چراغ سب کے بجھیں گے
چراغ سب کے بجھیں گے
ہفتہ کے روز سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں دھماکہ ہوا اور اس کے بعد بی ایم سی کے شعبہ حادثات میں خود کش دھماکہ اور پھر فلمی انداز میں ایک شوٹ آوٹ۔ٹیلی ویژن چینلز نے ان واقعات کی بال ٹو بال کمنٹری کی۔انہیں کئی دنوں کے بعد ایک ”ہاٹ ایشو“ ہاتھ آیا تھا۔ٹاک شوزکرنے والے بھی بڑے پرجوش دکھائی دے رہے تھے کیوں کہ ان کو بھی بڑے دنوں کے بعدایک اچھا موضوع میسر آیا تھا۔ تبصرے کرنے والوں کی بھی چاندی ہو گئی تھی۔خصوصاَ بلوچستان کے سیاست دانوں کی تو لاٹری نکل آئی تھی۔ان کے ٹیلی فون پر کالز کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ نیوز چینلز اپنے پروگرام کا پیٹ بھرنے اور زیادہ سے زیادہ ریٹنگ حاصل کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے۔
بولان میڈیکل کمپلکس میں پولیس اور ایف سی خطرناک دہشت گردوں سے نمٹنے میں مصروف تھیں۔اس بات کا دور دور تک پتہ نہیں تھا کہ حملہ کرنے والے کون تھے اور انہوں نے طلب علم میں گھروں سے نکلنے والی ان لڑکیوں کو نشانہ کیوں بنایا تھا؟لیکن ٹی وی چینلز پر کچھ جغادری(آبسقال) ایسے ایسے نکتے اُٹھارہے تھے جن سے لگتا تھا کہ جس وقت دہشت گردان واقعات کی منصوبہ بندی کررہے تھے تو وہ بھی سلیمانی ٹوپی پہنے ان کے درمیان ہی کہیں بیٹھے ہوئے تھے۔پہلا انتہائی غیر سنجیدہ بیان حکمر ان نیشنل پارٹی کے نائب صدر حاصل بزنجو کا آیا۔ انہوں نے ایک ٹی وی چینل پرانتہائی وثوق سے یہ بیان دیا کہ یہ حملہ دراصل”ہزارہ کمیونٹی“ پر ہونا تھا لیکن(بدقسمتی سے)اس کا شکار دوسرے لوگ بنے۔انہوں نے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک کے نائب ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ کس طرح صرف دو دن پہلے ہزارہ طالبات کی بس کا روٹ تبدیل کیا گیا تھا(حالانکہ روٹ تبدیل نہیں ہوا تھا بلکہ اس روٹ کی وین خراب ہو گئی تھی جو ایک معمول کی بات ہے)
پھر انہوں نے ایک ”با خبر“فرد کی طرح اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ بولان میڈیکل کمپلکس میں داخل ہونے والے دہشت گردوں نے کسی ایمبولینس کو زریعہ بنا یا تھا۔حالانکہ کسی حکومتی ادارے نے اب تک اس موضوع پر لب کشائی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔حاصل بزنجو کو قریب سے جاننے والے لوگوں کے لئے بھی ان کی یہ تجزیہ نگاری کسی اچھنبے سے کم نہیں تھی۔کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ چونکہ اس واقعے سے قبل زیارت میں قائد اعظم ریزیڈنسی کو جلانے کا واقعہ رونما ہو چکا تھا جو نیشنل پارٹی کی حکومت کے لئے ایک کھلا چیلنج اورڈاکٹر مالک کے لئے ایک غیر متوقع اورعلیحدگی پسند بلوچوں سے مذاکرات کی امیدوں پر پانی پھیرنے والا عمل تھا اس لئے بزنجو صاحب نے اس واقعے سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے خواتین یو نیورسٹی کے واقعے کو ہائی لائٹ کرکے اور اسے ہزارہ ”برادری“اور طالبان کا”اندرونی“ مسئلہ قرار دے کربری الزمہ ہونے کی دانستہ کوشش کی۔ دوسرے دن میں نے اتفاق سے ایک نیوز چینل کا ایک نشر مکرر پروگرام دیکھا جو پہلی بار اس وقت لائیو نشر ہوا تھا جب بی ایم سی میں شوٹ آؤٹ جاری تھا۔شو میں صرف اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ یہ حملہ ہزارہ طالبات پر ہوا ہے اور ہلاک ہونے والی طالبات کا تعلق ہزارہ ”کمیونٹی“ سے ہے۔
اس شو میں ”اپنے“ اسلم بھائی کے برادر سابق سینیٹر اور حالیہ انتخابات میں منہ کی کھانے والے امیدوار لشکری رئیسانی سمیت کچھ اور انتہائی”عقلمند سیاسی تجزیہ نگار“ بیٹھے ہوئے تھے سب کا یہی خیال تھا کہ یہ حملہ ہزارہ ”کمیونٹی“ کے ہی خلاف تھالیکن بد قسمتی سے غیر ہزارہ مارے گئے۔اس دوران بی بی سی ا ردو پر کسی ڈاکٹر ابو بکر بلوچ نامی شخص کی بات چیت نشر کی گئی جس نے کہا کہ حملہ آور شیعوں کو مارنا چاہتے تھے اور انہوں نے سنیوں کو نکل جانے کا کہا تھا۔ حالانکہ اسی بی بی سی پرلشکر جھنگوی کا یہ “آفیشل” بیان بھی شائع ہوا تھا جس میں خروٹ آباد واقعے کا بدلہ لینے کی بات کی گئی تھی۔ اگلے دن کے اخبارات میں لشکر جھنگوی کا تفصیلی بیان شائع ہوا جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ 15 جون کی کاروائی کا مقصد کچھ دن پہلے ہونے والے خروٹ آباد واقعے کا بدلہ لینا تھا اور طالبات پر خود کش حملے کا مقصد بھی اسی خروٹ آبادواقعے میں ماری جانے والی خاتون عائشہ اور بچی حفصہ کا بدلہ تھا۔بعض اطلاعات کے مطابق ڈپٹی کمشنر عبدالمنصور اس اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بنے جو چھتوں پر قابض دہشت گردوں کی طرف سے ہو رہی تھی جس کے نتیجے میں کئی دیگر افراد کی طرح وہ بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن اگلے دن جنگ اخبار میں ایک ”داستان “ شایع ہوئی جو مقتول ڈپٹی کمشنر کے بارے میں تھی۔
انکے کسی دوست کا کہنا تھا کہ وہ اس لئے مارے گئے کیونکہ وہ ہزارہ کمیونٹی کے قتل عام کے خلاف تھے۔اخبار کے ایڈیٹر کو بھی پوری داستان میں صرف یہی بات اہم لگی اس لئے اسے خبر کا عنوان بنادیا۔ لوگ ابھی تک حیران ہیں کہ وہ کس کی بات پہ یقین کریں۔لشکر جھنگوی کی بات پر جسکا کہنا ہے کہ اس نے اپنے مجاہدین کے قتل کا بدلہ لیا ہے جو خروٹ آباد میں مارے گئے یا حاصل بزنجو اور اس نامعلوم ڈاکٹر ابو بکر کی بات کا جن کا خیال ہے کہ یہ سارا ڈرامہ ہزارہ قوم کے قتل عام کے لئے رچایا گیا تھا۔
اس بات سے شاید کسی کو انکار نہ ہو کہ اگر کسی مرض کی صحیح تشخیص نہیں ہوگی تو اس کا درست علاج بھی نہیں ہوگا۔ہزارہ قوم گزشتہ تیرہ سالوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ہم میں سے ہر ایک کے ذہن میں اس دہشت گردی اور قتل عام کی مختلف تاویلیں ہونگیں جواپنی اپنی جگہ درست بھی ہو سکتی ہیں کیوں کہ اس دہشت گردی کے پیچھے صرف ایک مقصد ہرگزکار فرما نہیں ہوسکتا بلکہ یہ ایک کثیر جہتی معاملہ ہے جس میں بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں سے لیکر مقامی افرادتک کے مفادات ملوث ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ سینکڑوں جانوں کی قربانی دینے اور لاتعداد معزوروں اور زخمیوں کا دکھ سہنے کے باوجودہمارے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی۔لیکن ہمیں ایک بات کا ادراک کرنا ہوگا اور دوسروں کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی کہ دہشت گردی محض ہزارہ قوم کا درد سر نہیں اس لئے دہشت گردی کا سارا ملبہ ہزارہ قوم پر ڈالنااور اپنے آپ کو معصوم، مظلوم اور لاتعلق قرار دینا حقایق سے چشم پوشی اور اپنا چہرہ ریت میں چھپانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہمارے ہمسایوں بالخصوص اپنے آپ کو کوئٹہ شہر کا مالک سمجھنے والوں کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ جب ہمسائے کے گھر میں آگ لگتی ہے تو شعلے ان کے خرمن کو بھی جلا کر راکھ کر سکتے ہیں۔حالیہ واقعے کے بعد بعض افراد کا یہ کہنا کہ یہ حملے ہزارہ قوم پر کئے جانے تھے لیکن نشانہ کچھ اور لوگ بنے دراصل ان دہشت گردوں کی طرح ہزارہ قوم کو دیوار سے لگانے اور انہیں الگ تھلگ کرنے کی پالیسی کا ہی حصہ ہے۔ لشکر جھنگوی کے بیان سے ظاہر ہے کہ انہوں نے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ اورپہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق اپنی کاروائی کی۔ایسے میں حاصل بزنجو سمیت دیگر افراد کے بیانات کا مقصد ان مقتولوں کے وحشیانہ قتل کی وجہ ہزارہ قوم کو قرار دینا حقائق سے فرار اور دہشت گردوں کی بالواسطہ معاونت کے سوا کچھ نہیں۔اب بھی وقت ہے کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان اور کوئٹہ کے عوام یہ جان لیں کہ ہمارا دشمن ایک ہے جسکا مقصد ہم میں دوریاں پیدا کرنا اور ہمیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرنا ہے۔اگرہم ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس نہیں کریں گے اور دہشت گردی کے خلاف مل کر آواز بلند نہیں کریں گے تو جہنم کی اس آگ سے کوئی نہیں بچ پائے گا۔
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہوچراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
June 16.2013