آؤٹ آف کورس
آؤٹ آف کورس
Friday, 31 May 2013
کوئی پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ کبھی کبھار ملنے والے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ “کیا تم روزے رکھتے ہو؟”
میں ہنس پڑا۔ پوچھا: آپ کو یہ سوال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
“بس یوں ہی!”اس نے جواب دیا۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کہتا ایک دوست جو پاس ہی بیٹھا تھا اُس سے پوچھ بیٹھا۔”کیاقیامت پہ یقین رکھتے ہو؟”الحمدللہ! کبھی کبھار ملنے والے دوست نے کہا۔
“آپ کے عقیدے کے مطابق مرنے کے بعدمنکر نکیر قبر میں آپ سے کیا پوچھیں گے؟” دوسرے دوست نے پھر سوال کیا۔
“میرے اعمال اورعقیدے سے متعلق پوچھا جائے گا” جواب ملا۔
“کیا تم سے یہ بھی پوچھا جائے گا کہ فلاں آدمی نماز کیوں نہیں پڑھتا تھا یا روزے کیوں نہیں رکھتا تھا؟” پھر سوال ہوا۔
“نہیں مجھ سے صرف میرے ہی اعمال کا حساب مانگا جائے گا کیوں کہ ہر کوئی صرف اپنے اعمال کا ہی ذمّہ دار ہوتا ہے” جواب ملا.
“تو پھر کسی اور سے اُس کے اعمال سے متعلق سوال پوچھنے کی تمہیں ضرورت کیوں پیش آئی؟”پھر سوال پوچھا گیا۔
“بس یوں ہی ۔ایک بار پھر جواب آیا۔”
اُن دونوں کی گفتگو سن کے مجھے کئی سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آیا۔
ایک دن ہم کچھ دوست حسب معمول تنظیم کے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے جب سول ہسپتال سے ایک فون آیا۔ ایک لاوارث شخص کی موت واقع ہو گئی تھی جو چہرے مہرے سے ہزارہ دِکھتا تھا۔ ہم سے اس بات کی درخواست کی گئی کہ ہم وہ لاش دفنانے کا انتظام کریں ۔ اپنا فرضِ منصبی انجام دینے کی خاطِر ہم اُس لاوارث لاش کو تنظیم کے دفتر لے آئے جہاں سے اُسے تابوت میں ڈال کر بلند آواز میں کلمۂ طیّبہ کاورد کرتے ہوئے قبرستان کی طرف لے چلے۔ ایسا کرنے کا مقصد راہ چلتے لوگوں کو یہ احساس دلا نا تھا کہ ہم ایک لاوارث شخص کو دفنانے کا بہت ہی احسن کام انجام دینے جا رہے ہیں۔ میت کو غسل دیا جا چکا تو تدفین کا مرحلہ آیا۔ اس کام کے لئے حسبِ معمول ایک ایسے عالم دین (آقائی نجفی) کی خدمات حاصِل کی گئیں جو ہمیشہ بغیر کسی معاوضے کے مردے کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لئے تیّار رہتے تھے۔ کفن میں لپٹے لاوارث شخص کی میّت کو قبر میں اُتارا گیا تو “تلقین” کا مرحلہ آپہنچا۔ نجفی صاحب قبر میں اترے ۔ انہوں نے کفن کا ایک کونا ہاتھ میں پکڑا اور اُسے ہلا ہلا کر مردے کو اُس کا سبق یاد کرانے لگا تاکہ وہ منکر نکیر کے سوالوں کا تسلّی بخش جواب دے سکے۔ اللہ اور اُس کے آخری نبی پر ایمان کی تجدید کروانے کے بعد مردے سے تقاضا کیا گیا کہ “کہو علی میرا امام ہے، کہو حسن میرا امام ہے”۔۔۔۔۔۔ الغرض مردے کو امتحان کی مکمل تیاری کروائی گئی۔ تدفین کا عمل مکمل ہوا تو ہم بھی ثواب اور خدمتِ خلق کے نشے میں سرشار واپس ہو لئے۔
اس واقعے کے تقریباَ بیس دنوں بعد کچھ لوگ تنظیم کے دفتر آئے جو کسی لاوارث مرُدے کی تدفین سے متعلق جاننا چاہتے تھے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ اُ زبک تھے اوراُن کا تعلق افغانستان سے تھا۔ وہ سارے مزدور تھے اور اپنے ایک گمشدہ ساتھی کی تلاش کررہے تھے جو گزشتہ کئی ہفتوں سے لا پتہ تھا۔ بڑی تگ و دو کے بعد وہ صرف اتنا جان پائے تھے کہ اُن کا مذکورہ ساتھی کچھ ہفتے پہلے کسی بیماری یا حادثے کے باعث سول ہسپتال میں داخل ہوا تھا جہاں اُس کی موت واقع ہو گئی تھی۔ ہسپتال ہی سے اُنہیں یہ معلومات ملی تھیں کہ ہمارے ادارے نے اُس کی تدفین کا کام انجام دیا تھا۔ اب وہ قبر کھدوا کے اپنے ساتھی کی بچی کچھی لاش اپنے وطن لے جانا چاہتے تھے تاکہ دوبارہ “اپنے طریقے” سے اور “اپنوں کے درمیان” اس کی تدفین کر سکیں۔ اس بات کے انکشاف سے کہ وہ لاوارث کوئی شیعہ ہزارہ نہیں بلکہ ایک سُنی ازبک تھا ہم سارے دوست ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ اس صورت حال سے ہم بڑے ہی مایوس ہوئے کیونکہ ہم نے اتنی محنت کرکے جو ثواب کمایا تھاوہ ہاتھوں سے پھسلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ ہم تو اس بات سے بہت خوش تھے کہ ہم نے ایک مرُدے کو اس کے بھولے اسباق یاد کرواکر منکر نکیر کے مشکل سوالوں کے لئے تیّار بھی کروالیا تھا۔ لیکن ہمیں کیا پتہ تھا کہ اُس مردے کے لئے وہ سارے سوال و جواب “آوٹ آف کورس” ثابت ہوں گے اور دوبارہ تدفین کے وقت کسی اور کورس کے مطابق پھر سے اُسے تیّاری کروائی جائے گی، بشرطیکہ ان کچھ ہفتوں میں منکر نکیر اس سے امتحان نہ لے چکے ہوں۔