ہزارہ قتل عام ۔۔۔ پہلی قسط
ہزارہ قتل عام (پہلی قسط)
(محرکات اور عوامل)
امریکہ نے سعودی عرب اور پاکستانی آئی ایس آئی کے ساتھ مل افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف کیوں اور کیسے “جہاد” کا آغاز کیا ؟ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔ میں بذات خود شروع سے ہی اس بات کا قائل رہا ہوں کہ ضیاءالحق کی فوجی بغاوت اور ذوالفقار علی بھٹو کی معزولی اور پھانسی کسی اندرونی کہانی کے بجائے ایک بین الاقوامی سازش کا حصہ تھی تاکہ سوشلزم کے پھیلاؤ اور سوویت اثرو نفوز کی راہ میں بند باندھا جا سکے ۔ اسلامی جہاد کا فلسفہ بھی دراصل انہیں مقاصد کے حصول کے لئے بطور ایک محرک (Motive) استعمال کیا گیا جبکہ اصل ہدف (Objective) سوویت یونین کے خلاف دنیا بھر کے کرائے کے فوجیوں کا اجتماع تھا جو کسی خاص ملک یا فوج کی وردی پہنے بنا امریکی مفادات کی تکمیل کر سکتا ۔
امریکی ، پاکستانی اور سعودی حکمران اور ان کی ایجنسیاں اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ جنت کا راستہ افغانستان سے ہوکر ہرگز نہیں گزرتا لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اسلام کا دفاع ،کفار اور ملحدین کی شکست ،ثواب کا لالچ ، جنت کا حصول اور حوروں سے ہم بستری کا شوق سادہ لوح مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے بہترین محرک ثابت ہو سکتے تھے ۔ لہٰذا ڈالروں اور ریال کی ریل پیل کے ساتھ ہی پاکستان کی سرحدیں تمام دنیا کے مجاہدین کے لئے کھول دی گئیں اور کافر سوویت یونین کے خلاف مقدس جہاد کا آغاز کردیا گیا ۔ اگرچہ اس جہاد کا بنیادی اور اہم ترین مقصد سوویت یونین اور سوشلزم کے اثرات کو محدود رکھنا تھا جنہیں امریکی سرمایہ دارانہ نظام اور خطے میں امریکی بالا دستی کے لئے سب سے بڑا خطرہ تصور کیا جاتا تھا لیکن اس جہاد سے پاکستان ، سعودی عرب اور ایران کے بھی مفادات وابستہ تھے اس لئے مذکورہ تینوں ممالک بھی اپنے لئے اس امریکی جہاد کے ثمرات لوٹنے میں برابر مصروف رہے ۔ پاکستان کو افغان حکمرانوں سے ہمیشہ یہ شکایت رہی تھی کہ وہ نہ صرف پاکستان کے علیحدگی پسندوں کی حمایت کرتے تھے بلکہ ان کی مدد بھی کرتے تھے ۔ اگر اس جہاد کی بدولت افغانستان میں پاکستان کی دوست حکومت قائم ہوجاتی تو پاکستان کو ایک بڑے جھنجھٹ سے چھٹکارہ مل سکتا تھا ۔ دوسری طرف سعودی عرب اور ایران بھی جو دو مختلف بلکہ “متصادم” مسالک کی رہبری کے دعوے دار تھے ، امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنے نفوذ میں اضافے کی خاطر ایک دوسرے سے صف آراء رہے ۔ ان کی یہ محاز آرائی صرف افغانستان تک محدود نہ رہی بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ ان کی یہ لڑائی افغان سرحدوں کو عبور کرکے پورے خطے میں پھیل گئی ۔
جنرل ضیاء چونکہ عقیدتی اور سیاسی طور پر سعودی حکمرانوں کے کافی قریب تھے لہٰذا ان کی کوششوں سے افغانستان کی سنی جہادی تنظیموں پر سعودی اثرو رسوخ کا بڑھنا لازمی امر تھا جبکہ ایران نے بھی شیعہ گروہوں کی حوصلہ افزائی جاری رکھی ان کی اس رسہ کشی کا یہ نتیجہ نکلا کہ افغانستان اور پاکستان میں فرقہ واریت بڑھنے لگی ۔ اسی دوران ان دونوں ممالک میں مسلکی بنیادوں پر تنظیمیں بنانے کا آغاز ہوا ۔ تحریک نفاذ فقہہ جعفریہ کی تشکیل اسی ماحول میں ہوئی جس کا مظالبہ تھا کہ پاکستان میں ملکی سطح پر فقہہ جعفریہ کا نفاز کیا جائے ۔ 1985 کے دوران اس مطالبے اور اسکی منظوری کے لئے ملک بھر میں ہونے والے پر تشدد مظاہروں نے فرقہ واریت کو ہوا دینے میں بڑا کردار ادا کیا جس کی دیکھا دیکھی مختلف مسالک کے پیرو کار اپنے “حقوق” کے حصول کی خاطر میدان میں کود پڑے ۔
پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل کا پہلا شکار علامہ احسان الٰہی ظہیر بنے جو اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ نہ صرف بریلوی اور شیعہ مسالک کے سخت ترین مخالف تھے بلکہ ان کا شمار جماعت اسلامی کے بھر پور ناقدین میں بھی ہوتا تھا ۔ حتیٰ کہ انہوں نے ضیاء الحق کے شریعت بل کی مخالفت کرکے ان کی بھی ناراضی مول لی تھی ۔ انہیں 30 مارچ 1987 کو اس وقت ایک بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا جب وہ ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے ۔ کہتے ہیں کہ بم سٹیج پر رکھے ایک پھولدان میں رکھا گیا تھا ۔ اس واقعے میں چودہ دیگر لوگ بھی ہلاک ہوئے جو اہل حدیث اور سلفی مسالک سے تعلق رکھتے تھے ۔ احسان الٰہی ظہیر اس حادثے میں زخمی ہوئے جنہیں علاج کے لئے سعودی عرب لے جایا گیا جہاں ریاض کے ایک ہسپتال میں ان کی موت واقع ہو گئی ۔ ان کے پیرو کاروں نے اس بم دھماکے کی ذمہ داری براہ راست ایران پر عائد کی اور رد عمل کے طور پر پنجاب میں ایک ایسی گاڑی کو بم سے نشانہ بنایا جس میں ایرانی انجنئیرز سوار تھے ۔
پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی ابتدا اگرچہ “امیرالمومنین” ضیاء الحق کے دور میں ہوئی لیکن اسے عروج نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں حاصل ہوا ۔ اس فرقہ واریت سے نمٹنے کی خاطرنواز شریف نے 1991 میں شیعہ اور سنی مسالک کے علماء کو ایک میز پر بٹھاکر اس بات کی کوشش کی کہ وہ پر امن بقائے باہمی کے اُصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے عقاید کا احترام کریں اور ایک دوسرے کے خلاف گستاخانہ باتوں سے گریز کریں ۔ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی رہے اور تقریباَ 30 کے قریب علماء اور مشائخ نے ”اتحاد بین المسلمین کمیٹی“ کے تحت ہونے والے اس معاہدے پر دستخط کئے ۔ 1992 میں ہونے والے اس معاہدے کے بعد پنجاب میں فرقہ واریت میں خاطر خواہ کمی آئی اور یہ عفریت وہاں سے نکل کر پاکستان کے دوسرے صوبوں میں منتقل ہونا شروع ہوا۔
1997 میں جب نواز شریف دو تہائی اکثریت کے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو پورے ملک خصوصاَ پنجاب کو ایک بار پھر شدید فرقہ واریت کا سامنا تھا۔ تب ان کے بھائی شہباز شریف بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوچکے تھے۔ ان کے خصوصی احکامات کے نتیجے میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث کئی افراد کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ متعدد دہشت گردوں کو پولیس مقابلوں میں مار بھی دیا گیا تاکہ انصاف کی فراہمی میں حائل طویل اور کمزور عدالتی طریق کار سے بچا جا سکے ۔ یہ سارا سلسلہ اس وقت اپنے اختتام کو پہنچا جب 1999 میں رائے ونڈ کے قریب نواز شریف کو ایک بم دھماکے میں ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس حملے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی ۔ اس واقعے کے بعد میاں برادران جیلوں میں بند دہشت گردوں کو رہاکرنے اور ان کے سرپرستوں کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے جس کے بعد ان دہشت گردوں نے ایک بار پھر پنجاب سے نکل کر ملک کے باقی حصوں خصوصاَ کوئٹہ اور کراچی میں اپنی کاروائیوں کا آغاز کردیا۔
