ہزارہ قتل عام ۔ مکمل مضمون

  ہزارہ قتل عام  Hazara Genocide  (محرکات اور عوامل)

 امریکہ نے سعودی عرب اور پاکستانی آئی ایس آئی کے ساتھ مل افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف کیوں اور کیسے “جہاد” کا آغاز کیا ؟ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔ میں بذات خود شروع سے ہی اس بات کا قائل رہا ہوں کہ ضیاءالحق کی فوجی بغاوت اور ذوالفقار علی بھٹو کی معزولی اور پھانسی کسی اندرونی کہانی کے بجائے ایک بین الاقوامی سازش کا حصہ تھی تاکہ سوشلزم کے پھیلاؤ اور سوویت اثرو نفوز کی راہ میں بند باندھا جا سکے ۔ اسلامی جہاد کا فلسفہ بھی دراصل انہیں مقاصد کے حصول کے لئے بطور ایک محرک (Motive) استعمال کیا گیا جبکہ اصل ہدف (Objective) سوویت یونین کے خلاف دنیا بھر کے کرائے کے فوجیوں کا اجتماع تھا جو کسی خاص ملک یا فوج کی وردی پہنے بنا امریکی مفادات کی تکمیل کر سکتا۔

       امریکی ، پاکستانی اور سعودی حکمران اور ان کی ایجنسیاں اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ جنت کا راستہ افغانستان سے ہوکر ہرگز نہیں گزرتا لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اسلام کا دفاع ،کفار اور ملحدین کی شکست ،ثواب کا لالچ ، جنت کا حصول اور حوروں سے ہم بستری کا شوق سادہ لوح مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے بہترین محرک ثابت ہو سکتے تھے ۔ لہٰذا ڈالروں اور ریال کی ریل پیل کے ساتھ ہی پاکستان کی سرحدیں تمام دنیا کے مجاہدین کے لئے کھول دی گئیں اور کافر سوویت یونین کے خلاف مقدس جہاد کا آغاز کردیا گیا ۔ اگرچہ اس جہاد کا بنیادی اور اہم ترین مقصد سوویت یونین اور سوشلزم کے اثرات کو محدود رکھنا تھا جنہیں امریکی سرمایہ دارانہ نظام اور خطے میں امریکی بالا دستی کے لئے سب سے بڑا خطرہ تصور کیا جاتا تھا لیکن اس جہاد سے پاکستان ، سعودی عرب اور ایران کے بھی مفادات وابستہ تھے اس لئے مذکورہ تینوں ممالک بھی اپنے لئے اس امریکی جہاد کے ثمرات لوٹنے میں برابر مصروف رہے ۔ پاکستان کو افغان حکمرانوں سے ہمیشہ یہ شکایت رہی تھی کہ وہ نہ صرف پاکستان کے علیحدگی پسندوں کی حمایت کرتے تھے بلکہ ان کی مدد بھی کرتے تھے ۔ اگر اس جہاد کی بدولت افغانستان میں پاکستان کی دوست حکومت قائم ہوجاتی تو پاکستان کو ایک بڑے جھنجھٹ سے چھٹکارہ مل سکتا تھا ۔ دوسری طرف سعودی عرب اور ایران بھی جو دو مختلف بلکہ “متصادم” مسالک کی رہبری کے دعوے دار تھے ، امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنے نفوذ میں اضافے کی خاطر ایک دوسرے سے صف آراء رہے ۔ ان کی یہ محاز آرائی صرف افغانستان تک محدود نہ رہی بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ ان کی یہ لڑائی افغان سرحدوں کو عبور کرکے پورے خطے میں پھیل گئی۔

    جنرل ضیاء چونکہ عقیدتی اور سیاسی طور پر سعودی حکمرانوں کے کافی قریب تھے لہٰذا ان کی کوششوں سے افغانستان کی سنی جہادی تنظیموں پر سعودی اثرو رسوخ کا بڑھنا لازمی امر تھا جبکہ ایران نے بھی شیعہ گروہوں کی حوصلہ افزائی جاری رکھی ان کی اس رسہ کشی کا یہ نتیجہ  نکلا کہ افغانستان اور پاکستان میں فرقہ واریت بڑھنے لگی ۔ اسی دوران ان دونوں ممالک میں مسلکی بنیادوں پر تنظیمیں بنانے کا آغاز ہوا ۔ تحریک نفاذ فقہہ جعفریہ کی تشکیل اسی ماحول میں ہوئی جس کا مظالبہ تھا کہ پاکستان میں ملکی سطح پر فقہہ جعفریہ کا نفاز کیا جائے ۔ 1985 کے دوران اس مطالبے اور اسکی منظوری کے لئے ملک بھر میں ہونے والے پر تشدد مظاہروں نے فرقہ واریت کو ہوا دینے میں بڑا کردار ادا کیا جس کی دیکھا دیکھی مختلف مسالک کے پیرو کار اپنے “حقوق” کے حصول کی خاطر میدان میں کود پڑے۔

     پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل کا پہلا شکار علامہ احسان الٰہی ظہیر بنے جو اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ نہ صرف بریلوی اور شیعہ مسالک کے سخت ترین مخالف تھے بلکہ ان کا شمار جماعت اسلامی کے بھر پور ناقدین میں بھی ہوتا تھا ۔  حتیٰ کہ انہوں نے ضیاء الحق کے شریعت بل کی مخالفت کرکے ان کی بھی ناراضی مول لی تھی ۔ انہیں 30 مارچ 1987 کو اس وقت ایک بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا جب وہ ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے ۔ کہتے ہیں کہ بم سٹیج پر رکھے ایک پھولدان میں رکھا گیا تھا ۔ اس واقعے میں چودہ دیگر لوگ بھی ہلاک ہوئے جو اہل حدیث اور سلفی مسالک سے تعلق رکھتے تھے ۔ احسان الٰہی ظہیر اس حادثے میں زخمی ہوئے جنہیں علاج کے لئے سعودی عرب لے جایا گیا جہاں ریاض کے ایک ہسپتال میں ان کی موت واقع ہو گئی ۔ ان کے پیرو کاروں نے اس بم دھماکے کی ذمہ داری براہ راست ایران پر عائد کی اور رد عمل کے طور پر پنجاب میں ایک ایسی گاڑی کو بم سے نشانہ بنایا جس میں ایرانی انجنئیرز سوار تھے۔

     پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی ابتدا اگرچہ “امیرالمومنین” ضیاء الحق کے دور میں ہوئی لیکن اسے عروج نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں حاصل ہوا ۔ اس فرقہ واریت سے نمٹنے کی خاطرنواز شریف نے 1991 میں شیعہ اور سنی مسالک کے علماء کو ایک میز پر بٹھاکر اس بات کی کوشش کی کہ وہ پر امن بقائے باہمی کے اُصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے عقاید کا احترام کریں اور ایک دوسرے کے خلاف گستاخانہ باتوں سے گریز کریں ۔ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی رہے اور تقریباَ 30 کے قریب علماء اور مشائخ نے ”اتحاد بین المسلمین کمیٹی“ کے تحت ہونے والے اس معاہدے پر دستخط کئے ۔ 1992 میں ہونے والے اس معاہدے کے بعد پنجاب میں فرقہ واریت میں خاطر خواہ کمی آئی اور یہ عفریت وہاں سے نکل کر پاکستان کے دوسرے صوبوں میں منتقل ہونا شروع ہوا۔

     1997 میں جب نواز شریف دو تہائی اکثریت کے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو پورے ملک خصوصاَ پنجاب کو ایک بار پھر شدید فرقہ واریت کا سامنا تھا۔ تب ان کے بھائی شہباز شریف بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوچکے تھے۔ ان کے خصوصی احکامات کے نتیجے میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث کئی افراد کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ متعدد دہشت گردوں کو پولیس مقابلوں میں مار بھی دیا گیا تاکہ انصاف کی فراہمی میں حائل طویل اور کمزور عدالتی طریق کار سے بچا جا سکے ۔ یہ سارا سلسلہ اس وقت اپنے اختتام کو پہنچا جب 1999 میں رائے ونڈ کے قریب نواز شریف کو ایک بم دھماکے میں ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس حملے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی ۔ اس واقعے کے بعد میاں برادران جیلوں میں بند دہشت گردوں کو رہاکرنے اور ان کے سرپرستوں کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے جس کے بعد ان دہشت گردوں نے ایک بار پھر پنجاب سے نکل کر ملک کے باقی حصوں خصوصاَ کوئٹہ اور کراچی میں اپنی کاروائیوں کا آغاز کردیا۔

