اب کیا ہوگا؟
اب کیا ہوگا؟
اب شاید اس موضوع پر تبصرے یا تجزئے کی ضرورت باقی نہیں رہی کہ مرکز اور صوبوں میں کن کی حکومت بنے گی کیوں کہ جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا اور جو کچھ طے ہے وہ ہو کر رہے گا۔جہاں تک انتخابات کی شفافیت یا اس سے متعلق دھاندلیوں کی بات ہے تو اس کے خلاف ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی زور شور سے مظاہرے جاری ہیں اور شاید تب تک جاری رہیں گے جب تک احتجاج کرنے والے تھک ہار کر یا مایوس ہوکر گھر بیٹھ نہیں جاتے۔ایسے میں علمدارروڑ کوئٹہ سے ملحق میجر محمد علی شہید روڑ پر بڑی تعداد میں کچرے کے ڈھیر سے ملنے والے ووٹوں نے الیکشن کمیشن کے شفاف چہرے پر ڈھیر سارا کچرہ مل دیا ہے۔دھاندلی کےاس واضح ثبوت سے متاثرہ امیدوار کو کیا فائدہ پہنچا اس کا تو اندازہ نہیں لگایا جاسکا البتہ علاقے کے عوام نے اس بات پر ضرور سکون کا سانس لیا کہ میڈیا پر اس خبر کے نشر ہوتے ہی انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں اور انہوں نے گاڑیاں بھیج بھیج کر آناَ فاناَ پورے علاقے کے کوڑے دانوں کو صاف کرکے شیشے کی طرح چمکادیا۔
دوسری طرف بعض پولنگ اسٹیشنوں پر سو فیصد سے زیادہ پولنگ کی خبروں نے بھی انتخابات کی شفافیت سے متعلق دعوؤں کی قلعی کھول کے رکھ دی جس کے بعد بلوچستان کے متعدد حلقوں سے امیدواروں نے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی یا ان حلقوں میں دوبارہ پولنگ کے لئے الیکشن کمیشن کے سامنے درخواستیں جمع کرادی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ان شکائتوں کے ازالے کے لئے کیا اقدامات کرتا ہے کیوں کہ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ اگر ایسی کسی درخواست پر کوئی کاروائی ہوئی بھی ہے تو اسکا نتیجہ آنے میں کئی سال لگے ہیں۔ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن ان درخواستوں کی سماعت میں زیادہ دلچسپی اس لئے بھی نہیں دکھاتا کیوں کہ اگر دھاندلی کے خلاف کوئی فیصلہ آئے تو اس سے اس کی اپنی کار کردگی پر اُنگلیاں اُٹھ سکتی ہیں لہٰذا غالب گمان یہی ہے کہ اب بھی دھاندلی کی شکایت کرنے والے الیکشن کمیشن کے دفاتر کی خاک چھانتے ہی رہیں گے۔ ایسے میں کوئی خوش قسمت ہی ہوگا جس کی فریاد سنی جائے گی اور اس میں بھی کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔ اس لئے بہتر یہی کہ اب اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ وفاق اور صوبوں میں بننے والی مستقبل کی حکومتیں ملک میں کیا تبدیلیاں لیکر آسکتی ہیں؟
اگرچہ ملکی مسائل کا احاطہ کرنے کے لئے شاید کئی جلدوں پر مشتمل کتاب لکھنے کی ضرورت ہو لیکن ایک ایسا مسئلہ جسے کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور جسے مستقبل میں بننے والی حکومتوں کی ترجیحات میں سر فہرست ہونا چاہئے وہ ہے امن و امان کا مسئلہ۔ اسے اگر ہم ملک کے اکثر مسائل کی جڑ کہہ لیں تو شاید غلط نہ ہو۔زرا سوچئے، ایک ایسا ملک جہاں آئے دن گلی کوچوں اور بازاروں میں بم دھماکے ہوتے ہوں جس کے باعث لوگ زیادہ وقت گھروں میں ہی گزارنے پر مجبور ہوں۔ جہاں اگر تاجر بھتہ نہ دیں تو ان کی دکانوں اور گھروں پر بم پھینکے جاتے ہوں، ان کے بچوں کو مار ڈالنے کی دھمکیاں دی جاتی ہوں اور انہیں تاوان کی غرض سے اغوا کیا جاتا ہو۔جہاں بدامنی اور ہڑتالوں کے باعث تجارتی مراکز بند رہتے ہوں اور سرمایہ کار اپنی ساری جمع پونجی لپیٹ کر دوبئی اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں سرمایہ کاری پر مجبور ہوں؟ جس ملک میں سکولوں کو بموں سے اُڑایا جاتا ہو، طلباء اور طا لبات کی بسوں پر خود کش حملے کئے جاتے ہوں اور اساتذہ کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہو، جہاں نہ مساجد محفوظ ہوں نہ خانقاہیں اور نہ ہی مزارات۔جہاں اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے کے لئے بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کا بے دریغ قتل عام کیا جاتا ہو۔
