ہزارہ گی زبان … چوتھی قسط
ہزارہ گی زبان ۔۔۔ چوتھی قسط
ایرانی اور ہزارہ ایک دوسرے کی زبان کس حد تک سمجھتے ہیں اس کا اندازہ اس چھوٹے واقعے سے لگایا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک ہزارہ ایران کے سفر پر تھا ۔بس ایک پٹرول پمپ پر رکی تو وہ نیچے اتر آیا ۔اسےپیاس لگ رہی تھی ۔ دیکھا تو ایک جگہ قطار میں بہت ساری بوتلیں رکھی ہوئی تھیں ۔ ایک بوتل کھول کر منہ سے لگانے والا ہی تھا کہ کسی نے چیخ کر آواز دی”آغا نفتہ” انہوں نے بھی بلند آواز میں جواب دیا”نہ موفتہ” اور بوتل منہ سے لگالیا ۔دو گھونٹ حلق سے اترے تو انہیں اندازہ ہوا کہ بوتل میں پانی نہیں بلکہ تیل بھرا ہوا تھا۔اسے بڑا غصہ آیا کہ کسی نے اسے بتایا کیوں نہیں؟
اس سے قبل میں نے اردو اور ہندی زبانوں کا ایک مختصر تقابلی جائزہ پیش کیا تھا اور بتایا تھا کہ اس کے باوجود کہ دونوں اطراف کے لوگ ایک دوسرے کی بات کو بڑی حد تک سمجھ لیتے ہیں لیکن ذخیرہ الفاظ میں تفاوت کی وجہ سے وہ انہیں علیحدہ زبانیں قرار دینے پر مصر ہیں ۔اب آئیے فارسی کے مختلف لہجوں کی بات کرتے ہیں ۔تاجکستان کے لوگ فارسی نہ صرف روسی اندازمیں بولتے ہیں بلکہ ان کی بہت ساری اصطلاحات بھی ایرانی یا افغانی فارسی سے مختلف ہیں ۔مثلا ہمارے ایک دوست کے بقول وہ نائی کی دوکان کو ” سرتراش خانہ” کہتے ہیں جبکہ کابل میں اس کے لئے سلمانی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اسی طرح احتجاجی مظاہروں کو تاجکستان میں ” بے ترتیبی” کہا جاتا ہے۔ جبکہ افغانستان اور ایران میں اس کے لئے تظاہرات کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔تاجکستان میں فارسی بولتے وقت الف کی آواز کو عموما “واو” میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہرات افغانستان کے لوگ الف کی آواز کو “ی” میں تبدیل کرلیتے ہیں ۔اصطلاحات اور الفاظ کی ادائیگی میں فرق کے باوجود تہران، کابل، ہرات اور تاجکستان کے لوگ ایک دوسرے کی بات سمجھ لیتے ہیں لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ وہ فارسی زبان کے مختلف لہجوں میں بات کرتے ہیں لیکن کیا ہزارہ گی زبان کوسمجھ پانا بھی ان لوگوں کے لئے اتنا ہی آسان ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے کے لئے ایک دوست اسحاق رامشگر کی ہزارہ گی تحریر کا ایک چھوٹا نمونہ پیش خدمت ہے جسے انہوں نے کچھ روز قبل فیس بک پر پوسٹ کیا تھا۔
“ده ايي روزا بحث وبازماني ده گيرد و بري لهجه آزرگي و يا زيبون آزرگي جريان دره البته اين دفه غدر جدي تر از دفه قبل كده اي تورا بال شيو موشه. خو مو چيز كني كه آزرگي زيبو استه و يا ام لهجه، ده نظر ازمه ايي كارا و ايي توره كته كته ره بيلي ده صايب شي كه اونا خوب غود از موسو ايي مسله ره قودقل كده و ريشه اصلي شي ره پيدا كده، يا زيبو ايلان مونه، يا ام لهجه! صايباي اصلي شي منظورم محققين و زبان شناسان استه! ده پي ديموني ازي توره يگ نقل ريزه گگ بلدي شيم كنوم، ما سالاي گاه كه ده كويته بودوم، فكر نوم ١٩٩٤ يا ١٩٩٥ بود كه يك خاتو قد يك مرتيكه چيم سوز انگلستاني كه چيماي شي پقط دانه شيلبي وري سوز و موياي شي زرد و اونگه شي سرخ پقط شوروي وري ده مري آباد كوچه ده كوچه چووك چووك كده مي گشتند “
اور اگرکسی تحریرمیں ترکی اور مغلی الفاظ زیادہ ہو تو کیا ہوگا؟ زرا اس پیرا گراف کو پڑھ کر بتائیے۔
“دیدوم کہ بچے آتے خدابخش یک پنڈکی رہ تائی قچیغ کدہ و دیگے شی بل تولغے خو ایشتہ لیگ لیگ شدہ و مسخندی کدہ نو شیو میہ ۔ پرسیدوم کجا موری؟ گفت بچے ابغے مہ صبا توئی درہ ، آبیم/ایکیم/آئیم گفتہ کہ امی سوغاتی رہ بلدے بیکے خو و تولائی شی بوبر”