    انہیں دنوں کوئٹہ میں یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ پنجاب میں سرگرم لشکر جھنگوی نے بلوچستان میں موجود اپنے کارکنوں کو چوڑیاں بھجوائیں تھیں اور انہیں بزدل اور نامرد ہونے کا طعنہ دے کر اس بات پر اکسایا تھا کہ وہ مفت کی روٹیاں توڑنے کے بجائے “کافروں” کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع کریں ۔ پھر اسی سال یعنی اکتوبر 1999 میں کوئٹہ میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا پہلا واقعہ رونما ہوا جب سردار نثار علی ہزارہ پر ایک قاتلانہ حملہ کیا گیا ۔ حملے میں وہ شدید زخمی ہوئے جبکہ ان کے ڈرائور اور محافظ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ یاد رہے کہ اس حملے میں ملوث شخص کا تعلق بھی پنجاب سے تھا جو اس حملے کو انجام دینے خصوصی طور پر کوئٹہ آیا ہوا تھا ۔ یہ واقعہ دراصل فرقہ وارانہ دہشت گردی کو پنجاب سے نکال کر بلوچستان اور سندھ میں منتقل کرنے کے منصوبے کا نقظہء آغاز تھا ۔ ایک ایسا منصوبہ جس پر لشکر جھنگوی اور شریف برادران کا اتفاق ہو چکا تھا۔

  Hope) Hazara Organization for Peace and Equality)  کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اکتوبر 1999 سے اب تک کوئٹہ میں ہزارہ قوم پر تقریباَ 158 دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں جن میں 1400 کے قریب مرد ،عورتیں اور بچّے اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں جبکہ معزور اور زخمی ہو نے والوں کی تعداد 3500 کے قریب ہے۔

    چودہ سال سے جاری اس قتل عام کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں ؟ کیا یہ کسی بین الاقوامی منصوبے کا شاخسانہ ہے ؟ کیا اس قتل عام کی وجہ فرقہ واریت ہے ؟ کیا خطے کو شیعیوں کے وجود سے پاک کرنا ہی اصل مقصد ہے یا پھر  فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات کو محض بطور محرک استعمال کیا جارہا ہے جبکہ مقاصد کچھ اور ہیں ؟ بہ الفاظ دیگر کیا یہ خطے میں اپنا اثرو نفوذ بڑھانے کی خاطر ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگ کا نتیجہ ہے ؟ کیا ہماری لاشیں گراکر بلوچ علیحدگی پسند تحریک سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہورہی ہے ؟ کیا پاکستانی ریاست ان واقعات کے روک تھام میں ناکام ہو چکی ہے یا پھر وہ درپردہ ان عناصر کی پشت پر کھڑی ہے ؟ کیا حالات میں بہتری کے آثار ہیں یا کوئٹہ سمیت سارا پاکستان مذید انتشار اور بد امنی کا شکار بننے جارہا ہے ؟ اور اس صورت حال میں ہم کیا کر سکتے ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر مفصل بحث کی ضرورت ہے۔

    میں ایک عرصے سے ان موضوعات پر لکھنے کی کوشش کررہا تھا لیکن بوجوہ نہیں لکھ پا رہا تھا ۔ موضوع کی وسعت اور اہمیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس پر تفصیلی گفتگو کی جائے ۔ میں نے تمہید کے طور پر اپنی گفتگو کا آغاز کر دیا ہے ۔ میری کوشش ہوگی کہ ان تمام موضوعات پر قسط وار اپنی رائے دوستوں کے ساتھ شئیر کر سکوں ۔ میری رائے یا تجزیے میں یقیناَ بہت سارے نقائص ہونگے ۔ لیکن اگر آپ دوستوں کی آراء مجھے ملتی رہیں تو شاید ہم مل کر اس پر اسرار گھتی کو سلجھانے میں تھوڑی بہت کامیابی حاصل کرسکیں۔

بین الاقوامی سازش

     15 مئی 1989 کو جب افغانستان سے سوویت فوجوں کا انخلاء مکمل ہوا تو امریکی منصوبے کا پہلا مرحلہ کامیابی سے ہمکنار ہوچکا تھا ۔ ان دنوں ایک سازشی تھیوری کا بڑا چرچا تھا جسے نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔ اس تھیوری کی بنیاد اس خیال پر ٹکی تھی کہ مستقبل میں سوویت یونین جیسی کسی طاقت کا راستہ روکنے کے لئے ضروری ہے کہ کسی ملک کو اس بات کا موقع ہی نہ دیاجائے کہ وہ کبھی امریکہ کو آنکھ دکھانے کے قابل ہو سکے ۔ اس لئے ضروری تھا کہ ایسے ممالک سے متعلق خصوصی پالیسیاں تشکیل دی جائیں  ۔ مثلاَ  نیوکلئیر ہتھیار بنانے کی خواہش رکھنے والے اور اقتصادی و عسکری لحاظ سے مستحکم ممالک کے حصّے بخرے کرکے انہیں اتنا کمزور کیا جائے کہ وہ مستقبل میں امریکی مفادات کو چیلینج کرنے کی پوزیشن میں ہی نہ رہیں۔

