ہزارہ گی زبان
ہزارہ گی زبان
مشہد ایران 2002۔ ہزارہ گی زبان کے موضوع پر میری پہلی باقاعدہ تکرار ایک ایسی ادبی شخصیت سے ہوئی جو ان دنوں مشہد میں مقیم تھے اور “سراج”اور “دُرِ دری” کے لئے باقاعدہ لکھا کرتے تھے ۔ موصوف ہزارہ گی ضرب الامثال اور محاوروں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب کے بھی مرتب تھے ۔ تب میں کچھ پاکستانی اور افغانی موسیقاروں کے ایک وفد کے ساتھ داود سرخوش کے میوزیکل کنسرٹس میں شرکت کی غرض سے مشہد میں مقیم تھا۔قیس کے ساتھ میری لکھی کتاب “بساط شطرنج” کی اشاعت کو کئی مہینے گزر چکے تھے جسے ادبی اور سیاسی حلقوں میں تھوڑی بہت پزیرائی بھی مل رہی تھی ۔
موصوف سے ایک دن دوبدو گفتگو کا شرف حاصل ہوا تومجھے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ جناب پہلے ہی سے بھرے بیٹھے تھے لہٰذا بحث کے آغاز میں ہی پھٹ پڑے ۔ “ہزارہ ہائی کوئٹہ” کے بارے میں اپنے” نیک خیالات” کا اظہار کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ “پتہ نہیں تم لوگ کب سدھرو گے ؟ ایک تو تم لوگوں میں بات کرنے کی تمیز نہیں ، ادب تو تم لوگوں کو چھو کر بھی نہیں گزری ، ہمیشہ جذباتی پن سے کام لیتےاور تو تڑاخ سے بات کرتے ہو۔ ہر بات میں سیاست اور قومیت گھسیٹ لیتے ہو جس سے اپنے ساتھ ہمارے لئےبھی پریشانیاں کھڑی کرلیتے ہو” ۔ یہ کہہ کر انہوں نے بساط شطرنج کی ایک کاپی میرے سامنے رکھی اور کتاب کی بیرونی جلد پر تحریر ” ہزارہ گی زبان” پر انگلی رکھ کر پوچھنے لگے “اس کا کیا مطلب ہے” ؟ کیا اب تم اپنے “کوئٹہ گی” لہجے کو جس میں اردو اورانگریزی الفاط کی بھرمار ہے زبان کہلوا کر فارسی جیسی میٹھی ، غنی اور بین الاقوامی زبان کی جگہ دینا چاھتے ہو؟
میں کچھ ثانیوں کے لئے ہکا بکا رہ گیا ۔ مجھے اس بات کی توقع نہیں تھی کہ موصوف ایسی “علمی” باتیں کریں گے ۔مجھے ایسا لگا جیسے بات زبان نہیں بلکہ سیاست اور عقیدے یعنی اسلام اورتشیع کے موضوع پر ہورہی ہو ۔۔ موضوع بھول کے میں ان کا چہرہ تکنے لگا ۔۔ تب میں ان سے ایک غیر متوقع سوال پوچھ بیٹھا ۔ “آپ نے کس شعبے میں تعلیم حاصل کی ہے” ؟ کہنے لگے فارسی ادبیات میں ۔ اپنی ساری بے وقوفیوں کے با وجود میں یکدم یہ بات سمجھ گیا کہ موصوف کچھ سیاسی ، عقیدتی اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہیں ۔ میرا اگلا سوال تھا کہ کیا آپ کسی ایسے ہزارہ کے بارے میں جانتے ہیں جس نے ایران میں کسی تیکنیکی شعبے میں تعلیم حاصل کی ہو؟ جواب ناں میں تھا ۔ میرے لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ نفرت ، تحقیر اورتعصب کے ماحول میں پلے بڑھنے والوں جنہیں افغانی خر ، الاغ یا بربری کے نام سے یاد کیا جاتا ہو کی سوچ کہاں تک پہنچ سکتی ہے ؟ ۔ جو اپنے احساس کمتری پر قابو پانے اور اپنے آپ کو ایک متمدن معاشرے سے جوڑنے کی خاطران کی ثقافت ، لباس اور زبان کو اپنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔
میں نے گفتگو میں شائستگی سے متعلق اپنی سوچ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خوش آمد اور شائستگی میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ پاکستان کیونکہ ایک جمہوری ملک ہے اور بادشاہت اور درباری ماحول سے آشنا نہیں اس لئے لوگ اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں وقت ضائع نہیں کرتے ۔ جبکہ ایران میں چونکہ 30 سال پہلے تک شاہی نظام رائج تھا جس میں اصل بات کہنے سے قبل کورنش بجالانا اور جان کی امان پانا لازمی امرتھا اس لئے یہی طرز عمل ایرانی کلچر میں رچ بس گیا ہے لہٰذا آج بھی آپ لوگ اصل بات کہنے سے پہلے ” غربونت بشم ، بجون شما ، دست شما درد نکند ۔۔۔۔ جیسے فالتو باتوں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہو اور جب اصل بات کہنے کی باری آتی ہے تو تب بس جا چکی ہوتی ہے ۔۔ میں نے فارسی ادب میں اچھے نمبروں سے کامیاب ہونے والے اس لکھاری سے یہ بھی پوچھا کہ کیا ایران میں کوئی ایسا ہزارہ بھی ہے جو سیاسی میدان میں شہرت رکھتا ہو ۔ جواب حسب توقع نا میں تھا ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں پاکستان بالخصوص کوئٹہ میں ایسے کسی افغانستانی ہزارہ کے بارے میں نہیں جانتا جو ایک اچھا شاعر یا شارٹ سٹوری رائٹر ہو لیکن میں درجنوں ایسے افراد کو جانتا ہوں جو سیاسی اور نظریاتی موضوعات پر انتہائی اچھا لکھتے ہیں ، جوبہت اچھے سیاستدان ہیں اور جنکا سخن رانی میں ثانی ملنا مشکل ہے ۔ اس فرق کی وجہہ پاکستان اور ایران کا سیاسی ماحول ہے ۔ اگر پہلے والے نظام میں بولنے کی آزادی ہے تو دوسرے میں فقط سننے اور عمل کرنے کی پابندی۔
میں نے موصوف سے ایک اور سوال پوچھا ” کیا آپ نے کبھی امریکی صدر کی کوئی ایسی تقریر سنی ہے جس میں اس نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہو کہ آپکے آنے کا بڑا شکریہ ۔ آپ نے اپنے قیمتی وقت سے جو وقت میرے لئے نکالا ہے اس کے لئے میں آپکا احسان زندگی بھر نہیں بھول پاوںگا ۔ یہ میرے لئے فخر کی بات ہے کہ آپ نے مجھ جیسے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ؟ جواب ایک مرتبہ پھر نا میں تھا ۔ میں نے انہیں اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے مزید کہا ” ہمارے ہاں بھی بات کو لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کرنے کی عادت ہے جسے آپ بدتمیزی تصور کرتے ہیں ۔ ہم اپنے نظریات کا اظہار کرتے وقت مصلحتوں کا کم ہی شکار بنتے ہیں جبکہ آپ ایرانی درباری کلچر کے زیر اثر اپنی بات کہنے میں تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں ۔ اس گفتگو کے بعد ظاہر ہے کہ محفل کسی نتیجے کے بغیر برخاست ہوجانی تھی لیکن فائدہ یہ ہوا کہ میں ایک نئی نفسیاتی گرہ کھولنے میں کامیاب ہو چکا تھا ۔ میں تب بھی اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ عقیدہ اور نظریہ ہماری سوچ کے علاوہ کچھ نہیں ۔ ہمارا ماحول اورہماری پرورش ہی بنیادی طور پر ہماری عادات اور نفسیات بنانے اور انہیں سنوارنے کا باعث بنتی ہے ۔ لہٰذا جو لوگ افغانی خر ، الاغ اور بربری کے توہین آمیز الفاظ سن سن کے جوان ہوئے ہوں ان کی پہلی خواہش یقیناَ یہی ہوگی کہ وہ اپنا آپ کسی “برتر” اور “قابل احترام” تمدن سے جوڑنے کی کوشش کریں ۔ احساس کمتری کے شکار لوگ اس کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں۔
ایران میں مسافرت کے دوران مجھے کم از کم سات ایسے افغانی گروہوں سے بھی “تبادلہ خیال” کا موقع ملا جو اپنے اخبار یا رسالے کا پیٹ بھرنے کی خاطر میرا انٹرویو لینا چاہتے تھے ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ انٹر ویوز کے دوران جتنی دشواری مجھے ان کے سوالات سمجھنے میں محسوس ہورہی تھی اتنی ہی مشکل انہیں میرے جوابات سمجھنے میں بھی پیش آرہی تھی ۔ ایک خاتون تو میری گفتگو کے دوران احمقوں کی طرح میرا منہ ہی تکتی رہی اور انٹرویو کے آخر میں یہ بات کہے بناء نہ رہ سکی کہ میں آپکے جوابات سمجھ ہی نہیں سکی۔ وہ کوئی ایرانی خاتون نہیں تھی بلکہ ہزارہ جات کے ایک پسماندہ دیہات سے ہجرت کرنے والی ایک ایسی لڑکی تھی جس نے دانشگاہ تہران سے فارسی ادبیات میں ڈگری حاصل کی تھی ۔
