بلوچستان میں نئی حکومت / PakVotes 02
بلوچستان میں نئی حکومت
نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بلا مقابلہ بلوچستان کے نئے وزیر اعلیٰ منتخب ہو چکے ہیں جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمد خان اچکزئی بھی صوبے کے نئے گورنر کی حیثیت سے اپنا حلف اٹھا چکے ہیں ۔کابینہ کی تشکیل ابھی تک ممکن نہیں ہوسکی کیونکہ مسلم لیگ (ن)،نیشنل پارٹی اورپشتونخوامیپ سمیت دیگر اتحادیوں کے درمیان وزارتوں کی تقسیم پر فارمولا طے نہیں پا سکا۔وزیر اعلیٰ مالک کی خواہش ہے کہ وہ کابینہ کے اراکین کی تعداد کم سے کم رکھیں جبکہ اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کی نظریں زیادہ سے زیادہ اوراہم وزارتوں کے حصول پر ٹکی ہیں۔ ان اہم وزارتوں میں ایسی کیا خاص بات ہے جن کی بندر بانٹ کا مسئلہ حل نہیں ہو پارہایہ تو وزارتوں کی قطار میں کھڑے امیدوار ہی بتا سکتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ باروزئی کی طرح ڈاکٹر مالک بھی کابینہ کی تشکیل میں مشکلات سے دوچار ہیں۔جس سے لوگوں میں یہ چہ میگوئیاں ہورہی ہے کہ اگر ڈاکٹر مالک کو کابینہ کی تشکیل میں ہی مشکلات کا سامنا ہے تو آگے چل کر وہ بلوچستان کے پہاڑ جیسے مسائل کیسے حل کر پائیں گے؟ اگر وزارتوں کی تقسیم کا یہ مرحلہ آئندہ چند روز میں حل نہ ہو سکا تو امید ہے کہ بیورو کریسی کے تیار کردہ بجٹ کو ڈاکٹر مالک ہی اسمبلی کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہوں گے۔
بلوچستان کی متعدد سیاسی پارٹیاں انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف ابھی تک سراپا احتجاج ہیں۔ علمدار روڑ کے ایک پولنگ سٹیشن کے قریب کوڑے دان سے ملنے والے درجنوں مہر لگے ووٹوں کی برآمدگی سے متعلق مشہور واقعے کے خلاف ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی نے الیکشن کمیشن میں ایک درخواست دائر کر رکھی ہے جس میں حلقے میں دوبارہ پولنگ کی درخواست کی گئی ہے جبکہ الیکشن ٹریبونل میں متعدد دیگرپارٹیوں اور امیدواروں کی بھی مختلف عذر داریاں زیر سماعت ہیں ۔
بلوچستان کی ایک اہم سیاسی جماعت بی این پی (مینگل) نے ان دھاندلیوں کے خلاف انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے اب تک اسمبلیوں میں شرکت سے گریز کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ جوں جوں دن گزرتے جارہے ہیں ان کے رہنماؤں کے بیانات میں بھی تندی آرہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ انہیں ریاستی اداروں پر تنقید کی سزا ملی ہے اور ان کی واضح جیت کو راتوں رات شکست میں تبدیل کر کے ایک سازش کے تحت انہیں عوامی نمائندگی کے حق سے محروم کردیا گیا ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کرواکرکچھ قوتیں بلوچستان میں بسنے والی اقوام خصوصاَ بلوچوں اور پشتونوں کو آپس میں لڑانے کی سازشیں کر رہی ہیں لہٰذا وہ عوام سے رجوع کرکے اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ ان کے نومنتخب اراکین کو اسمبلی کا حصہ بننا چاہئے یا نہیں؟ اس فیصلے کا اعلان وہ 30 جون کو ہونے والے اپنے جلسہ عام میں کریں گے۔
دوسری طرف 8 جون کووزیر اعلیٰ کے انتخاب سے اب تک صوبے بھر میں تشدد کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔11 جون کو خضدار میں رونما ہونے والے دو مختلف واقعات میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے دو مقامی رہنما ؤں کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا جبکہ13 جون کو لورالائی کے قریب تین ڈاکٹروں سمیت پانچ افراد کو اغوا کرلیا گیا۔انہیں دنوں صوبے کے مختلف علاقوں سے پانچ نامعلوم افراد کی لاشیں بھی ملیں ۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک انتہائی حساس واقعہ 14 جون کو بلوچستان کے شہر زیارت میں پیش آیا جہاں راکٹوں سے حملہ کرکے بانی پاکستان محمد علی جناح کی آخری دنوں کی رہائش گاہ ”قائد اعظم ریزیڈنسی“ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا۔اس کے اگلے دن 15 جون کو ہزارہ ٹاون کے قریب بروری روڑ پر واقع سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں ایک اور انتہائی افسوسناک واقع پیش آیا جہاں ایک بم دھماکے میں گیارہ طالبا ت ہلاک جبکہ پندرہ سے زاید شدید زخمی ہوئیں۔اس واقعے کے تقریباَ ایک گھنٹے بعدقریب ہی واقع بولان میڈیکل کمپلکس میں ہونے والے خود کش دھماکے اور کئی گھنٹے جاری رہنے والے “شوٹ آوٹ” میں آٹھ حملہ آوروں کے علاوہ کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر عبدالمنصور کاکڑ اور تین نرسوں اور مریضوںسمیت مزید کئی افراد ہلاک ہوگئے ۔یاد رہے کے ڈاکٹر مالک نے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد صوبے میں امن و امان کی بحالی کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا تھا۔اس سلسلے میں انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے بھی بات چیت کا عندیہ دیا تھا جبکہ وزیر اعظم نے بھی اس معاملے کو اعلیٰ سطح پر آٹھانے کا وعدہ کیا تھا ۔ خبروں کے مطابق حال ہی میں ہونے والی ایک ملاقات کے دوران وزیر اعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل کیانی کے درمیان بھی اس موضوع پر بات چیت ہو چکی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کی نئی منتخب حکومت کواپنی تشکیل کے آغاز میں ہی سخت پریشانیوں کا سامنا ہے اور تشدد اور دہشت گردی کے ان واقعات کے زریعے ایک طرح سے اس نئی حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن صوبے کی عوام کو اس بات کی توقع ہے کہ نئی حکومت ان مشکلات سے نکلنے اور صوبے میں امن کی بحالی کے لئے اپنی تمام صلاحیتں بروئے کار لائے گی۔
یہ بلاگ www.urdu.pakvotes.pk کے لئے لکھا گیا ۔
http://www.urdu.pakvotes.pk/?p=1268