   دسمبر1991 میں سوویت یونین کے خاتمے اور سابق سپر پاور کے 15 خود مختار ممالک میں تقسیم کے ساتھ ہی کئی دہائیوں سے جاری سرد جنگ کا خاتمہ ہوا جس کے بعد امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک نے بھی مستقبل کے نئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اپنی ترجیحات کا از سر نو تعین شروع کیا ۔ انہیں دنوں نیٹو کے کمانڈر کا ایک بیان کافی تنازعہ کا سبب بنا جس میں انہوں نے مستقبل میں اسلام اور اسلامی شدت پسندی کو دنیا کے امن کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے سدّ باب کی ضرورت پر زور دیا تھا ۔ اگر اس سازشی تھیوری کو ایک حقیقت اور نیٹو کمانڈر کے بیان کو مغربی طاقتوں کی پالیسی مان لی جائے تو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران خطے میں رونما ہونے والے واقعات کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔

     گیارہ ستمبر 2001  (نائن الیون) کو جب نیویارک کے جڑواں عمارتوں پر حملے ہوئے تو امریکہ نے فوراَ ہی اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ڈال دی جو کافی عرصے سے جہاد کے نام پر افغانستان میں مصروف عمل تھے. لہٰذا    ”امریکہ پر حملے” کے مجرموں کو “انصاف کے کٹہرے”میں لانے اور ان کے سرپرستوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے امریکہ نے برطانیہ کے ساتھ مل کر افغانستان پر انتہائی جدید ہتھیاروں سے شدید حملوں کا آغاز کردیا اور جلد ہی افغانستان میں موجود طالبان مخالف قوتوں کی مدد سے طالبان اور ان کے غیر ملکی حامیوں کو افغانستان سے بھاگ نکلنے پر مجبور کردیا ۔ اس دوران نہ صرف ہزاروں کی تعداد میں طالبان جنگجو ہلاک ہوئے بلکہ بڑی تعداد میں گرفتار بھی کر لئے گئے ۔ جو بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے وہ بھاگ کر پاکستان آگئے اور انہوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کو اپنی آماجگاہ بنالیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے والوں نے جن میں فرقہ وارانہ دہشت گردوں کی بڑی تعداد شامل تھی مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کے نام پر پاکستان بھر میں خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا ایسا سلسلہ شروع کیا جو آج تک جاری و ساری ہے ۔ اس دوران نہ صرف حساس ملکی تنصیبات پر حملے کئے گئے اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا بلکہ مساجد ، مدارس ، عبادت گاہوں ، مزارات اور عوامی مقامات پر بھی جان لیوا حملے کئے گئے جن میں پچاس ہزار کے قریب لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔

       2009 میں صوبہ سرحد کے گورنر اویس غنی نے اپنے ایک انٹرویو  میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ  قبائلی علاقوں میں  مصروف  عمل شدت پسندوں کے ایک مہینے کا خرچہ تقریباَ دو  ارب روپے کے برابر ہے جس میں جنگجوؤں کی تنخواہیں،رہائش، کھانے پینے،نقل و حمل اسلحہ اور “شہداء” کے خاندانوں کی کفالت کے اخراجات شامل ہیں ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ پیسے انہیں ملتے کہاں سے ہیں تو ان کا جواب تھا “یہ سب منشیات کے پیسے ہیں جن کی کاشت افغانستان میں ہوتی ہے” لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغانی طالبان کے قبضے میں ایسے علاقے ہیں جہاں وہ آسانی سے منشیات کی کاشت کر سکیں؟کیوں کہ وہ تو وہاں گوریلا جنگ میں مصروف ہیں اور اگر اتحادی فوجوں کی موجودگی کے باوجود افغانستان میں بڑے پیمانے پر نہ صرف منشیات کاشت ہوتی رہی ہے بلکہ اس کی آمدنی کا بڑا حصہ پاکستان میں موجود جنگجوؤں کو ملتا رہا ہے تو کیا یہ پاکستان کے لئے اچھنبے کی بات نہیں؟

