ہزارہ قتل عام ۔۔۔۔ دوسری قسط

   ہزارہ قتل عام   ٭   دوسری قسط       

     بین الاقوامی سازش

15 مئی 1989 کو جب افغانستان سے سوویت فوجوں کا انخلاء مکمل ہوا تو امریکی منصوبے کا پہلا مرحلہ کامیابی سے ہمکنار ہوچکا تھا ۔ ان دنوں ایک سازشی تھیوری کا بڑا چرچا تھا جسے نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔ اس تھیوری کی بنیاد اس خیال پر ٹکی تھی کہ مستقبل میں سوویت یونین جیسی کسی طاقت کا راستہ روکنے کے لئے ضروری ہے کہ کسی ملک کو اس بات کا موقع ہی نہ دیاجائے کہ وہ کبھی امریکہ کو آنکھ دکھانے کے قابل ہو سکے ۔ اس لئے ضروری تھا کہ ایسے ممالک سے متعلق خصوصی پالیسیاں تشکیل دی جائیں  ۔ مثلاَ  نیوکلئیر ہتھیار بنانے کی خواہش رکھنے والے اور اقتصادی و عسکری لحاظ سے مستحکم ممالک کے حصّے بخرے کرکے انہیں اتنا کمزور کیا جائے کہ وہ مستقبل میں امریکی مفادات کو چیلینج کرنے کی پوزیشن میں ہی نہ رہیں ۔

   دسمبر1991 میں سوویت یونین کے خاتمے اور سابق سپر پاور کے 15 خود مختار ممالک میں تقسیم کے ساتھ ہی کئی دہائیوں سے جاری سرد جنگ کا خاتمہ ہوا جس کے بعد امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک نے بھی مستقبل کے نئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اپنی ترجیحات کا از سر نو تعین شروع کیا ۔ انہیں دنوں نیٹو کے کمانڈر کا ایک بیان کافی تنازعہ کا سبب بنا جس میں انہوں نے مستقبل میں اسلام اور اسلامی شدت پسندی کو دنیا کے امن کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے سدّ باب کی ضرورت پر زور دیا تھا ۔ اگر اس سازشی تھیوری کو ایک حقیقت اور نیٹو کمانڈر کے بیان کو مغربی طاقتوں کی پالیسی مان لی جائے تو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران خطے میں رونما ہونے والے واقعات کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا  ۔

     گیارہ ستمبر 2001  (نائن الیون) کو جب نیویارک کے جڑواں عمارتوں پر حملے ہوئے تو امریکہ نے فوراَ ہی اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ڈال دی جو کافی عرصے سے جہاد کے نام پر افغانستان میں مصروف عمل تھے. لہٰذا    “امریکہ پر حملے” کے مجرموں کو “انصاف کے کٹہرے”میں لانے اور ان کے سرپرستوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے امریکہ نے برطانیہ کے ساتھ مل کر افغانستان پر انتہائی جدید ہتھیاروں سے شدید حملوں کا آغاز کردیا اور جلد ہی افغانستان میں موجود طالبان مخالف قوتوں کی مدد سے طالبان اور ان کے غیر ملکی حامیوں کو افغانستان سے بھاگ نکلنے پر مجبور کردیا ۔ اس دوران نہ صرف ہزاروں کی تعداد میں طالبان جنگجو ہلاک ہوئے بلکہ بڑی تعداد میں گرفتار بھی کر لئے گئے ۔ جو بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے وہ بھاگ کر پاکستان آگئے اور انہوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کو اپنی آماجگاہ بنالیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے والوں نے جن میں فرقہ وارانہ دہشت گردوں کی بڑی تعداد شامل تھی مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کے نام پر پاکستان بھر میں خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا ایسا سلسلہ شروع کیا جو آج تک جاری و ساری ہے ۔ اس دوران نہ صرف حساس ملکی تنصیبات پر حملے کئے گئے اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا بلکہ مساجد ، مدارس ، عبادت گاہوں ، مزارات اور عوامی مقامات پر بھی جان لیوا حملے کئے گئے جن میں پچاس ہزار کے قریب لوگوں کی جانیں چلی گئیں ۔

       2009 میں صوبہ سرحد کے گورنر اویس غنی نے اپنے ایک انٹرویو  میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ  قبائلی علاقوں میں  مصروف  عمل شدت پسندوں کے ایک مہینے کا خرچہ تقریباَ دو  ارب روپے کے برابر ہے جس میں جنگجوؤں کی تنخواہیں،رہائش، کھانے پینے،نقل و حمل اسلحہ اور “شہداء” کے خاندانوں کی کفالت کے اخراجات شامل ہیں ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ پیسے انہیں ملتے کہاں سے ہیں تو ان کا جواب تھا “یہ سب منشیات کے پیسے ہیں جن کی کاشت افغانستان میں ہوتی ہے” لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغانی طالبان کے قبضے میں ایسے علاقے ہیں جہاں وہ آسانی سے منشیات کی کاشت کر سکیں؟کیوں کہ وہ تو وہاں گوریلا جنگ میں مصروف ہیں اور اگر اتحادی فوجوں کی موجودگی کے باوجود افغانستان میں بڑے پیمانے پر نہ صرف منشیات کاشت ہوتی رہی ہے بلکہ اس کی آمدنی کا بڑا حصہ پاکستان میں موجود جنگجوؤں کو ملتا رہا ہے تو کیا یہ پاکستان کے لئے اچھنبے کی بات نہیں؟