اب آپ ہی بتائیں کہ کیا کوئی ایرانی یا تاجک ان تحریروں کو پڑھ کر یا سن کران کا مفہوم سمجھ سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ ہزارہ گی اور فارسی دو مختلف زبانیں ہیں۔
Elite کلاس کا فلسفہ۔
Linguists کے مطابق Elite کلاس ہمیشہ اپنی بولی کو معیاری زبان قراردیتی ہے جبکہ جن لوگوں کو وہ سماجی لحاظ سے کم تر تصور کرتی ہے ان کی بولی کو لہجہ قرار دیتی ہے ۔یہی وہ نکتہ ہے جس کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں۔ اس سوچ کے پیچھے سیاسی اور نفسیاتی عوامل کار فرما ہوتے ہیں جہاں اگر ایک طرف اشرافیہ یا احساس برتری کے شکار لوگ اپنی ثقافت، طریق بودوباش اور زبان یا لہجے کو برتر گردانتے ہیں وہاں دوسری طرف نفرت اور تحقیر کے سائے میں زندگی گزارنے والے احساس کمتری کے شکار لوگ بھی اس فارمولے کو درست تسلیم کرکے ایلیٹ کلاس کے لہجے،ان کی طرز زندگی،ثقافت حتیٰ کہ ان کے طرز تکلم کی نقل کرنا شروع کردیتے ہیں تاکہ شاید اس طرح وہ ان ” شرفاء “کی قربت حاصل کرسکیں۔
ایران اور افغانستان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ممالک کچھ دہائی قبل تک درباری ثقافت کے زیر اثر رہے ہیں جہاں فارسی یا دری کو درباری اورسرکاری زبان کی حیثیت حاصل رہی۔افغانستان میں گرچہ پشتو زبان پر بھی کافی کام ہوا ہےجس کی بدولت پشتو رسم الخط وجود میں آیا اور حکمرانوں کی سرپرستی کے باعث پشتو کو فارسی کے برابر درجہ بھی ملا لیکن ہزارہ گی سمیت وہاں کی دیگر زبانوں کے ساتھ ہمیشہ سوتیلا سلوک روا رکھا گیا اور ان کی ترویج کی خاطر جان بوجھ کر اقدامات نہیں اُٹھائے گئے بلکہ ان لوگوں کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ ان کی زبان دراصل ایک پس ماندہ دیہاتی لہجے کے سوا کچھ نہیں۔لہٰذا وہ اپنی زبانوں سے بیگانہ ہوتے گئےاور انہوں نے دوسری زبانوں کا اثر قبول کرنا شروع کردیا۔۔
ایران میں اس حوالے سےصورت حال کچھ زیادہ ہی خراب ہے۔وہاں ترکوں اور بلوچوں کے علاوہ بڑی تعداد میں ہزارہ بستے ہیں لیکن ان کی زبان اور ثقافت کو کبھی پنپنے نہیں دیا گیا ۔ایران میں لاکھوں ایسے ہزارہ خاندان بستے ہیں جن کو وہاں کی شہریت حاصل ہے لیکن ان کی اس حد تک تحقیر کی گئی ہے کہ وہ اپنی تمام قومی صفات سے محروم ہو کر رہ گئے ہیں ۔حد تو یہ کہ انہیں ہزارہ کے بجائے خاوری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس تعصب کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ وہ ایرانی ثقافت اور زبان کو مکمل طور پر اپنا نے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اگروہ ابھی تک اپنی کسی شناخت کے ساتھ مجبوراَ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تو وہ ہے ان کی شکل ۔ مجھے یقین ہے جس دن کوئی جادو کی چھڑی ان کے ہاتھ لگی وہ پہلی فرصت میں اپنی اس پہچان سے بھی جان چھڑا لیں گے تاکہ حقارت کی زندگی سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔یعنی نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔جہاں تک ایران میں بسنے والے ہزارہ مہاجرین کی بات ہے تو اس بارے میں صرف اتنا ہی عرض کرنا کافی ہوگا کہ وہ وہاں جس بدترین نسلی و لسانی تعصب کا شکار ہیں آج کی مہذب دنیا میں اسکی مثال ملنا ناممکنات میں سے ایک ہے ۔ان کی نئی نسل اگر کسی طرح سکول یا یونیورسٹی تک رسائی حاصل کر بھی لے تو ان کو تیکنیکی شعبوں میں داخلےکی اجازت نہیں ہوتی ۔البتہ انہیں فارسی ادبیات میں بڑی آسانی سے داخلہ مل جاتا ہے جہاں فارسی کو اس کی تمام تر شیرینی اور غناوت کے ساتھ گھول کر ان کےحلق میں انڈیل دیا جاتا ہے۔