     اسی طرح یہ سوال بھی ہنوز حل طلب ہے کہ یمن ، سوڈان ، مصر ، الجزائر ، عراق ، لیبیا ، اردن ، تیونس ، سعودی عرب ، شام اور دیگر عرب ملکوں سے ہزاروں کی تعداد میں جو جنگجو طویل فاصلے اور کئی ملکوں کی سرحدیں عبور کرکے جہاد کی غرض سے افغانستان یا پاکستان آئے انہوں نے اپنے ہمسایوں یعنی فلسطینی اور لبنانی عوام کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف جنگ کرنے اور قبلہ اول کی آزادی کے بجائے افغانستانی اور پاکستانی عوام کے قتل عام اور یہاں اسلامی خلافت کی تشکیل کو کیوں ترجیح دی ؟ چیچن جنگجو اپنے وطن کی آزادی کی خاطر روس سے لڑنے کے بجائے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کس مقصد کے تحت مقیم ہیں ؟ اسی طرح اوزبک جنگجو اپنے ملک کے حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے بجائے بین الاقوامی نیٹ ورک کے ساتھ مل کر پاکستانی عوام اور اداروں کے خلاف کیوں نبرد آزما ہیں ؟ اگر قبائلی علاقوں میں ان چینی مجاہدین کو تربیت دی جاتی ہے جو چین کے بعض صوبوں میں نہ صرف علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں بلکہ وہ چین میں ہونے والے بعض پر تشدد واقعات کے بھی ذمہ دار ہیں تو  یہ اصل میں کن کا ایجنڈا ہے؟ نیز مختلف مسالک کی عبادت گاہوں پر خود کش حملوں، دینی،سیاسی و مذہبی شخصیات کا قتل،پرہجوم جگہوں پر بم دھماکے،قانون نافذ کرنے والے اداروں  اور اہلکاروں پر حملے اور مذہبی منافرت اوروحشیانہ قتل و غارت گری کے زریعے لوگوں کا قتل کرکے امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے کون سا انتقام لیا جا رہا ہے؟اس کے برعکس جو لوگ پاکستان کوانتشار، عدم استحکام اور خانہ جنگی میں مبتلا کرنے کے درپے ہیں کیا دراصل وہ اسی سازشی تھیوری کو حقیقت بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا نہیں جس کا چرچا ایک عرصے سے ہورہا ہے؟

     یہی صورت حال ہمیں عراق میں بھی نظر آتی ہے جہاں 9/11 ہی کے واقعے کو بنیاد بنا کر امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے 2003  کے اوائل میں چڑھائی کردی ۔ اس حملے کے تین مقاصد بیان کئے گئے۔ یعنی بین الاقوامی دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والی صدام حکومت کا خاتمہ، وسیع تباہی والے ہتھیاروں (WMD)کی تباہی اور عراقی عوام کی آزادی۔

        اگرچہ عراق میں اپنی من پسند حکومت قائم کرنے اور صدام حسین کو پھانسی پر لٹکانے کے بعد بش انتظامیہ نے اس بات کا اعتراف کرلیا کہ انہیں عراق میں مہلک تباہی والے ہتھیار نہیں ملے لیکن اس دوران عراق میں جنگجوؤں اور شدت پسندوں کے جو گروہ منظر عام پر آئے ان کی آپس کی خانہ جنگی ، قتل و غارت گری بم دھماکوں، خودکش حملوں،راکٹ باری اور اجتماعی قتل عام کے دوران لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے۔

     اعداد و شمار کے مطابق 2003 میں امریکہ اور اتحادی افواج کے عراق پر حملے کے آغاز سے جون 2009 تک ہلاک ہونے والے اتحادی فوجیوں کی تعداد محض چار ہزار کے لگ بھگ تھی جبکہ قتل ہونے والے عراقی باشندوں  کی تعداد تیرہ لاکھ سے زائد تھی ۔ بعض زرائع قتل و غارت کا شکار ہونے والے عراقیوں کی تعداد پچیس لاکھ تک بتاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ عراقی عوام کی اتنی بڑی تعداد براہ راست اتحادی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہوئی بلکہ اس قتل عام کا زریعہ وہ لوگ بنے جنہوں نے مذہب اور فرقہ واریت کے نام پر اپنوں کا بے دریغ خون بہایا اور عراقی عوام کو آپس میں الجھا کر نہ صرف بیرونی قوتوں کو حکمرانی اور وسائل کی لوٹ مارکا موقع فراہم کیا بلکہ لوگوں کی توجہ اسرائیل اور فلسطین کے معاملات سے ہٹا کر انہیں فرقہ وارانہ جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا۔

