کیسے کہوں عید مبارک
کیسے کہوں عید مبارک
09 اگست 2013
مجھے آج کئی دوستوں نے مختلف ذرائع سے عید کی مبارک باد دی لیکن میں باوجود کوشش کے کسی کو جواب میں عید کی مبارک باد نہیں دے سکا حالانکہ میری کوشش ہوتی ہے کہ ہمیشہ پہلی ہی فرصت میں اپنے کرسچن دوستوں کو کرسمس اور ایسٹر کی مبارک باد دوں ،اپنے ہندو دوستوں کو دیوالی پر نیک خواہشات کا پیغام بھیجوں ، عید پر اپنے تمام مسلمان دوستوں کو خوشنما تحریریں بھیجوں اور سال نو پر ہر اس دوست کو تہینتی پیغام ارسال کروں جن کا نام میرے موبائیل میں محفوظ ہے ۔ لیکن اب کی بار میں نے کسی کو کوئی پیغام نہیں بھیجا نہ کسی کے پیغام کا جواب دیا ۔ وجہ یہ تھی کہ میرے ذہن سے عید کا تصور ہی محو ہوچکا تھا ۔ پاکستان بالخصوص بلوچستان اور کوئٹہ میں رونما ہونے والے واقعات کے بعد عید منانا یا کسی کو عید کی مبارک باد دینا کم از کم میرے بس کی بات نہیں تھی۔ میرا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں ” کاروبار زندگی کو چلتے رہنا چاہئے ” یعنی The show must go on تاکہ دہشت گردوں کو اس بات کا احساس نہ ہو کہ ہم اپنا حوصلہ ہار رہے ہیں ۔ لیکن اس مرتبہ پے درپے واقعات یعنی مستونگ میں خواتین اور بچوں کے قتل عام سے لیکر پولیس لائن کوئٹہ کے سانحے نے میرا بھرم توڑ دیا ۔ میں نے اس بات کی گنتی نہیں کی کہ ان قتل ہونے والوں میں کتنےشیعہ تھے اور کتنے سُنی ، کون ہندو تھا اور کون عیسائی ،کون ہزارہ تھا اور کون پشتون ۔ ان میں کتنے پنجابی تھے اور کتنے بلوچ ؟۔ بلکہ مجھے ایسا لگا جیسے حسین علی یوسفی ، سید ابرار ہزارہ ، ولایت حسین ایڈوکیٹ ،احمد علی نجفی، فاطمہ اور ننھے علی حسن کا ایک بار پھر قتل عام ہوا ہے۔ مجھے ان کے قتل کا اتنا ہی دکھ ہوا جتنا ان ہزارہ تاجروں کے قتل پر ہوا تھا جو مسجد روڑ پر مارے گئے یا جو علمدار روڑ ، ہزارہ ٹاون سمیت کوئٹہ ، خضدار ،مچ اور مستونگ میں جنون کا شکار بنے ۔ ایس ایچ او محب اللہ سے میں کبھی نہیں ملا ،ڈی آئی جی فیاض سنبل اور قتل ہونے والے دیگر پولیس افیسروں اور سپاہیوں سے بھی میری کوئی شناسائی نہیں تھی۔مجھے نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ میراکیا رشتہ تھالیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اس عید پر آنے والے مبارک باد کے پیغام مجھے بالکل اچھے نہیں لگے ۔ مجھے یہ عید محرم کی طرح لگی ۔ اس لئے میں نے کسی کو عید مبارک نہیں کہا ۔
محرم میں عید مبارک کہنا اچھا بھی نہیں لگتا