وہ میرے لئے ایک مشکل مرحلہ تھا جب مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ ایکدوسرے کو اپنی بات سمجانے کے لئے ہمیں کسی مترجم کی ضرورت ہے ۔ حالانکہ اگرایک ایرانی کو اپنی بات سمجھانے کے لئے مجھے مجبوراَ ٹوٹی پھوٹی انگریزی کا سہارا لینا پڑتا تو بات سمجھ میں آنے والی تھی لیکن اگر ایک ہزارہ خاتون میری کہی باتیں نہیں سمجھ پارہی تھی تواس کا ایک ہی مقصد ہو سکتا تھا کہ یا تو میری زبان میں لکنت تھی یا پھر سننے والے کی سماعت میں کوئی خرابی ۔ حالانکہ ایسا بھی نہیں تھا کہ میں ان سے بدنام زمانہ “کوئٹہ گی لہجے” میں بات کر رہا تھا ۔ بلکہ میرا “لہجہ” وہی تھا جس لہجے میں میری ماں مجھے بچپن میں قصے سنایا کرتی تھی ۔ جس زبان میں لوری سنا کے وہ مجھے سلایا کرتی تھی اور جس زبان میں وہ مجھے میری حماقتوں پر ڈانٹا کرتی تھی۔ میں خاتون سے اسی زبان میں گفتگو کررہا تھا جس زبان میں صفدر توکلی ، شاہ عوض ، سرور سرخوش، آبے مرزا ،امان جاغوری اورمیر چمن سلطانی سمیت درجنوں ہزارہ گلوکار دمبورے پر گانے گایا کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ میری زبان وہی تھی جس میں “A boy who plays on Budhas of Bamiyan” نامی ڈاکیو مینٹری بنی تھی اورجو کوئٹہ گی نہیں بلکہ مغربی ڈائریکٹروں کی محنت کا نتیجہ تھی ۔ میری زبان سے وہی الفاط نکل رہے تھے جن الفاظ سے ” بز چینی” نام کی اینیمٹڈ فلم بنی تھی اور جس پر بعد میں “میٹھی” دری زبان کی اس لئے ڈببنگ کی گئی تھی کیوں کہ فارسی بان اسے سمجھنے سے قاصر تھے۔ یہ بین الاقوامی سطح کی وہی پہلی ہزارہ گی اینیمٹڈ فلم تھی جس پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی افغانی ماہرِ نے کہا تھا کہ ” یہ بہت اعلیٰ پائے کی مووی ہے لیکن افسوس یہ ہزارہ گی لہجے میں بنی ہے ” حالانکہ وہ اعلیٰ پائے کی تو تھی ہی لیکن اس کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ وہ شیرین ہزارہ گی زبان میں بنی تھی۔
مجھے یقین ہے کہ مذکورہ خاتون بھی اسی لئے میری زبان سمجھنے سےقاصر تھی کیونکہ ہم دو مختلف زبانوں میں بات کر رہے تھے ۔ اگر فرق صرف ہمارے لہجے میں ہوتا تب ہم ایک دوسرے کا مطلب بہ آسانی سمجھ لیتے جیسے ایک تہرانی کو کسی مشہدی اور ایک کابلی کو کسی ہراتی، قندھاری یا بدخشانی کی بات سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی حتیٰ کہ ایرانی اور دری لہجوں میں بات کرنے والے بھی ایک دوسرے کی بات آسانی سے سمجھ لیتے ہیں ۔ یہی مثال کسی بھی زبان میں رائج مختلف لہجوں کے بارے میں دی جاسکتی ہے ۔ انگریزی ہی کی مثال لیجئے ۔ امریکہ ،یو کے، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت دنیا بھر میں انگریزی کے درجنوں لہجے وجود رکھتے ہیں ۔ حتیٰ کہ یو کے میں جو اس زبان کی جنم بھومی ہے لوگ مختلف لہجوں میں بات کرتے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کی بات آسانی سے سمجھ لیتے ہیں ۔ اس کے برعکس انگریزی ،جرمن اور فرنچ زبانوں میں مشترک الفاظ کی بھر مار ہونے کے باوجود وہ ایک نہیں بلکہ مختلف زبانیں کہلاتی ہیں۔
تہران کے سفر کے دوران اتفاق سے ہمیں جس گھر میں مہمان بنا کر رکھا گیا وہ ایک ایسے مہربان کا تھا جو ایک بڑی پبلشنگ کمپنی کے مالک تھے اور درجنوں علمی،ادبی اور تاریخی فارسی کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کرچکے تھے ۔دلچسپ بات یہ تھی کہ جناب اپنے بچے کے ساتھ انتہائی ثقیل فارسی اور کھرے تہرانی لہجے مہں بات کرتے تھے جبکہ اپنی والدہ کے ساتھ گفتگو کرتے سمے وہ ایکدم “ہزارہ گی کی سطح” پر اتر آتے ۔ مجھے جلد ہی اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ دادی اور پوتے کو آپس میں گفتگو کرتے ہوئے عموما کسی مترجم کی ضرورت پڑتی تھی جس کے فرائض کبھی ” ماما” تو کبھی “بابا” انجام دیا کرتے.
