لے پالک بچّہ
لے پالک بچّہ
بلوچستان میں دہشت گردی اور بد امنی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔لوگ ایک سانحے سے سنبھل نہیں پاتے کہ دوسرا رونما ہو جاتا ہے۔دہشت گردوں کے حوصلے کی داد دینی پڑے گی جو نہ تو حکومت کو خاطر میں لاتے ہیں نہ انہیں رمضان کے”مبارک“ مہینے کی پرواہ ہے۔حالانکہ حکومت نے پہلے ہی صاف صاف کہہ رکھا ہے کہ کسی کو بے گناہ لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن دہشت گرد ہیں کہ بغیراجازت اپنے مقدس مشن کی تکمیل میں مصروف ہیں۔مارچ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ان کو اس بات کی خوش فہمی تھی کہ حکمرانوں کی تبدیلی کے ساتھ شاید عوام کی تقدیر بھی بدل جائے گی۔لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ حکمران تو تبدیل ہوگئے لیکن دہشت گردوں کی سوچ اور جذبہ ایمانی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔بلوچستان کی حیثیت ویسے بھی ایک لے پالک بچے کی طرح ہے جس پر ہمیشہ کم ہی توجہ دی گئی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اس لے پالک بچّے کی ساریذمہ داری ایک ایسی آیا پر ڈال دی گئی ہے جو ا س سے جس طرح چاہے سلوک کرے پوچھنے والا کوئی نہیں۔اب اسی بات کو ہی لیجئے کہ مئی کے انتخابات سے قبل بلوچستان میں نگران کابینہ کی تشکیل کا تکلف ہی نہیں کیاگیا بلکہ یہی سوچا گیا کہ جب سارا کام آیا نے ہی کرنا ہے تو فضول خرچی اور دھوم دھڑکا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ انہی حالات میں وہ تاریخی انتخابات ہوئے جس کے اختتام پر خود نگران وزیر اعلیٰ بھی کہہ اُٹھے کہ میرے بھائی کو بھی جان بوجھ کر ہرایا گیا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں صوبے کے مستقبل کی جو تصویر بنائی گئی اسے دیکھ کر مصوروں کی فنکاری کی داد دینی پڑے گی۔ شور شرابہ کرنے والے ایسے تمام افراد کو آئندہ کے معاملات سے دور رکھا گیا جو آیا کی کا رکردگی پر سوالات اُٹھا سکتے تھے اور جن کو سامنے لایا گیا ان کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو آیا کے کام سے مکمل طور پر مطمئن ہیں اسی لئے گذشتہ دو مہینوں سے اس لے پالک بچّے کو آلام و مصائب سے دور رکھنے کی خاطر ”دوڑ دھوپ“ میں مصروف ہیں۔صوبے میں امن و امان کا قیام مڈل کلاس وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک کی اولین ترجیحات میں شامل ہے لیکن اب شاید انہیں بھی اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ یہ کام اتنا بھی آسان نہیں جتنا وہ سوچا کرتے تھے۔ انہیں پہلا دھچکا تب لگا جب زیارت میں قائداعظم ریزیڈنسی کو جلا کر خاکستر کیا گیا۔پھر تو ان کی حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بس میں دھماکہ اور بولان میڈیکل کمپلکس میں ہونے والے واقعات کے بعد ہزارہ ٹاون کے سانحے سے عوام کو بھی جلد ہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ حکمرانوں کی تبدیلی سے حالات کی تبدیلی کی امید رکھنا سادہ لوحی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہزارہ ٹاون میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اپنے وزیر داخلہ چودھری نثار اورتمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان کو ساتھ لیکر کوئٹہ تشریف لائے۔