      جون 2006 کے دوران جب عراق میں خانہ جنگی اپنے عروج پر تھی امریکی عسکری ماہنامےUS Armed Forces Journal  میں “Blood Borders“(خونی سرحدیں) کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں مصنف  رالف پیٹرز(Ralph Peters) نے مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک کی سرحدوں کو غیر طبیعی (Un-natural)قرار دیتے ہوئے ان کی نسلی اور مذہبی بنیادوں پر دوبارہ حد بندی کی تجویز پیش  کی تھی۔

  سعودی عرب،عرب امارات،ترکی،شام،عراق اورایران کی نئی حد بندیوں کی تجاویز کے بعد مضمون نگار کا کہنا تھا کہ علاقے کا سب سے غیر طبیعی ملک پاکستان ہے لہٰذا پاکستانی اور ایرانی بلوچستان کو ملا کر آزاد بلوچستان کی تشکیل ہونی چاہئے جبکہ پاکستان کے پشتون علاقوں کو افغانستان میں شامل کیا جانا چاہئے ۔  اس طرح افغان صوبہ ہرات اور آس پاس کے علاقے جو ایران سے نسلی روابط رکھتے  ہیں ایران میں شامل کرلئے جائے ۔ آگے چل کر انہوں نے لکھا تھا کہ اگرچہ لوگوں کی خواہشات کے عین مطابق سرحدات کی از سر نو حد بندی فی زمانہ شاید ممکن نہ لگے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بہت ساری خونریزی کے بعدنئی اور حقیقی سرحدیں ابھر کر سامنے آئیں گی ۔ مضمون نگار نے آگے چل کر یہ بھی لکھا تھا کہ اگر ہمارے پاس کوئی جادوئی طاقت ہوتی توہم یقینا اسی انداز میں سرحدوں کی تشکیل نو کرتے ۔ ان کے خیال میں امریکی اور اتحادی فوجوں نے ان نا انصافیوں کو درست کرنے کا ایک بہت ہی اچھا موقع اس وقت گنوا دیا تھا جب بغداد کا سقوط ہوا تھا۔

   یاد رہے کہ 2009 میں جب اوبامہ کی سربراہی میں بننے والی نئی امریکی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ2011 تک عراق سے غیر ملکی افواج کا انخلاء مکمل کرکے حکومت وہاں کی عوام کے حوالے کی جائیگی جبکہ افغانستان میں موجود امریکی افواج کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا تو عراق میں موجود القاعدہ کے رہنماؤں نے اپنے جنگجوؤں کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ عراق سے نکل کر افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل ہو جائیں ۔ جبکہ اسی دوران مغربی زرائع ابلاغ میں تواتر سے ایسی خبریں اور تجزیے شائع ہونے لگے جن میں پاکستان کو عراق اور افغانستان سے بھی زیادہ خطرناک ملک قرار دیا جانے لگااور امریکی انتظامیہ سے اس بات کا مطالبہ ہونے لگا کہ وہ اپنی تمام تر توجہ عراق اور افغانستان سے ہٹاکر ایٹمی صلاحیت سے مالامال پاکستان پر مرکوز کردے جو ان کے بقول عالمی امن کے لئے خطرہ ثابت ہو رہا ہے ۔ ایسے میں امریکی عہدیداروں کے دئے گئے بیاتات بھی ریکارڑ پر ہیں جن میں انہوں نے پاکستان میں دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے دہشت گردوں کے ہاتھوں جانے کے خدشے کا بارہا اظہار کیا تھا۔

     لہٰذا اگر نیو ورلڈ آرڈر کی سازشی تھیوری پر یقین کیا جائے تو  عراق ، تیونس ، لیبیا ، مصر ، شام ، پاکستان اور افغانستان میں جاری بد امنی اور قتل و غارت گری کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا خصوصاَ ایسی صورت حال میں جب یہ خبریں تواتر سے گردش کر رہی ہوں کہ تیونس ،لیبیا ، مصر اور شام میں حکومت کے مخالفین کو امریکہ کی مکمل آشیرواد حاصل رہی ہے ۔ اسی طرح اگر ان الزامات کو بھی درست مان لیا جائے جن کے مطابق عالمی طاقتیں دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت کو توڑنے کی سازش کر رہی ہیں تو پھر وزیرستان سے لیکر کراچی تک پاکستان بھر میں رونما ہونے والے بد امنی اور قتل و غارت کے واقعات اور بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو بھی اسی بین الاقوامی سازش کا ایک حصہ سمجھنا ہوگا جس کی تکمیل کے لئے دوسروں کی طرح ہزارہ قوم کا بھی بطور ایندھن استعمال کیا جارہا ہے۔