زبان
الفاظ ، علامات اور اشاروں کا ایسا مجموعہ یا مرکب جس کی مدد سے ایک شخص کسی دوسرے سے گفتگو کرتا یا اپنے خیالات کی ترسیل کرتا ہے ۔ زبان کی بہت ساری تعریفیں ہو سکتی ہیں لیکن اس سے زیادہ آسان تعریف میرے خیال میں شاید ہی ممکن ہو ۔ دنیا میں 6000 سے زاید زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ رسم الخط کی تعداد محض کچھ درجن سے زیادہ نہیں ۔ کہتے ہیں کہ انسان کا بچہ 3 سال کی عمر تک اپنی مادری زبان بولنا سیکھ لیتا ہے ۔ تب وہ نہ ہی اسے لکھنے کی صلاحیت رکھتا ہےنہ ہی اس کے الف با کے بارے میں کوئی معلومات رکھتا ہے ۔ لیکن وہ گونگا ہر گز نہیں کہلاتا ۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ سکول میں داخل ہونے پر اسے اردو ، فارسی ، انگریزی ،ہسپانوی ، جرمن ، فرانسیسی یا کسی دوسری زبان میں تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے ۔مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انسان نے پہلے پہل اشاروں کی مدد سے اپنے خیالات کا محدود اظہار کر نا شروع کیا تھا پھر لاکھوں سالوں کے ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد وہ اس قابل ہوا کہ الفاظ کی مدد سے گفتگو کرسکے ۔ متعدد فلسفی اس بات کے قائل ہیں کہ انسانی نطق یا قوت گویائی ارتقائی عمل کا حصہ ہے لیکن امریکی ماہر لسانیات اور فلسفی نوم چومسکی کے مطابق کسی زمانے میں خلاء سے برسنے والی کچھ Cosmic Rays کی وجہ سےانسانی دماغ کے خلیوں میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کی بدولت انسان بولنے کے قابل ہوا ۔ پہلے پہل یعنی تقریبا چار ہزار سال قبل مسیح انسان نے علامات کے زریعے لکھنے کی ابتداء کی جو آج بھی دنیا کے بعض قدیمی مساکن بالخصوص غاروں کی دیواروں پر دیکھی جاسکتی ہیں ۔ ابتدائی تحریریں عموما سیدھی یا آڑی ترچھی لکیروں پر مشتمل ہوتی تھی جو مختلف آوازوں کوبیان کرتیں ۔ ان تحریروں کو Cuneiform کہا جاتا تھا جن میں کیل کو بطور علامت استعمال کیا جاتا
پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تصاویر اورخاکوں کو بھی تحاریر میں استعمال کیا جانے لگا ۔ تہذیب و تمدن کے ارتقاء اور علم و ہنر سے آشنائی کے ساتھ ساتھ تحریروں کی اشکال بدلنے لگیں اور ہر تہذیب نے اپنی سہولت کے مطابق ان میں تبدیلی یا اضافہ کیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ کئی تحریریں فنا ہوگئیں جبکہ ترقی یافتہ معاشروں نے اپنی زبان اور طرز تحریر کو عام کرنے کی راہیں تلاش کرنی شروع کیں . زبان کی ایک خاصیت پر سارےماہرین متفق ہیں کہ ثقافت کی طرح یہ بھی اثر پزیر ہوتی ہیں یعنی یہ دوسری زبانوں کا اثر قبول کرتی ہیں اور ان کی ظرفیت کی بدولت ان میں ہمیشہ اضافے کی گنجائش موجود رہتی ہے ۔ اس لئے دنیا کی کسی زبان کو خالص قرار نہیں دیا جاسکتا ما سوائے ان انسانوں کی زبان کو جو ایسے جنگلوں یا غاروں میں زندگی بسر کرتے ہیں جن کا رابطہ بیرونی دنیا سے مکمل طور پر کٹا ہوا ہے ۔ مخلوط معاشروں میں رہنے والے ایک دوسرے کی زبان کا اثر جلدی اور زیادہ آسانی سے قبول کرتے ہیں ۔ ماہرین عمرانیات کے مطابق تقریبا چالیس کلو میٹر کے بعد لوگوں کے لہجے میں تبدیلی نوٹ کی جاسکتی ہے ۔ بعض ماہرین لسانیات کے نزدیک لہجے سے مراد ایک ہی زبان کی مختلف اقسام جن میں الفاظ کی ادائیگی اور تلفظ میں فرق ہو جبکہ گرامر اور ذخیرہ الفاظ ایک جیسے ہو تے ہیں ۔ یاد رہے کہ علم لساینات میں بھی دیگر سائنسی علوم کی طرح اصطلاحات کی واحد تشریح ممکن نہیں لہٰذا بعض ماہرین لسانیات کے نزدیک یہ فرد پر منحصر ہے کہ وہ کسی معیاری زبان (Standard Language) ، لہجے (Dialect) ا ور تلفظ (Pronunciation) میں کس طرح فرق کرتے ہیں ؟