     اسی طرح یہ سوال بھی ہنوز حل طلب ہے کہ یمن ، سوڈان ، مصر ، الجزائر ، عراق ، لیبیا ، اردن ، تیونس ، سعودی عرب ، شام اور دیگر عرب ملکوں سے ہزاروں کی تعداد میں جو جنگجو طویل فاصلے اور کئی ملکوں کی سرحدیں عبور کرکے جہاد کی غرض سے افغانستان یا پاکستان آئے انہوں نے اپنے ہمسایوں یعنی فلسطینی اور لبنانی عوام کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف جنگ کرنے اور قبلہ اول کی آزادی کے بجائے افغانستانی اور پاکستانی عوام کے قتل عام اور یہاں اسلامی خلافت کی تشکیل کو کیوں ترجیح دی ؟ چیچن جنگجو اپنے وطن کی آزادی کی خاطر روس سے لڑنے کے بجائے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کس مقصد کے تحت مقیم ہیں ؟ اسی طرح اوزبک جنگجو اپنے ملک کے حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے بجائے بین الاقوامی نیٹ ورک کے ساتھ مل کر پاکستانی عوام اور اداروں کے خلاف کیوں نبرد آزما ہیں ؟ اگر قبائلی علاقوں میں ان چینی مجاہدین کو تربیت دی جاتی ہے جو چین کے بعض صوبوں میں نہ صرف علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں بلکہ وہ چین میں ہونے والے بعض پر تشدد واقعات کے بھی ذمہ دار ہیں تو  یہ اصل میں کن کا ایجنڈا ہے؟ نیز مختلف مسالک کی عبادت گاہوں پر خود کش حملوں، دینی،سیاسی و مذہبی شخصیات کا قتل،پرہجوم جگہوں پر بم دھماکے،قانون نافذ کرنے والے اداروں  اور اہلکاروں پر حملے اور مذہبی منافرت اوروحشیانہ قتل و غارت گری کے زریعے لوگوں کا قتل کرکے امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے کون سا انتقام لیا جا رہا ہے؟اس کے برعکس جو لوگ پاکستان کوانتشار، عدم استحکام اور خانہ جنگی میں مبتلا کرنے کے درپے ہیں کیا دراصل وہ اسی سازشی تھیوری کو حقیقت بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا نہیں جس کا چرچا ایک عرصے سے ہورہا ہے ؟

     یہی صورت حال ہمیں عراق میں بھی نظر آتی ہے جہاں 9/11 ہی کے واقعے کو بنیاد بنا کر امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے 2003  کے اوائل میں چڑھائی کردی ۔ اس حملے کے تین مقاصد بیان کئے گئے۔ یعنی بین الاقوامی دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والی صدام حکومت کا خاتمہ، وسیع تباہی والے ہتھیاروں (WMD)کی تباہی اور عراقی عوام کی آزادی ۔

        اگرچہ عراق میں اپنی من پسند حکومت قائم کرنے اور صدام حسین کو پھانسی پر لٹکانے کے بعد بش انتظامیہ نے اس بات کا اعتراف کرلیا کہ انہیں عراق میں مہلک تباہی والے ہتھیار نہیں ملے لیکن اس دوران عراق میں جنگجوؤں اور شدت پسندوں کے جو گروہ منظر عام پر آئے ان کی آپس کی خانہ جنگی ، قتل و غارت گری بم دھماکوں، خودکش حملوں،راکٹ باری اور اجتماعی قتل عام کے دوران لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے ۔

     اعداد و شمار کے مطابق 2003 میں امریکہ اور اتحادی افواج کے عراق پر حملے کے آغاز سے جون 2009 تک ہلاک ہونے والے اتحادی فوجیوں کی تعداد محض چار ہزار کے لگ بھگ تھی جبکہ قتل ہونے والے عراقی باشندوں  کی تعداد تیرہ لاکھ سے زائد تھی ۔ بعض زرائع قتل و غارت کا شکار ہونے والے عراقیوں کی تعداد پچیس لاکھ تک بتاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ عراقی عوام کی اتنی بڑی تعداد براہ راست اتحادی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہوئی بلکہ اس قتل عام کا زریعہ وہ لوگ بنے جنہوں نے مذہب اور فرقہ واریت کے نام پر اپنوں کا بے دریغ خون بہایا اور عراقی عوام کو آپس میں الجھا کر نہ صرف بیرونی قوتوں کو حکمرانی اور وسائل کی لوٹ مارکا موقع فراہم کیا بلکہ لوگوں کی توجہ اسرائیل اور فلسطین کے معاملات سے ہٹا کر انہیں فرقہ وارانہ جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا ۔

