بلوچستان ، بجٹ اور امن و امان
بلوچستان ، بجٹ اور امن و امان
خدا خدا کرکےکفر ٹوٹا اوربالآخربدھ 19 جون کوبلوچستان کے تین اراکین اسمبلی نے وزراء کی حیثیت سے حلف اُٹھا لیا ۔وزیر بننے والوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نواب ثناءاللہ زہری،نیشنل پارٹی کے نواب محمد خان شاہوانی اور پشتونخوا میپ کے عبدالرحیم زیارت وال شامل ہیں۔ثناءاللہ زہری کو سینئر وزیر کا درجہ حاصل ہوگا جبکہ باقی وزراءکا انتخاب اور ان کے محکموں کا اعلان بعد میں کیا جائے گاکیوں کہ جس طرح خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھااہم محکموں کی تقسیم کا مرحلہ فی الحال طے نہیں ہو سکا۔وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک اس سے قبل اس بات کا اظہارچکے ہیں کہ صوبے کی نئی کابینہ مختصر ہوگی جس میں وزراء اور مشیروں کی تعداد پندرہ تک ہوگی۔اس صورت حال سے ان اراکین اسمبلی کو سخت مایوسی کا سامناہے جو اگرچہ حکمران اتحاد میں شامل نہیں لیکن کئی ہفتوں سے نہ صرف ان کی نظریں وزارت کے حصول پر ٹکی ہوئی ہیں بلکہ وہ بڑی دلجمعی سے حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کی خوشامد میں بھی لگے ہوئے ہیں۔ جمیعت علمائے اسلام (ف)جو گزشتہ کئی ادوار سے حکومت کے مزے لوٹتی آرہی ہے اس مرتبہ اپوزیشن میں بیٹھنے پر مجبور ہے اورانکی پارٹی کے مولانا عبدالواسع جو رئیسانی حکومت میں سینئر وزیر کے عہدے پر فائز تھے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ہرمعاملے میں صوبائی حکومت کی گوشمالی کرتے نظر آرہے ہیں۔ قائدحزب اختلاف کی حیثیت سے ان کے ابتدائی جوہر بیس جون کو سامنے آئے جب اسمبلی میں نئے مالی سال کےلئے بلوچستان کا بجٹ پیش کیا گیا ۔جس طرح توقع کی جارہی تھی اسمبلی میں یہ بجٹ وزیر اعلیٰ مالک نے خود پیش کیا۔بجٹ کا حجم ایک کھرب اٹھانوے ارب کے برابر ہے جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباََ ستائیس ارب زیادہ ہے۔بجٹ میں امن و امان کے لئے سولہ ارب روپےسے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے جبکہ تعلیم کے لئےچونتیس ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ایک سےسولہ گریڈ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد جبکہ باقی ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔بجلی کے بحران میں کمی لانے کے لئے تین سو دیہاتوں کو شمسی توانائی سے بجلی مہیا کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے جبکہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی خاطر پچاس کروڑ روپے کی رقم رکھی گئی ہے ۔صوبے کی اقتصادی صورت حال میں بہتری لانے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لئے ساڑھے چار ہزارنئی آسامیاں بھی مشتہر کی جا رہی ہیں جبکہ لگژری گاڑیوں کی خریداری پر بھی پابندی لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔تعلیمی شعبے میں جن انقلابی اقدامات کے دعوے کئے گئے ہیں ان کے مطابق صوبے کے طلباء و طالبات کے لئے “بلوچستان انڈوومنٹ فنڈٗ کے نام سے ایک منصوبے کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جس کی رُو سے اگلے ایک سال کے دوران صوبے کے پانچ ہزار طلباء و طالبات کو ملک کے بہترین تعلیمی اداروں میں وظائف دئے جائیں گے جبکہ بارہ طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرونی ممالک بھی بھیجا جائے گا۔