وکی پیڈیا کے مطابق زبان اور لہجے کی جس کسوٹی پر اکثر (Linguists) متفق نظر آتے ہیں اس کی رو سے “لہجہ کسی زبان کی ایسی مختلف اقسام کو کہتے ہیں جنہیں بولنے اور سننے والے بہ آسانی بول اورسمجھ سکیں بصورت دیگر وہ مختلف زبانیں کہلائیں گی” اس بات کو سمجھنے کے لئے اردو زبان کی مثال لیتے ہیں ۔ اردو(Ordu)بنیادی طور پر ترکی زبان کا لفظ ہے جسکا مطلب لشکریا ہجوم ہے۔ منگولی زبان میں اسے اوردا (Orda) کہتے ہیں جبکہ انگلش،فرنچ اور ہسپانوی سمیت کئی زبانوں میںاسے (Horde) کہا جاتا ہے ۔ اردو کی تشکیل سولہویں صدی میں ہوئی جب ہندوستان کے مغل حکمرانوں نے اپنی افواج میں نظم وضبط قائم رکھنے اور مواصلات اور ابلاغیات (communications) کو بہتر بنانے کی خاطرہندی،عربی،فارسی اور ترکی زبانوں کو ملا کر اس کی تشکیل کی۔ بعد میں مغل حکمرانوں کی ہی سرپرستی کے باعث یہ ہندوستان بھر کی سرکاری زبان قرار پائی اور اسے سکولوں کے نصاب میں شامل کیا گیا اور دفاتر میں نافذ کردیا گیا ۔ ۔ اردو زبان کی گرائمر ہندی جبکہ زخیرہ الفاظ (vocabulary) فارسی ، ترکی اور عربی سے ماخوزہے جو اسے ایک علیحدہ زبان کا درجہ دیتی ہے۔ ہندی اور اردو بولنے والے گرچہ بڑی حد تک ایک دوسرے کی زبان سمجھ لیتے ہیں لیکن vocabulary کے فرق کی وجہ سے دونوں طرف کے لوگ انہیں علیحدہ زبان ہی قرار دیتے ہیں ۔ اردو زبان کے حروف تہجی عربی اور فارسی سے اخذ کئے گئے ہیں جبکہ زبان کے تحریری تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ان میں بعض حروف مثلا ٹ ، ڑ ڈ اور نون غنہ (ں) کا اضافہ کیا گیا ۔
بعض ذرائع کے مطابق اردو vocabulary میں فارسی الفاظ کا تناسب 70 فیصد ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو میں شامل بہت سارے فارسی الفاظ ایران میں متروک ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ عربی الفاظ نے لے لی ہے ۔ بطور مثال پاکستان کے قومی ترانے میں صرف ایک لفظ (کا) ہی ایسا ہے جسے ہندی کہا جاسکتا ہے باقی سارے کا سارا ترانہ ایسے فارسی الفاظ پر مشتمل ہے جن کی اکثریت ایران میں مستعمل نہیں ۔ دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ ایرانی فارسی میں بڑی کثرت سے عربی الفاظ کا استعمال ہوتا ہے ۔ میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ ایران میں بولی اور لکھی جانے والی فارسی میں آپ کو تیس سے چالیس فیصد تک عربی کے الفاظ نظر آئیں گے ۔یقین نہیں آتا تو ان دوستوں کی تحریروں پر ایک بار پھر نظر ڈالیں جو آج کل اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تاکہ فارسی کو ایک انتہائی غنی زبان اور ہزارہ گی کو اس کا بغل بچہ ثابت کریں ۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ لفظ فارسی بھی دراصل عربوں کی ودیعت کردہ ہے جن کے حروف تہجی میں “پ” شامل نہیں اس لئے انہوں نے پارسی کو فارسی میں تبدیل کردیا ۔ سپاھان کے ” اصفہان” میں تبدیل ہونے کی بھی یہی وجہ ہے۔
پاکستان میں آجکل ایک لفظ بڑی کثرت سے استعمال ہوتا ہے یعنی خود کش حملہ ۔ یہ فارسی کا لفظ ہے لیکن ایران اور افغانستان میں اسے حملہ انتحاری کہا جاتا ہے جو عربی کا لفظ ہے ۔ ہمارے ہاں ایک زمانے میں دوتیز رفتار ٹرینیں چلا کرتی تھیں جنہیں” تیز گام” اور” تیزرو” کہا جاتا تھا ۔ ایران میں تیز رفتار ٹرینوں کو قطارہائی”سریع السیر” کے مبارک عربی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ۔