      جون 2006 کے دوران جب عراق میں خانہ جنگی اپنے عروج پر تھی امریکی عسکری ماہنامےUS Armed Forces Journal  میں “Blood Borders“(خونی سرحدیں) کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں مصنف  رالف پیٹرز(Ralph Peters) نے مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک کی سرحدوں کو غیر طبیعی (Un-natural)قرار دیتے ہوئے ان کی نسلی اور مذہبی بنیادوں پر دوبارہ حد بندی کی تجویز پیش  کی تھی ۔

  سعودی عرب،عرب امارات،ترکی،شام،عراق اورایران کی نئی حد بندیوں کی تجاویز کے بعد مضمون نگار کا کہنا تھا کہ علاقے کا سب سے غیر طبیعی ملک پاکستان ہے لہٰذا پاکستانی اور ایرانی بلوچستان کو ملا کر آزاد بلوچستان کی تشکیل ہونی چاہئے جبکہ پاکستان کے پشتون علاقوں کو افغانستان میں شامل کیا جانا چاہئے ۔  اس طرح افغان صوبہ ہرات اور آس پاس کے علاقے جو ایران سے نسلی روابط رکھتے  ہیں ایران میں شامل کرلئے جائے ۔ آگے چل کر انہوں نے لکھا تھا کہ اگرچہ لوگوں کی خواہشات کے عین مطابق سرحدات کی از سر نو حد بندی فی زمانہ شاید ممکن نہ لگے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بہت ساری خونریزی کے بعدنئی اور حقیقی سرحدیں ابھر کر سامنے آئیں گی ۔ مضمون نگار نے آگے چل کر یہ بھی لکھا تھا کہ اگر ہمارے پاس کوئی جادوئی طاقت ہوتی توہم یقینا اسی انداز میں سرحدوں کی تشکیل نو کرتے ۔ ان کے خیال میں امریکی اور اتحادی فوجوں نے ان نا انصافیوں کو درست کرنے کا ایک بہت ہی اچھا موقع اس وقت گنوا دیا تھا جب بغداد کا سقوط ہوا تھا ۔

   یاد رہے کہ 2009 میں جب اوبامہ کی سربراہی میں بننے والی نئی امریکی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ2011 تک عراق سے غیر ملکی افواج کا انخلاء مکمل کرکے حکومت وہاں کی عوام کے حوالے کی جائیگی جبکہ افغانستان میں موجود امریکی افواج کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا تو عراق میں موجود القاعدہ کے رہنماؤں نے اپنے جنگجوؤں کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ عراق سے نکل کر افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل ہو جائیں ۔ جبکہ اسی دوران مغربی زرائع ابلاغ میں تواتر سے ایسی خبریں اور تجزیے شائع ہونے لگے جن میں پاکستان کو عراق اور افغانستان سے بھی زیادہ خطرناک ملک قرار دیا جانے لگااور امریکی انتظامیہ سے اس بات کا مطالبہ ہونے لگا کہ وہ اپنی تمام تر توجہ عراق اور افغانستان سے ہٹاکر ایٹمی صلاحیت سے مالامال پاکستان پر مرکوز کردے جو ان کے بقول عالمی امن کے لئے خطرہ ثابت ہو رہا ہے ۔ ایسے میں امریکی عہدیداروں کے دئے گئے بیاتات بھی ریکارڑ پر ہیں جن میں انہوں نے پاکستان میں دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے دہشت گردوں کے ہاتھوں جانے کے خدشے کا بارہا اظہار کیا تھا ۔

     لہٰذا اگر نیو ورلڈ آرڈر کی سازشی تھیوری پر یقین کیا جائے تو  عراق ، تیونس ، لیبیا ، مصر ، شام ، پاکستان اور افغانستان میں جاری بد امنی اور قتل و غارت گری کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا خصوصاَ ایسی صورت حال میں جب یہ خبریں تواتر سے گردش کر رہی ہوں کہ تیونس ،لیبیا ، مصر اور شام میں حکومت کے مخالفین کو امریکہ کی مکمل آشیرواد حاصل رہی ہے ۔ اسی طرح اگر ان الزامات کو بھی درست مان لیا جائے جن کے مطابق عالمی طاقتیں دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت کو توڑنے کی سازش کر رہی ہیں تو پھر وزیرستان سے لیکر کراچی تک پاکستان بھر میں رونما ہونے والے بد امنی اور قتل و غارت کے واقعات اور بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو بھی اسی بین الاقوامی سازش کا ایک حصہ سمجھنا ہوگا جس کی تکمیل کے لئے دوسروں کی طرح ہزارہ قوم کا بھی بطور ایندھن استعمال کیا جارہا ہے ۔

     لیکن کیا ایسا سوچنا مکمل طور پر ٹھیک ہوگا ؟

جاری ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.