جہاں ایک خصوصی اجلاس میں انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس بات کی تاکید کی کہ دہشت گردی کے مذکورہ واقعے کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششیں کی جائیں۔ان کے اس دورے کو کوئٹہ کے عوام نے بہت سراہا جبکہ مسلسل قتل و غارت گری کی شکار ہزارہ قوم کو بھی ان کے بیانات سے یہ ڈھارس ملی کہ اب شاید ان کے برے دن ختم ہو نے کے قریب ہیں۔ حالانکہ لوگ اس بات کی توقع کر رہے تھے کہ شاید نو منتخب وزیر اعظم بوریا بستر ڈال کے اپنی ٹیم کے ساتھ تب تک کوئٹہ میں قیام کریں گے جب تک بقول ان کے بیس بازاروں اور بیس راستوں پر مشتمل اس چھوٹے سے شہر سے دہشت گردی کا مکمل صفایا نہ ہو جاتا۔ایسا کرکے وہ نہ صرف دہشت گردوں کو ایک واضح پیغام دے سکتے تھے بلکہ ابتداء میں ہی ایک نئے اور مظبوط ارادے کے مالک حکمران کا تاثر بھی قائم کرسکتے تھے۔لیکن چونکہ انہیں چین کے دورے پر جانا تھا ا س لئے وہ اپنا فرض منصبی اداکرکے نہ صرف خود واپس چلے گئے بلکہ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک کوبھی اپنے ساتھ چین کے دورے پرلے گئے۔ اس طرح انہوں نے ایک بار پھراس لے پالک بچے کو مکمل طور پر آیا کے سپردکرد یا جسے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر بھرپور توجہ کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر مالک چین سے واپسی پر کافی مسرور نظر آئے۔ گوادر تا کاشغر اقتصادی کاریڈور کے مستقبل سے متعلق بھی انہوں نے اپنے اطمینان کا اظہار کیا لیکن عوام کا کیا کہ جن کے لئے جان و مال اور عزت وآبرو کی حفاظت ہی سب سے بڑی ترجیح ہے؟ انہیں تواس بات کی توقع تھی کہ ڈاکٹر مالک کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے سے بلوچستانی عوام کی تقدیر بدل جائے گی اور صوبے کو دہشت گردی اور بد امنی سے چھٹکارا مل جائے گا مگر لگتا ہے کہ انہیں مستقبل میں بھی صرف امیدوں کے سہارے ہی جینا پڑے گا کیوں کہ صوبے کے ویرانوں سے نہ صرف اب بھی تواتر کے ساتھ نوجوانوں کی لاشیں مل رہی ہیں بلکہ سرکاری مخبر ہونے کے الزام میں بھی آئے دن لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف اغوا برائے تاوان کا سلسلہ ایک بار پھر اپنے عروج پر پہنچا ہوا ہے جس کے پنجوں سے ڈاکٹروں،اعلیٰ سرکاری اہلکاروں،تاجروں اور بچّوں سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں۔ شہر میں کراچی کی طرز پر بھتہ خوری کا رواج بھی جڑ پکڑ رہا ہے اور تاجروں سے بھتہ وصول کرنے کی خاطر ان کے گھروں پر دستی بم پھینکنے کا رجحان بھی سامنے آرہا ہے۔مذہبی منافرت کی آڑ میں دہشت گردی بھی ختم ہونے کانام نہیں لے رہی۔گزشتہ کئی دنوں سے نہ صرف ایک پراسرار طریقے سے سنّی علماء کو تاک تاک کردہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ عام لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔کوئٹہ کے لوگوں کو اس بات پر تشویش ہے کہ دہشت گرد ایک خاص تیکنیک سے مختلف طبقہ فکر کے افراد کواس لئے نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ شہر میں خانہ جنگی کی راہ ہموار ہو سکے۔اگرچہ گذشتہ تیرہ سالوں سے جاری دہشت گردی میں ہزارہ قوم کے تیرہ سو سے زیادہ افرادقتل کئے جاچکے ہیں لیکن انہوں نے ہمیشہ پر امن احتجاج کاراستہ ہی اختیار کیا تاکہ پاکستان اور دنیا کے خوابیدہ ضمیر کو جھنجوڑا جا سکے۔