیں۔مجھے عالم ِ رویا(خواب) میں اسمبلی کی کوئی کاروائی دکھائی دے رہی تھی جہاں ہزارہ قوم کا نمائندہ مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصب سے نفرت کا اظہار کررہا تھا، وہ حریف اسلامی ممالک کی پراکسی وار سے لاتعلقی اور انہیں اپنی جنگ اپنے ملکوں میں لڑنے کا مشورہ دے رہا تھا، وہ بلوچوں سے اپنی یک جہتی کا اظہار کررہا تھا،وہ پشتونوں اور سیٹلرز کو اپنے تعاون کی پیش کش کررہا تھا، وہ صوبے کو اس کا امن لوٹانے کے لئے اپنی خدمات پیش کر رہا تھااور سب کے ساتھ مل کر صوبے کو دہشت گردی اور فرقہ واریت سے نکالنے کے لئے اپنے عزم کا اظہار کررہا تھا۔

پھر میں نے دیکھا کہ ایک ہزارہ خاتون اسی اسمبلی میں کھڑی ان عورتوں کی بات کررہی تھی جنہیں صنفی امتیاز اور گھریلو تشدد کا سامنا تھا وہ لڑکیوں کی تعلیم اور معاشرے میں ان کے مساوی مقام کی بات کررہی تھی۔وہ ان ماؤں کی کہانی سنا رہی تھی جو غربت کی وجہ سے اپنی اولاد بر سر بازار بیچنے پر مجبور تھیں،وہ ایسی ماؤں کے قصے سنارہی تھی جنہوں نے بم دھماکوں میں قتل ہونے والے اپنے لخت جگر کے جسم کے ٹکڑے پلاسٹک کی تھیلیوں میں جمع کئے۔اس کی آواز میں ایک ہلکی سی لرزش تھی اور اس کی ٹانگیں بھی شاید کانپ رہی تھیں لیکن اس کے چہرے پہ ایک بلاکا اطمینان تھا۔وہ ان عورتوں میں سے ایک تھی جس نے الیکشن کے دوران دیگر ہزاروں عورتوں کی مانندجلسوں میں شرکت کی تھی اور ریلیوں میں چیخ چیخ کے نعرہ لگایا تھا،جو یہ امید کررہی تھی کہ شاید یہ الیکشن اس کی قوم کے لئے اچھے اور پرامن دنوں کی نوید لیکر آئے گااوراس کے حلقے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ پورے صوبے کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوسکے گا۔

میں اپنے خواب میں ایک ایسے ہزارہ کو بھی دیکھ رہا تھا جو سینیٹ کے ایک اجلاس میں انتہائی اعتماد لیکن انتہائی جذباتی انداز میں ہزارہ قوم پر ہونے والے ظلم اور ان کے قتل عام کے خلاف بول رہا تھا۔اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی ۔ شاید وہ آج ساری باتیں کہہ دینے پر تلا ہوا تھا۔چیئرمین صاحب بار بار اپنے ڈیسک پر ہتھوڑا مار کے اسے خاموش کرنے اور بٹھانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن شایدوہ اپنی ہی دنیا میں گم تھا۔اسے غالباََ زندگی میں پہلی بارایسے کسی پلیٹ فارم پر اپنی بات کہنے کا موقع مل رہا تھاجہاں وہ ریاست اور حکومت سے دل کھول کے شکوے کر سکتا تھا۔وہ بھی گزشتہ تیرہ سالوں میں دہشت گردی کے دوران قتل ہونے والوں کا نوحہ پڑھ رہا تھا،وہ پا کستان کے لئے ہزارہ قوم کی خدمات کا ذکر کر رہا تھا تو اس کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کا جسم بھی لرز رہا تھالیکن شایدوہ آج اپنے دل کی مکمل بھڑاس نکالنے کے موڈ میں تھا لہذٰا بے تکان بولے جارہا تھا۔
میں یہ خواب مسلسل کئی دنوں سے دیکھ رہا تھا لیکن سوتے میں نہیں بلکہ جاگتی آنکھوں سے۔میں اس خواب کے سحر میں بری طرح جھکڑا ہوا تھا مگرمیرے سارے خواب بکھر گئے۔شاید فرشتوں کو میرا یہ خواب پسند نہیں آیا۔میرے خواب بکھر تو گئے لیکن میں ہر گز نہیں بکھرا میں پھر ایک نیا خواب بُنوں گا ایک ایسا خواب جو ایک ایسے معاشرے کے بارے میں ہوگاجہاں فرقہ واریت او ر کسی مذہبی اور نسلی تعصب کی گنجائش نہیں ہوگی،جہاں امن ہوگا، جہاں لوگ ایک دوسر ے کے عقائد اور نظریات کا احترام کرتے ہونگے،جہاں کوئی طالع آزما اچانک کسی کونے سے نکل کر قوم کے خوابوں سے کھیلنے کی کوشش نہیں کرے گا،جہاں ہر کوئی اپنی بات برملا کہنے سے نہیں ہچکچائے گا، جہاں خواب بُننے کی آزادی ہوگی اورجہاں فرشتوں کو بھی اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ خوابوں کی تعبیر اُلٹ سکے۔
میں پھر ایک خواب بُنوں گا

13.05.2013

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.