     لیکن کیا ایسا سوچنا مکمل طور پر ٹھیک ہوگا؟

ہندوستان کی مداخلت 

    ایک بات طے ہے کہ کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا دارو مدار بڑی حد تک امن و امان کی مجموعی صورت حال پر ہوتا ہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری بلکہ مسلسل بڑھتی بد امنی کے باعث جہاں ملکی معاملات پر ریاست کی گرفت کمزور پڑنے لگی ہے وہاں لوگوں کا ریاست پر سے اعتماد بھی اٹھنے لگا ہے ۔ اسی بدامنی کے باعث ملک میں بیرونی سرمایہ کاری تقریباَ رک سی گئی ہے اور مقامی سرمایہ دار ملک چھوڑ کر بھاگنے لگے ہیں ۔ اسی طرح ادارے بھی تباہی کے جس دہانے پر کھڑے ہیں اور ملک کو معاشی شعبے میں جس بحران کا سامنا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ اس صورت حال کا ایک براہ راست فائدہ پاکستان کے روائتی حریف ہندوستان کو مل رہا ہے جو نہ صرف بڑی تیزی سے معاشی استحکام حاصل کر رہا ہے بلکہ خطے میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے خود کو تیار کررہا ہے ۔ پاکستان اور ہندوستان ہمیشہ ایک دوسرے پر اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کے الزامات لگا تے رہے ہیں ۔ اگر ہندوستان دسمبر 2001 کے انڈین پارلیمنٹ پر حملے اور 2008 کے ممبئی حملوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتا آرہا ہے تو پاکستان بھی اپنی سرزمین پر شورش اور بدامنی کے بیشتر واقعات کے ذمہ دار انڈیا کو قرار دیتا آرہا ہے ۔ پاکستانی حلقے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو  بھارت کی سرپرستی حاصل ہے جبکہ افغانستان میں موجود بھارتی سفارت خانوں کو بھی پاکستان میں بدامنی اور شورش کو ہوا دینے میں ملوث قرار دیا جاتا ہے۔

    اس بات میں کسی شک اور شبہے کی گنجائش نہیں کہ پاکستان نے ہمیشہ اپنے مشرقی ہمسایہ بھارت کو ہی اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیا ہے ۔ مغرب میں موجود ایران اور شمال مشرق میں واقع چین ہمیشہ پاکستانی دوستوں کی صف میں شامل رہے ہیں جبکہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مختلف اوقات میں نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں ۔ پاکستان نے ایٹمی ٹیکنالوجی کےحصول کے لئے تگ و دو بھی اسی لئے کی کیوں کہ اسے ہندوستان کے مقابلے کے لئے تیار رہنا تھا ۔ مئی 1998 میں جب پاکستان نے چاغی میں اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو یہ کچھ ہفتے قبل پوکھران میں کئے گئے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب تھا۔

       ان باتوں کو دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ بعض لوگ بلوچستان میں بد امنی اور ہزارہ قتل عام کی ایک وجہ پاک چین تعلقات اور بھارت سے اختلافات کو قرار دیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں گوادر پورٹ کی جغرافیائی اہمیت اور اسے چین کے حوالے کرنے کی مثالیں دی جاتی ہیں جس سے امریکہ سمیت ہندوستان بھی ناخوش نظر آرہا ہے ۔ بلوچ علیحدگی کی تحریک کو بھی بعض حلقے اسی کشمکش کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں ۔ میری نظر میں اگرچہ بلوچستان میں چینی اثرو نفوذ کا ہزارہ قتل عام سے کوئی براہ راست تعلق نہیں البتہ ان سرگرمیوں کا بالواسطہ اثر ہزارہ قوم کی زندگیوں پر ضرور پڑا ہے جس پر آگے چل کر بات کرنے کی کوشش کروں گا۔