جہاں دوسرے ملکوں کے کھلاڑی آنے سے صرف اس لئے معزرت کرتے ہوں کہ وہاں ان کی زندگیاں محفوظ نہیں اور سیاح بھی اس ڈر سے وہاں کا رخ کرنے سے کتراتے ہوں کیوں کہ انہیں اغوا کرلیا جاتا ہے۔ جہاں مسافروں کو بسوں سے اتار کراس لئے مارا جاتا ہو کیوں کہ ان کا تعلق کسی دوسرے مسلک یا صوبے سے ہے۔جہاں بے شمار بچے، بوڑھے اور خواتین اپنے لاپتہ پیاروں کی تصاویر اُٹھائے در بہ در کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہوں اور جہاں ویرانوں سے روزانہ نوجوانوں کی مسخ شدہ لا شیں ملتی ہوں۔ جہاں کی سڑکیں ڈاکوؤں کے لئے محفوظ لیکن عوام کے لئے غیر محفوظ ہوں، آئے دن ٹرینوں پہ حملے کئے جاتے ہوں، بجلی کے ٹاورز اور گیس کی پائپ لائنوں کو دھماکوں سے اُڑایا جاتا ہو اور جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عوام کی حفاظت پر مامور اہل کار عوام کا تحفظ کرنے کے بجائے خود اپنی حفاظت کے ڈر سے اونچی دیواروں اور قلعوں میں بند رہنے پر مجبور ہوں تو اس ملک کی معیشت کیسے سدھر سکتی ہے؟
اب جبکہ تمام تر شکایتوں کے باوجود انتخاباتی عمل اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے اور عوام آئندہ کچھ دنوں میں قائم ہونے والی حکومتوں بالخصوص وفاق میں بننے والی نواز شریف کی حکومت سے ڈھیر ساری امیدیں وابستہ کئے بیٹھی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف ملک کو درپیش چیلنجوں خصوصاَ دہشت گردی سے کس طرح نبرد آزما ہو تے ہیں۔ بچپن سے ہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان کی خارجی اور داخلی سیاست ہمیشہ کچھ بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں سے روابط پر منحصر ہوتی ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات سرد جنگ کے دنوں سے ہی ایک خاص سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تعلقات میں کچھ نشیب و فراز بھی آئے لیکن مجموعی طور پر امریکی پالیسیوں کو پاکستانی سیاست میں ہمیشہ ایک خاص اہمیت حاصل رہی۔ افغانستان میں سوویت فوجوں کی آمد اور ان کی “پیش قدمی” کو روکنے کی خاطر امریکہ نے پاکستان اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر جو گل کھلائے اس کے نتائج ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔
افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلاء اور خود سوو یت یونین کی شکست و ریخت کے بعدامریکہ نے تو اپنی ترجیحات تبدیل کرلیں لیکن پاکستان اور سعودی عرب امریکہ کی وضع کردہ اسی جہادی پالیسی کو لیکر ہی آگے بڑھتے رہے۔افغانستان میں اقتدار کی خاطر رسہ کشی اورہمسایہ ملکوں کی اپنے منظور نظر افراد اور گروہوں کو اقتدار دلانے کی کشمکش نے پورے خطے کو بد امنی اور پراکسی جنگ میں جھونک دیا۔نو آزاد شدہ وسط ایشیائی مسلمان ریاستوں پر اپنا اثرو نفوز قائم کرنے بلکہ انہیں اپنا زیر اثر لانے کی خاطر پاکستان،سعودی عرب اور ایران کی کشمکش سے ان وسط ایشیائی ملکوں کا تو کچھ نہیں بگڑا البتہ ان مقاصد کے حصول کی خاطر جہادی کلچر کے فروغ اور فرقہ واریت کی ترویج نے پاکستان کو ایک جہنم میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ان وسط ایشیائی مسلمان ریاستوں کے علاوہ دنیا بھر کے جہادی اپنے ملکوں میں ”شریعت“کا نفاذ بھول کرپاکستان میں شریعت کے نفاذ کی جدوجہدمیں مصروف ہوگئے۔پاکستان کے مقتدر حلقوں کی جانب سے مستقبل کے سٹریٹجک مفادات کے حصول کی خاطر ان جہادی گروہوں اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی سرپرستی کے باعث پاکستان میں مسلک اور فرقے کی بنیاد پر مخالف فرقوں کے افراد کو قتل کرنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔
اگرچہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کی ابتدا امیرالمومنین ضیاء الحق کے دور میں ہوئی اور علامہ احسان الٰہی ظہیر اس کا پہلا نشانہ بنے لیکن اسے عروج نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں حاصل ہوا۔ اس فرقہ واریت سے نمٹنے کی خاطرنواز شریف نے 1991 میں اس بات کی کوششیں شروع کیں کہ شیعہ اور سنی مسالک کے علماء کو ایک میز پر بٹھاکرانہیں اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ پر امن بقائے باہمی کے اُصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے عقاید کا احترام کریں اور ایک دوسرے کے خلاف گستاخانہ باتوں سے گریز کریں۔وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی رہے اور تقریباَ 30 کے قریب علماء اور مشائخ نے ”اتحاد بین المسلمین کمیٹی“ کے تحت ہونے والے اس معاہدے پر دستخط کئے۔ 1992 میں ہونے والے اس معاہدے کے بعد پنجاب میں فرقہ واریت میں خاطر خواہ کمی آئی لیکن پھریہ عفریت آہستہ آہستہ پنجاب کی سرحدوں سے نکل کر پاکستان کے دوسرے صوبوں تک پھیلنا شروع ہوا۔
1997 میں جب نواز شریف دو تہائی اکثریت کے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو پورے ملک خصوصاَ پنجاب کو ایک بار پھر شدید فرقہ واریت کا سامنا تھا۔یاد رہے کہ تب ان کے بھائی شہباز شریف بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوچکے تھے۔ ان کے خصوصی احکامات کے نتیجے میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث کئی افراد کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ متعدد دہشت گردوں کو پولیس مقابلوں میں پھڑکا دیا گیا تاکہ انصاف کی فراہمی میں حائل طویل اور کمزور عدالتی طریق کار سے بچا جا سکے۔یہ سارا سلسلہ اس وقت اپنے اختتام کو پہنچا جب 1999 میں رائے ونڈ کے قریب نواز شریف کو ایک بم دھماکے میں ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس حملے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی۔اس واقعے کے بعد میاں برادران جیلوں میں بند دہشت گردوں کو رہاکرنے اور ان کے سرپرستوں کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے جس کے بعد ان دہشت گردوں نے ایک بار پھر پنجاب سے نکل کر ملک کے باقی حصوں خصوصاَ کوئٹہ اور کراچی میں اپنی کاروائیوں کا آغاز کردیا۔
ماضی میں شریف برادران پر تواتر کے ساتھ یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ ان کے کالعدم مذہبی تنظیموں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔شہباز شریف کے دست راست اور پنجاب کے سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا نام ان لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے جن پر ان کالعدم تنظیموں کی براہ راست پشت پناہی کا الزام ہے۔ایسے میں اگر اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا کی ان رپورٹوں پر اعتبار کیا جائے جن کے مطابق کچھ “دوست” عرب ممالک جنوبی پنجاب کے ان مدرسوں کو سالانہ کروڑوں روپے بطور امداد دے رہے ہیں جو کالعدم مذہبی تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شریف برادران کے پاس وہ کونسی گیدڑ سنگھی ہے جس کی بنا پر انہوں نے گزشتہ کئی سالوں سے پنجاب کو فرقہ واریت سے بچائے رکھا ہے؟یاد رہے کہ پچھلے پانچ سالوں کے دوران پنجاب میں دہشت گردی کے جتنے واقعات ہوئے ان کا تعلق فرقہ واریت سے ہرگز نہیں جوڑا جاسکتا۔ ان حملوں میں بھی اس کے بعد بہت کمی دیکھنے میں آئی جب وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بھرے مجمعے میں طالبان سے اپیل کی کہ وہ پنجاب میں اپنے حملے بند کردیں۔