ایرانی اور ہزارہ ایک دوسرے کی زبان کس حد تک سمجھتے ہیں اس کا اندازہ اس چھوٹے واقعے سے لگایا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک ہزارہ ایران کے سفر پر تھا ۔بس ایک پٹرول پمپ پر رکی تو وہ نیچے اتر آیا ۔اسےپیاس لگ رہی تھی ۔ دیکھا تو ایک جگہ قطار میں بہت ساری بوتلیں رکھی ہوئی تھیں ۔ ایک بوتل کھول کر منہ سے لگانے والا ہی تھا کہ کسی نے چیخ کر آواز دی”آغا نفتہ” انہوں نے بھی بلند آواز میں جواب دیا”نہ موفتہ” اور بوتل منہ سے لگالیا ۔دو گھونٹ حلق سے اترے تو انہیں اندازہ ہوا کہ بوتل میں پانی نہیں بلکہ تیل بھرا ہوا تھا۔اسے بڑا غصہ آیا کہ کسی نے اسے بتایا کیوں نہیں؟
اس سے قبل میں نے اردو اور ہندی زبانوں کا ایک مختصر تقابلی جائزہ پیش کیا تھا اور بتایا تھا کہ اس کے باوجود کہ دونوں اطراف کے لوگ ایک دوسرے کی بات کو بڑی حد تک سمجھ لیتے ہیں لیکن ذخیرہ الفاظ میں تفاوت کی وجہ سے وہ انہیں علیحدہ زبانیں قرار دینے پر مصر ہیں ۔اب آئیے فارسی کے مختلف لہجوں کی بات کرتے ہیں ۔تاجکستان کے لوگ فارسی نہ صرف روسی اندازمیں بولتے ہیں بلکہ ان کی بہت ساری اصطلاحات بھی ایرانی یا افغانی فارسی سے مختلف ہیں ۔مثلا ہمارے ایک دوست کے بقول وہ نائی کی دوکان کو ” سرتراش خانہ” کہتے ہیں جبکہ کابل میں اس کے لئے سلمانی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اسی طرح احتجاجی مظاہروں کو تاجکستان میں ” بے ترتیبی” کہا جاتا ہے۔ جبکہ افغانستان اور ایران میں اس کے لئے تظاہرات کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔تاجکستان میں فارسی بولتے وقت الف کی آواز کو عموما “واو” میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہرات افغانستان کے لوگ الف کی آواز کو “ی” میں تبدیل کرلیتے ہیں ۔اصطلاحات اور الفاظ کی ادائیگی میں فرق کے باوجود تہران، کابل، ہرات اور تاجکستان کے لوگ ایک دوسرے کی بات سمجھ لیتے ہیں لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ وہ فارسی زبان کے مختلف لہجوں میں بات کرتے ہیں لیکن کیا ہزارہ گی زبان کوسمجھ پانا بھی ان لوگوں کے لئے اتنا ہی آسان ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے کے لئے ایک دوست اسحاق رامشگر کی ہزارہ گی تحریر کا ایک چھوٹا نمونہ پیش خدمت ہے جسے انہوں نے کچھ روز قبل فیس بک پر پوسٹ کیا تھا۔
“ده ايي روزا بحث وبازماني ده گيرد و بري لهجه آزرگي و يا زيبون آزرگي جريان دره البته اين دفه غدر جدي تر از دفه قبل كده اي تورا بال شيو موشه. خو مو چيز كني كه آزرگي زيبو استه و يا ام لهجه، ده نظر ازمه ايي كارا و ايي توره كته كته ره بيلي ده صايب شي كه اونا خوب غود از موسو ايي مسله ره قودقل كده و ريشه اصلي شي ره پيدا كده، يا زيبو ايلان مونه، يا ام لهجه! صايباي اصلي شي منظورم محققين و زبان شناسان استه! ده پي ديموني ازي توره يگ نقل ريزه گگ بلدي شيم كنوم، ما سالاي گاه كه ده كويته بودوم، فكر نوم ١٩٩٤ يا ١٩٩٥ بود كه يك خاتو قد يك مرتيكه چيم سوز انگلستاني كه چيماي شي پقط دانه شيلبي وري سوز و موياي شي زرد و اونگه شي سرخ پقط شوروي وري ده مري آباد كوچه ده كوچه چووك چووك كده مي گشتند “
اور اگرکسی تحریرمیں ترکی اور مغلی الفاظ زیادہ ہو تو کیا ہوگا؟ زرا اس پیرا گراف کو پڑھ کر بتائیے۔
“دیدوم کہ بچے آتے خدابخش یک پنڈکی رہ تائی قچیغ کدہ و دیگے شی بل تولغے خو ایشتہ لیگ لیگ شدہ و مسخندی کدہ نو شیو میہ ۔ پرسیدوم کجا موری؟ گفت بچے ابغے مہ صبا توئی درہ ، آبیم/ایکیم/آئیم گفتہ کہ امی سوغاتی رہ بلدے بیکے خو و تولائی شی بوبر”
اب آپ ہی بتائیں کہ کیا کوئی ایرانی یا تاجک ان تحریروں کو پڑھ کر یا سن کران کا مفہوم سمجھ سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ ہزارہ گی اور فارسی دو مختلف زبانیں ہیں۔