تعلیمی صورتحال میں بہتری لانے کی خاطر ڈاکٹر مالک نے صوبے کے اساتذہ کوبھی اس بات کی سختی سے تاکید کی ہے کہ وہ اپنے فرائض درست طریقے سے انجام دیں ورنہ ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائیگی۔اس بجٹ پر حسب معمول سیاسی پارٹیوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔حکومت کی حامی پارٹیوں نے اسے متوازن اور موجودہ حالات میں ایک بہترین بجٹ سے تعبیر کیا ہے جبکہ اپوزیشن نے اس پر سخت تنقید کی ہے۔ اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں حکومت کی ترجیحات کا کوئی ذکر نہیں جبکہ ترقیاتی اسکیموں کے لئے 43ارب روپے مختص کئے جانے کے باوجوداسکیموں کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی۔انہوں نے مزیدکہا کہ جو حکومت ایک مہینہ گزرنے کے باوجود اپنی کابینہ تک تشکیل نہیں دے سکی وہ صوبے کے مسائل کیسے حل کرے گی۔لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ پچھلے دور میں جب وہ حکومت کا حصہ تھے تو ہر رکن اسمبلی کو تیس کروڑ روپے دئے گئے تھے ان روپوں کا کیا ہوا تو ان کا جواب تھا کہ ہم نے وہ فنڈ اسکیموں پر لگادئے۔دوسری طرف صوبے میں امن و امان کی صورت حال پر ابھی تک شکوک و شبہات ظاہر کئے جارہے ہیں ۔اگرچہ صوبائی حکومت نے تباہ کئے جانے والی زیارت ریزیڈنسی کوتین مہینوں کے اندر بحال کرنے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی اور بی ایم سی کمپلکس میں ہونے والے دہشت گردی کےواقعات سے متعلق کوئی نئی بات ابھی تک سامنے نہیں لا سکی نہ ہی موقع سے گرفتار ہونے والے مبینہ دہشت گرد کے بارے میں عوام اور میڈیا کو کوئی اطلاع فراہم کی گئی ہے جس کے باعث ان واقعات سے متعلق بہت ساری باتوں پر ابھی تک پردہ پڑا ہوا ہے۔یاد رہے کہ کالعدم لشکر جھنگوی نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انہیں اپنے ان ساتھیوں کے قتل کا بدلہ قرار دیا تھا جو کچھ ہفتے قبل کوئٹہ کے نواحی علاقے خروٹ آباد میں پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں کے ساتھ جھڑپ میں مارے گئے تھے۔13 جون کولورالائی کے قریب سے اغوا ہونے والے تین ڈاکٹروں سمیت پانچ افراد کابھی ابھی تک کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا جبکہ 27 مئی کو بلوچستان کے سرحدی شہر چمن سے اغوا ہونے والے سرجن ڈاکٹر مبشر حسن کو اغوا کاروں نے اخباری اطلاعات کے مطابق ایک کروڑ بیس لاکھ روپے تاوان لینے کے بعد چھوڑ دیا۔تعجب کی بات یہ ہے کہ مغوی سرجن کوتاوان کی ادائیگی کے بعد ان کے گھر کے قریب ہی چھوڑدیا گیا جس سے اغوا کاروں کی دیدہ دلیری اور ان کےاعتمادکا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔چند سال قبل بلوچستان میں تاوان کی غرض سے اغوا کی شاید ہی کوئی واردات ہوتی ہو لیکن سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کے دور حکومت میں یہ ایک انتہائی منافع بخش کارو بار بن گیا جس میں صوبے کی کئی اہم شخصیات بھی ملوث پائی گئیں۔صوبے کے نئے وزیر علیٰ ڈاکٹر مالک نے حال ہی میں اغوا کی ان وارداتوں کا نوٹس لیتے ہونے ان کی روک تھام کے لئے ایک خصوصی ٹاسک فورس بنانے کا اعلان کیا ہے جبکہ اس مسئلے سے نمٹنےاور امن و امان کی حالت بہتر بنانے کے لئے قبائلی عمائدین کے اثرورسوخ سے کام لینے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔امید کی جانی چاہئے کہ کابینہ کی تشکیل اور وزارتوں کی تقسیم کے بعد ڈاکٹر مالک صوبے کے مسائل کو حل کرنے پر زیادہ اطمینان سے توجہ دیں گے۔