پاکستانی سیاست میں بین الاقوامی قوتوں کے علاوہ علاقائی طاقتوں بالخصوص سعودی عرب اور ایران کی مداخلت اور ان کے مفادات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے بعض ایسے حقائق کا تذکرہ ضروری ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے وقوع پزیر ہوتے ہوئے بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔اس بات کو آئی ایس آئی کے ایک سابق ڈائریکٹر سید احمد ارشاد ترمزی نے اپنی کتاب “حساس ادارے” ( پروفائلز آف انٹیلیجنس ) کے صفحہ 268 پر ان الفاظ میں بیان کیا ہے؛”اپنے عقیدے اور مسلک کے حوالے سے شیعوں کے ساتھ سعودی عرب کی دوستی اور جذبات ہمیشہ کچھ سرد رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ہر حکومت نے اسے ایک غیر تحریری قانون اور قومی پالیسی کا حصہ سمجھا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سعودی عرب کے پاکستانی سفارتخانے میں کسی شیعہ کو تعینات نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی شیعہ فوجی کو تربیت یا کسی اور فوجی مشق کے لئے وہاں بھیجا جائے”۔
لہٰذا، پاکستان میں جب بھی کوئی نئی حکومت بنتی ہے چاہے وہ نگران ہو یا منتخب، اُسکے سربراہ کو اس غیر تحریر شدہ معاہدے کے تحت پہلی ہی فرصت میں سعودی حکمرانوں کی قدم بوسی کے لئے اُن کے دربار میں حاضر ہونا پڑتاہے۔تخت پاکستان پر متمکن ہونے کے فوراَ بعد ہمارے حکمرانوں کی عمرہ کے بہانے سعودی عرب کی یاترا کے پیچھے دراصل یہی فلاسفی کار فرما ہوتی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ نئے حکمران بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح ریاض کے وفادار رہیں گے۔سعودی حکمرانوں کی آشیرواد ہی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ مستقبل میں پاکستان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کیا جائیگا اور اس کی کتنی مدد کی جائے گی۔سعودی حکمرانوں کا پاکستان کے سیاست دانوں پر اثرو رسوخ کسی سے پوشیدہ نہیں نہ ہی ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے کبھی اُن سے اپنے تعلقات کی نفی کی ہے۔پرویز مشرف کے دور میں جب نواز شریف پر طیارہ ہائی جیکنگ کا مقدمہ بنا اور انہیں جیل کی ہوا کھانی پڑی تو یہ سعودی عرب ہی تھا جو آگے بڑھا اور اپنے دیرینہ دوست کو پرویز مشرف کے عتاب سے بخیر و خوبی نکال کے لے گیا، حالانکہ اس مقدمے میں نواز شریف کو موت کی سزا بھی ہوسکتی تھی۔
اگلے آٹھ برسوں کے دوران سعودی عرب میں شریف خاندان کی جو مہمان نوازی کی گئی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ پرویز مشرف کی سعودی عرب میں جو آؤ بھگت ہوتی تھی اس سے بھی دونوں کے تعلقات میں پائی جانے والی گرمجوشی کا اظہار ہوتا تھا۔پرویز مشرف بھی اس بات کا بارہا بڑی عقیدت سے اظہار کرتے تھے کہ ان کے لئے خانہ کعبہ کا دروازہ کم از کم دو مرتبہ کھولا گیا۔ لیکن آصف زرداری کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ انہوں نے صدر منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے جس اسلا می ملک کا دورہ کیا وہ ایران تھا۔ یہ بھی ایک طرح سے اس بات کا اظہار تھا کہ خارجہ پالیسی بناتے ہوئے ایران کو سعودی عرب پر ترجیح دی جائے گی۔زرداری کا ایران کایہ دورہ اس بات کی بھی علامت تھا کہ وہ سعودی عرب کے بجائے ایران سے دوستی پر زیادہ توجہ دیں گے۔ ان کی اس حرکت کا سعودی حکمرانوں نے یقینا برا منایا ہوگا جسے زائل کرنے کے لئے صدر زرداری نے اپنے دورہ ایران کے فوراَ بعد رحمان ملک کو سعودی عرب بھیجا جبکہ خود بھی ایک موقع پر ایک وفد کے ہمراہ سعودی عرب گئے جہاں انہوں نے ایران سعودی عرب اختلافات کم کرنے میں کردار ادا کرنے کی پیش کش بھی کی لیکن بات نہ بن سکی۔