Elite کلاس کا فلسفہ۔
Linguists کے مطابق Elite کلاس ہمیشہ اپنی بولی کو معیاری زبان قراردیتی ہے جبکہ جن لوگوں کو وہ سماجی لحاظ سے کم تر تصور کرتی ہے ان کی بولی کو لہجہ قرار دیتی ہے ۔یہی وہ نکتہ ہے جس کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں۔ اس سوچ کے پیچھے سیاسی اور نفسیاتی عوامل کار فرما ہوتے ہیں جہاں اگر ایک طرف اشرافیہ یا احساس برتری کے شکار لوگ اپنی ثقافت، طریق بودوباش اور زبان یا لہجے کو برتر گردانتے ہیں وہاں دوسری طرف نفرت اور تحقیر کے سائے میں زندگی گزارنے والے احساس کمتری کے شکار لوگ بھی اس فارمولے کو درست تسلیم کرکے ایلیٹ کلاس کے لہجے،ان کی طرز زندگی،ثقافت حتیٰ کہ ان کے طرز تکلم کی نقل کرنا شروع کردیتے ہیں تاکہ شاید اس طرح وہ ان ” شرفاء “کی قربت حاصل کرسکیں۔
ایران اور افغانستان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ممالک کچھ دہائی قبل تک درباری ثقافت کے زیر اثر رہے ہیں جہاں فارسی یا دری کو درباری اورسرکاری زبان کی حیثیت حاصل رہی۔افغانستان میں گرچہ پشتو زبان پر بھی کافی کام ہوا ہےجس کی بدولت پشتو رسم الخط وجود میں آیا اور حکمرانوں کی سرپرستی کے باعث پشتو کو فارسی کے برابر درجہ بھی ملا لیکن ہزارہ گی سمیت وہاں کی دیگر زبانوں کے ساتھ ہمیشہ سوتیلا سلوک روا رکھا گیا اور ان کی ترویج کی خاطر جان بوجھ کر اقدامات نہیں اُٹھائے گئے بلکہ ان لوگوں کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ ان کی زبان دراصل ایک پس ماندہ دیہاتی لہجے کے سوا کچھ نہیں۔لہٰذا وہ اپنی زبانوں سے بیگانہ ہوتے گئےاور انہوں نے دوسری زبانوں کا اثر قبول کرنا شروع کردیا۔۔
ایران میں اس حوالے سےصورت حال کچھ زیادہ ہی خراب ہے۔وہاں ترکوں اور بلوچوں کے علاوہ بڑی تعداد میں ہزارہ بستے ہیں لیکن ان کی زبان اور ثقافت کو کبھی پنپنے نہیں دیا گیا ۔ایران میں لاکھوں ایسے ہزارہ خاندان بستے ہیں جن کو وہاں کی شہریت حاصل ہے لیکن ان کی اس حد تک تحقیر کی گئی ہے کہ وہ اپنی تمام قومی صفات سے محروم ہو کر رہ گئے ہیں ۔حد تو یہ کہ انہیں ہزارہ کے بجائے خاوری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس تعصب کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ وہ ایرانی ثقافت اور زبان کو مکمل طور پر اپنا نے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اگروہ ابھی تک اپنی کسی شناخت کے ساتھ مجبوراَ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تو وہ ہے ان کی شکل ۔ مجھے یقین ہے جس دن کوئی جادو کی چھڑی ان کے ہاتھ لگی وہ پہلی فرصت میں اپنی اس پہچان سے بھی جان چھڑا لیں گے تاکہ حقارت کی زندگی سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔یعنی نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔جہاں تک ایران میں بسنے والے ہزارہ مہاجرین کی بات ہے تو اس بارے میں صرف اتنا ہی عرض کرنا کافی ہوگا کہ وہ وہاں جس بدترین نسلی و لسانی تعصب کا شکار ہیں آج کی مہذب دنیا میں اسکی مثال ملنا ناممکنات میں سے ایک ہے ۔ان کی نئی نسل اگر کسی طرح سکول یا یونیورسٹی تک رسائی حاصل کر بھی لے تو ان کو تیکنیکی شعبوں میں داخلےکی اجازت نہیں ہوتی ۔البتہ انہیں فارسی ادبیات میں بڑی آسانی سے داخلہ مل جاتا ہے جہاں فارسی کو اس کی تمام تر شیرینی اور غناوت کے ساتھ گھول کر ان کےحلق میں انڈیل دیا جاتا ہے۔ زبان سے متعلق ایک غلط فہمی جو بہت عام ہے وہ یہ ہے کہ بعض زبانوں کو میٹھی جبکہ بعض کوکڑوی یا کرخت کہا جاتا ہے۔اس تصور کو عام کرنےکے پیچھے بھی دراصل ایلیٹ کلاس کی ہی سوچ کارفرما ہے ۔جو اپنی زبان یا لہجے کو برتر اور مقدس ثابت کرنے کی خاطر اس تیکنیک کا سہارا لیتی ہے۔ میری نظر میں دنیا کی کوئی زبان میٹھی یا کڑوی نہیں ہوتی بلکہ مٹھاس یا کڑواہت تو لوگوں کی گفتار اور رویےمیں ہوتی ہے۔