زبان سے متعلق ایک غلط فہمی جو بہت عام ہے وہ یہ ہے کہ بعض زبانوں کو میٹھی جبکہ بعض کوکڑوی یا کرخت کہا جاتا ہے۔اس تصور کو عام کرنےکے پیچھے بھی دراصل ایلیٹ کلاس کی ہی سوچ کارفرما ہے ۔جو اپنی زبان یا لہجے کو برتر اور مقدس ثابت کرنے کی خاطر اس تیکنیک کا سہارا لیتی ہے۔ میری نظر میں دنیا کی کوئی زبان میٹھی یا کڑوی نہیں ہوتی بلکہ مٹھاس یا کڑواہت تو لوگوں کی گفتار اور رویےمیں ہوتی ہے۔
ازبسکہ نازنینی و نازت کشیدنی است دشنام کہ از زبانِ تو آید شنیدنی است
یعنی
اتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
اسی طرح بعض لوگ کسی خاص زبان کو ترقی یافتہ اور کسی دوسری کو پس ماندہ قرار ریتے ہیں یہ جانے بناء کہ کوئی زبان ترقی یافتہ یا پسماندہ نہیں ہوا کرتی ۔ہاں ان زبانوں کے بولنے والےترقی یافتہ یا پسماندہ ضرور ہو سکتے ہیں ۔آج اگر انگریزی دنیا کی سب سے ” ترقی یافتہ” زبان کہلاتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بولنے والوں نے اپنی منصوبہ بندی ،کوششوں اور عرق ریزی سےاسے ٹیکنالوجی کی زبان اور بین البر اعظمی ابلاغیات کا زریعہ (Medium) بنا کراسے ہرشخص کی ضرورت بلکہ مجبوری بنادیا ہے۔ دنیا کے کسی گوشے میں اگر لوگ ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھ سکیں تو وہ مجبور ہوکرانگریزی کا ہی سہارا لیتے ہیں ۔ دوسری طرف اگر ہم ہزارہ گی لکھ یا پڑھ نہیں سکتے تو اس کے پیچھے ہماری اپنی کوتاہی اور نالائقی کار فرما ہے کیوں کہ ہم نے اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں بلکہ ہم دوسروں کے ڈھول کی تھاپ پر ناچتے رہے۔ظاہر ہے کہ جن لوگوں کی سوچ پسماندہ ہوتی ہے وہ اپنی زبان کو بھی پسماندہ تصور کرتے ہیں ، انکی ترویج و اشاعت سے لاپرواہی برتتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی ” ترقی یافتہ ” زبان میں گفتگوکیا کریں ۔ یہی وجہ ہےکہ دنیا کی بہت ساری زبانیں آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جارہی ہے۔ بہت سارے دوست ہزارہ گی کو ایک Standard Language ماننے سے انکار کرتے ہوئے دلیل دیتے ہیں کہ اسے لکھا نہیں جاسکتا اور اگریہ لکھی بھی جائے تواسے پڑھنے میں دقت ہوتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی اسے کسی فارمولے کے تحت لکھنے کی کوشش کی ہے؟ ہم نے تو کبھی اپنی زبان کے حروف تہجی پر بھی توجہ دینے کی کوشش نہیں کی ۔ نہ ہی کبھی ہم نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ ہزارہ گی زبان میں شامل ترکی یا منگولین الفاظ کی موجودگی کیا معنی رکھتی ہے؟ ہزارہ گی زبان میں آجئی (Aajai)،باکل (Baakul) ،آچل (Aachul) ،آتئی (Aatai) ، آبئی (Aabai)، ایکہ(Aika)، آیہ (Aaya)، دادئی (Daadai)، آغئی (Aaghai)، باجی (Baaji)، آپی (Aapi) ،ابغہ (Abgha) ، بیکئی (Bekai) ، نخچی (Nakhchi/Naghachi) اور قدغو (Qudghu) جیسے الفاظ کہاں سے آئے ؟ تولغہ(Tolgha) ،قاش(Qaash)، کِرپگ (Kirpag) ، اوقرہ (Oqra) ،کومہ (Koma) ،کٹوگ (Katoog)، گیدگہ (Gedga)،قبرغہ (Qabargha)، کَورہ (Kawra)، توقئی (Toqai)، الغہ (Algha) اور بوربی (Borbi) کس خلائی مخلوق کی زبان کے الفاظ ہیں؟ ہم یہ اقرار کرتے ہوئے شرماتے ہیں کہ ہزارہ گی زبان میں ٹ اور ڈ کا بکثرت استعمال ہوتا ہے جو فارسی میں ناپید ہے۔چنانچہ ہم کٹہ کو کتہ اورڈھول کو دہل کہہ کر انہیں زبردستی مشرف بہ فارسی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہمارا خیال ہے کہ اگر ہم اپنی ماں کو آبئی کے بجائے مادر یا ” ماما” کہہ کر بلائیں گے تو ہمیں اس کا زیادہ ثواب ملے گا ، اگرکورہ کو شکم کہیں گے تو بھوک نہیں لگے گی اور اگر قاش کو ابرو کہیں گے تو بے آبرو ہونے سے بچ جائیں گے۔