ان تیرہ برسوں میں دہشت گردی کاایک بھی ایسا واقعہ سامنے نہیں آیا جس میں کوئی ہزارہ ملوث پایا گیا ہو بلکہ اس کے برعکس ہزارہ قوم کے افراد نے اپنے سینکڑوں بچّوں، بو ڑھوں،جوانوں اور عورتوں کی قربانی دیکربھی ہمیشہ اس بات کی کوشش کی کہ شہر کو خانہ جنگی سے بچائے رکھے۔لیکن لگتا ہے کہ اب دہشت گردوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور وہ معاشرے کے مختلف طبقات کو بیک وقت نشانہ بنا کرشہر کو خاک اور خون میں نہلانا چاہتے ہیں۔ پندرہ جولائی کو ایسے ہی دو خونی واقعات میں سات افرادکو قتل کردیاگیا جس سے کوئٹہ شہرایک بار پھر سوگ میں ڈوب گیا۔پہلے واقعے میں نامعلوم قاتلوں نے چار ہزارہ تاجروں کو اس وقت تاک کر دہشت گردی کانشانہ بنایا جب وہ اپنی دکان بند کرکے روزہ افطارکرنے کی خاطر گھر کی طرف لوٹ رہے تھے۔ اس واقعے کے محض دو گھنٹے کے بعدہی نامعلوم دہشت گردوں نے ایک جوس کی دکان پر اندھا دھند فائرنگ کر کے تین افراد کو قتل کردیا جو کچھ ہی دیر پہلے پاس ہی کی ایک مسجد سے تراویح پڑھ کر نکلنے تھے۔دہشت گردی کے ان واقعات پر حسب معمول ہر ایک نے کوئی نہ کوئی بیان داغ دیا۔وفاقی اور صوبائی سطح پر حکمرانوں نے پرانے بیانات پر نئی تاریخیں ڈال کر میڈیا کو ارسال کئے جن میں ایک بار پھردہشت گردوں سےآہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹنے کے عزم کا اظہارکیا گیا تھا۔گورنر بلوچستان نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کی جلد گرفتاری کا حکم دیا۔وزیر اعظم نے بھی واقعے پر افسوس کا اظہار کیالیکن شایدوہ یہ بات بھول گئے کہ کچھ ہی دن پہلے ہی تو انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان کو دہشت گردوں کی گرفتاری کا ٹاسک دیا تھا جس پر عملدرآمد تو نہ ہوسکا البتہ دہشت گردوں نے ان کے احکامات کا مزاق اڑاتے ہوئے مزید کئی افراد کو بھون ڈالا۔وزیر اعظم کے واضح احکامات کے باوجود ان واقعات کے رونما ہونے سے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ یا تو ریاست ان دہشت گردوں سے نمٹنے کی صلاحیت کھو چکی ہے یا پھر کسی مصلحت کے تحت ان پر ہاتھ ڈالنے سے قصداَ گریز کیا جارہا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دہشت گرد تواپنے بیانات میں اس بات کا بڑے فخر سے اظہار کرتے ہیں کہ وہ جو کہتے ہیں اسے کر گذرتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس ہمارے حکمرانوں کی یہ عادت بن گئی ہے کہ وہ محض ایک بیان دے کرگویا تمام ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہوجاتے ہیں۔حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے اسی روّیے کی وجہ سے لوگوں کاان پر اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے۔ صوبے میں امن و امان کی ابتر حالت کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری نے بھی اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ توقع تھی کہ نئی حکومت جرائم پر قابو پائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اور سابقہ حکومت کی طرح بلوچستان کی موجودہ حکومت بھی ناکام ہو چکی ہے۔ڈاکٹر مالک 12جون کو بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ تین مہینوں کے اندرصوبے میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنائیں گے۔عوام کو اس وقت کاانتظار ہے جب ڈاکٹر مالک اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائیں گے اور شاید یہ اس وقت ممکن ہو سکے گا جب مرکز بلوچستان کو لے پالک بچّہ سمجھنا چھوڑ دے گا۔