ازبسکہ نازنینی و نازت کشیدنی است دشنام کہ از زبانِ تو باشد شنیدنی است
یعنی
اتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
اسی طرح بعض لوگ کسی خاص زبان کو ترقی یافتہ اور کسی دوسری کو پس ماندہ قرار ریتے ہیں یہ جانے بناء کہ کوئی زبان ترقی یافتہ یا پسماندہ نہیں ہوا کرتی ۔ہاں ان زبانوں کے بولنے والےترقی یافتہ یا پسماندہ ضرور ہو سکتے ہیں ۔آج اگر انگریزی دنیا کی سب سے ” ترقی یافتہ” زبان کہلاتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بولنے والوں نے اپنی منصوبہ بندی ،کوششوں اور عرق ریزی سےاسے ٹیکنالوجی کی زبان اور بین البر اعظمی ابلاغیات کا زریعہ (Medium) بنا کراسے ہرشخص کی ضرورت بلکہ مجبوری بنادیا ہے۔ دنیا کے کسی گوشے میں اگر لوگ ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھ سکیں تو وہ مجبور ہوکرانگریزی کا ہی سہارا لیتے ہیں ۔ دوسری طرف اگر ہم ہزارہ گی لکھ یا پڑھ نہیں سکتے تو اس کے پیچھے ہماری اپنی کوتاہی اور نالائقی کار فرما ہے کیوں کہ ہم نے اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں بلکہ ہم دوسروں کے ڈھول کی تھاپ پر ناچتے رہے۔ظاہر ہے کہ جن لوگوں کی سوچ پسماندہ ہوتی ہے وہ اپنی زبان کو بھی پسماندہ تصور کرتے ہیں ، انکی ترویج و اشاعت سے لاپرواہی برتتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی ” ترقی یافتہ ” زبان میں گفتگوکیا کریں ۔ یہی وجہ ہےکہ دنیا کی بہت ساری زبانیں آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جارہی ہے۔
بہت سارے دوست ہزارہ گی کو ایک Standard Language ماننے سے انکار کرتے ہوئے دلیل دیتے ہیں کہ اسے لکھا نہیں جاسکتا اور اگریہ لکھی بھی جائے تواسے پڑھنے میں دقت ہوتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی اسے کسی فارمولے کے تحت لکھنے کی کوشش کی ہے؟ ہم نے تو کبھی اپنی زبان کے حروف تہجی پر بھی توجہ دینے کی کوشش نہیں کی ۔ نہ ہی کبھی ہم نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ ہزارہ گی زبان میں شامل ترکی یا منگولین الفاظ کی موجودگی کیا معنی رکھتی ہے؟ ہزارہ گی زبان میں آجئی (Aajai)،باکل (Baakul) ،آچل (Aachul) ،آتئی (Aatai) ، آبئی (Aabai)، ایکہ(Aika)، آیہ (Aaya)، دادئی (Daadai)، آغئی (Aaghai)، باجی (Baaji)، آپی (Aapi) ،ابغہ (Abgha) ، بیکئی (Bekai) ، نخچی (Nakhchi/Naghachi) اور قدغو (Qudghu) جیسے الفاظ کہاں سے آئے ؟ تولغہ(Tolgha) ،قاش(Qaash)، کِرپگ (Kirpag) ، اوقرہ (Oqra) ،کومہ (Koma) ،کٹوگ (Katoog)، گیدگہ (Gedga)،قبرغہ (Qabargha)، کَورہ (Kawra)، توقئی (Toqai)، الغہ (Algha) اور بوربی (Borbi) کس خلائی مخلوق کی زبان کے الفاظ ہیں؟
ہم یہ اقرار کرتے ہوئے شرماتے ہیں کہ ہزارہ گی زبان میں ٹ اور ڈ کا بکثرت استعمال ہوتا ہے جو فارسی میں ناپید ہے۔چنانچہ ہم کٹہ کو کتہ اورڈھول کو دہل کہہ کر انہیں زبردستی مشرف بہ فارسی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہمارا خیال ہے کہ اگر ہم اپنی ماں کو آبئی کے بجائے مادر یا ” ماما” کہہ کر بلائیں گے تو ہمیں اس کا زیادہ ثواب ملے گا ، اگرکورہ کو شکم کہیں گے تو بھوک نہیں لگے گی اور اگر قاش کو ابرو کہیں گے تو بے آبرو ہونے سے بچ جائیں گے۔
The more we work on it, the better it will be polished and tuned up. Any language in the world if people worked on it will be established and recognized and acknowledged.
Many thanks