ایران اور سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے تبھی اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے تھے کہ پاکستان کے برے دن آنے والے ہیں۔ اس خدشے کا اظہار کرنے والوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ ایران بین الاقوامی پابندیوں کے باعث عالمی برادری سے کٹا ہوا ہے اور اس کی معاشی حالت بھی ایسی نہیں کہ وہ پاکستان کی کوئی مالی مدد کر سکے ایسے میں سعودی عرب کی ناراضگی زرداری اور پاکستان کو مہنگی پڑسکتی ہے؟ لیکن زرداری چونکہ ہمیشہ اپنے دل کی بات سنتے تھے اور اسی پر عمل بھی کرتے تھے اس لئے انہوں نے جاتے جاتے بھی سعودی عرب کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے ایران کے ساتھ اربوں ڈالر کے گیس پائپ لائن معاہدے پر دستخط کر دئے۔
جن دنوں کوئٹہ اور کراچی میں فرقہ وارانہ دہشت گردی اپنے عروج پر تھی اور روزانہ درجنوں افراد کو فرقہ واریت کے نام پر قتل کیا جارہا تھا تب بھی کچھ لوگ اس یقین کا اظہار کر رہے تھے کہ ہو نہ ہو یہ سب صدر زرداری کی حکومت کو ناکام ثابت کرنے کی سازش کا ہی ایک حصہ ہے تاکہ پاکستان کی عوام کو اس بات کا احساس دلایا جا سکے کہ ایک شیعہ صدر مملکت جس کی سرکاری رہائش گاہ پر بھی علم لہراتا رہتا ہے اس قابل نہیں کہ وہ فرقے کے نام پر قتل ہونے والوں کی دادرسی کرسکے۔اس سال کے آغاز میں جب علمدار روڑ اور ہزارہ ٹاون کے علاوہ کراچی کے عباس ٹاون میں خونریز سانحات رونما ہوئے تو بھی میں نے کئی اشخاص کو یہ کہتے سنا کہ ان واقعات کے زریعے دراصل زرداری کو الوداعی گارڈ آف آنر دیا جا رہا ہے۔اگران تمام سازشی تھیوریوں کو ایک طرف رکھا جائے تو اسے محض اتفاق ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ فرقے کے نام پر کوئٹہ اور کراچی میں جتنے بے گناہ لوگوں کا خون زرداری کے دور میں بہایا گیا اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی جبکہ اس دوران پنجاب ان تمام آلام و مصائب سے بالکل محفوظ رہا۔
یاد رہے کہ خبروں کے مطابق سابق وزیر داخلہ رحمان ملک اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کابینہ کی ایک خصوصی میٹنگ میں اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان خصوصاَ کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے کچھ “دوست” اسلامی ممالک کا ہاتھ ہے جن کا نام سفارتی آداب کی وجہ سے نہیں لیا جاسکتا۔
اب جب کہ پیپلز پارٹی کی حکومت قصہ پارینہ بن چکی ہے، جناب زرداری کی کرسی بھی محض کچھ ہی مہینوں کی مہمان ہے اور نواز شریف کو ایک بار پھر ایک اچھا خاصا مینڈیٹ ہاتھ لگا ہے تو لوگ یہ امید کرنے میں حق بجانب ہیں کہ مرکز اور بعض صوبوں میں ان کی حکومتیں قائم ہونے کے بعد شاید ملکی حالات میں بہتری کے کچھ آثار پیدا ہوں۔طالبان چند مہینے قبل ہی اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ امن مزاکرات کرنے پر راضی ہیں۔ وہ شاید اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ آئندہ آنے والی حکومت نواز شریف کی ہی ہوگی اسی لئے انہوں نے جناب نواز شریف کو اپنا ایک اہم ضامن نامزد کیا تھا۔لہٰذا ایک ایسے وقت میں جب نواز شریف بھی طالبان سے مزاکرات کے حق میں مسلسل بیانات جاری کر رہے ہیں اور پاک آرمی بھی اپنی نئی ڈاکٹرائن کے مطابق ملک کی داخلی صورت حال پر توجہ دینے کو اپنی پہلی ترجیح قرار دے رہی ہے اس بات کی توقع کی جانی چاہئے کہ ملک شاید واقعی ایک نئے دور میں داخل ہونے جارہا ہے۔
سنا ہے کہ جناب نواز شریف وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اُٹھانے کے بعد جون میں اپنی پوری فیملی کے ساتھ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب جائیں گے۔ مجھے امید ہے کہ اس سفر میں پوری قوم کی دعائیں ان کے ساتھ ہونگیں اور سب یہی چاہیں گے کہ جب وہ اس “بابرکت” سفر سے واپس لوٹیں تو ان کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ اور قوم کے لئے امن کی نوید ہو۔
اس بلاگ کو ڈان اردو پر پڑھنے کے لئے دیکھئے ۔