انہیں دنوں کوئٹہ میں یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ پنجاب میں سرگرم لشکر جھنگوی نے بلوچستان میں موجود اپنے کارکنوں کو چوڑیاں بھجوائیں تھیں اور انہیں بزدل اور نامرد ہونے کا طعنہ دے کر اس بات پر اکسایا تھا کہ وہ مفت کی روٹیاں توڑنے کے بجائے “کافروں” کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع کریں ۔ پھر اسی سال یعنی اکتوبر 1999 میں کوئٹہ میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا پہلا واقعہ رونما ہوا جب سردار نثار علی ہزارہ پر ایک قاتلانہ حملہ کیا گیا ۔ حملے میں وہ شدید زخمی ہوئے جبکہ ان کے ڈرائور اور محافظ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ یاد رہے کہ اس حملے میں ملوث شخص کا تعلق بھی پنجاب سے تھا جو اس حملے کو انجام دینے خصوصی طور پر کوئٹہ آیا ہوا تھا ۔ یہ واقعہ دراصل فرقہ وارانہ دہشت گردی کو پنجاب سے نکال کر بلوچستان اور سندھ میں منتقل کرنے کے منصوبے کا نقظہء آغاز تھا ۔ ایک ایسا منصوبہ جس پر لشکر جھنگوی اور شریف برادران کا اتفاق ہو چکا تھا ۔
Hope) Hazara Organization for Peace and Equality) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اکتوبر 1999 سے اب تک کوئٹہ میں ہزارہ قوم پر تقریباَ 158 دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں جن میں 1400 کے قریب مرد ،عورتیں اور بچّے اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں جبکہ معزور اور زخمی ہو نے والوں کی تعداد 3500 کے قریب ہے ۔
چودہ سال سے جاری اس قتل عام کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں ؟ کیا یہ کسی بین الاقوامی منصوبے کا شاخسانہ ہے ؟ کیا اس قتل عام کی وجہ فرقہ واریت ہے ؟ کیا خطے کو شیعیوں کے وجود سے پاک کرنا ہی اصل مقصد ہے یا پھر فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات کو محض بطور محرک استعمال کیا جارہا ہے جبکہ مقاصد کچھ اور ہیں ؟ بہ الفاظ دیگر کیا یہ خطے میں اپنا اثرو نفوذ بڑھانے کی خاطر ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگ کا نتیجہ ہے ؟ کیا ہماری لاشیں گراکر بلوچ علیحدگی پسند تحریک سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہورہی ہے ؟ کیا پاکستانی ریاست ان واقعات کے روک تھام میں ناکام ہو چکی ہے یا پھر وہ درپردہ ان عناصر کی پشت پر کھڑی ہے ؟ کیا حالات میں بہتری کے آثار ہیں یا کوئٹہ سمیت سارا پاکستان مذید انتشار اور بد امنی کا شکار بننے جارہا ہے ؟ اور اس صورت حال میں ہم کیا کر سکتے ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر مفصل بحث کی ضرورت ہے ۔
میں ایک عرصے سے ان موضوعات پر لکھنے کی کوشش کررہا تھا لیکن بوجوہ نہیں لکھ پا رہا تھا ۔ موضوع کی وسعت اور اہمیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس پر تفصیلی گفتگو کی جائے ۔ میں نے تمہید کے طور پر اپنی گفتگو کا آغاز کر دیا ہے ۔ میری کوشش ہوگی کہ ان تمام موضوعات پر قسط وار اپنی رائے دوستوں کے ساتھ شئیر کر سکوں ۔ میری رائے یا تجزیے میں یقیناَ بہت سارے نقائص ہونگے ۔ لیکن اگر آپ دوستوں کی آراء مجھے ملتی رہیں تو شاید ہم مل کر اس پر اسرار گھتی کو سلجھانے میں تھوڑی بہت کامیابی حاصل کرسکیں ۔
جاری ہے ۔