ایران سعودی پراکسی جنگ 

    ہزارہ قتل عام کی وجوہات میں ایک وجہ ایران اور سعودی عرب کی کشمکش کو بھی قرار ریا جاتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس پراکسی وار کو ہی ہزارہ نسل کشی کا سب سے بڑا سبب سمجھا جاتا ہے تو بے جا نہ ہو گا ۔ بعض لوگ اس جنگ کو چودہ سو سالوں سے جاری مسلکی اختلافات کا تسلسل قرار دے کر ایک ہی جملے میں اس بحث کو لپیٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن جس طرح میں نے بحث کے آغاز میں کہا تھا کہ فی زمانہ عقیدہ یا مسلکی اختلافات کو بڑی خوبصورتی سے محض بطور ایک محرک (Motive) استعمال کیا جارہا ہے جبکہ اصل اہداف (Objectives) سیاسی اور معاشی مفادات اور طاقت کا حصول ہیں لہٰذا میرا خیال ہے کہ عرب ایران پراکسی جنگ کے پیچھے بھی یہی حکمت عملی کارفرما ہے۔

       پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے جاری اس بالواسطہ جنگ کو سمجھنے کے لئے ہمیں ایک بار پھر پیچھے مڑ کر دیکھنا ہوگا۔

     ایرانی انقلاب ایک ایسے وقت میں کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا جب پاکستان میں ضیائی آمریت اپنے پنجے مظبوطی سے گاڑھ چکی تھی اور افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف جہاد کی تیاریاں ہورہی تھی ۔ ایران میں انقلاب کی کامیابی کے بعد جو نئے نعرے بلند ہوئے ان میں ۔ “اسلام مرز ندارد” کے نعرے کو بڑی مقبولیت حاصل تھی جو دراصل ایرانی ملاؤں کی” اسلامی انقلاب ” کو ایرانی سر حدوں سے باہر برآمد کرنے کی خواہش کا اظہار تھا ۔ اگر یہ خواہش صرف نعرے تک محدود رہتی تو شاید ایرانی انقلاب کے مخالفین اس کی ذیادہ پرواہ بھی نہ کرتے لیکن جب اسے ایک فلسفے کی حیثیت دے کر ایران نے اپنے انقلاب کے ثمرات بیرون ملک خصوصاَ پاکستان برآمد کرنے کے عمل کا آغاز کیا تو نتیجے میں ان کے مخالفین عرب ممالک بھی خم ٹھونک کر میدان میں کود پڑے۔

       یہ ایک اتفاق ہرگز نہیں تھا کہ ایرانی انقلاب کی کامیابی کے محض کچھ مہینوں کے بعد پاکستان میں تحریک نفاذ فقہہ جعفریہ کے نام سے ایک ایسی شیعہ تنظیم وجود میں آئی جس نے پاکستان میں جعفری فقہہ کے نفاذ کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ہی یہاں بھی ایران جیسا انقلاب برپا کرنے کا نعرہ بلند کیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان اور افغانستان میں  عرب جہادیوں کی آمد شروع ہو گئی تھی جنکا مقصد بظاہر سوویت یونین کے خلاف جہاد میں حصہ لینا تھا ۔ اسی دوران خلیجی عرب ممالک کی سرپرستی میں نہ صرف پورے پاکستان میں دینی مدرسوں کے نام پر جہادیوں کی تربیت گاہوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا بلکہ علاقے میں ایرانی اثرات کے خاتمے کے لئے مختلف فرقہ پرست گروہوں کو نوازنے کی بھی ابتدا ہوئی ۔ عرب ممالک سے آنے والے جنگجو چونکہ لمبے عرصے کے لئے پاکستان آتے اس لئے وہ اپنا پورا کنبہ ساتھ لیکر آتے ۔ مقامی آبادی میں گھل مل جانے اور ان کی مکمل حمایت حاصل کرنے کی خاطر انہوں نے نہ صرف یہاں کے باشندوں سے اپنی لڑکیوں کی شادیاں کروائیں بلکہ ان کے لئے اپنے خزانوں کے منہ بھی کھول دئے ۔ یہی وہ دور تھا جب پاکستان کی سرزمین پر سعودی عرب اور ایران کی کشمکش اور پراکسی جنگ کا آغاز ہوا۔

      پاکستان میں فرقہ واریت کے حوالے سے 1985 کو بڑی اہمیت حاصل ہے جب تحریک نفاذ فقہہ جعفریہ نے ملک میں جعفری فقہہ کے نفاذ کی خاطر پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز کیا ۔ تب علامہ عارف حسین حسینی مذکورہ تنظیم کے سربراہ تھے ۔ ان کا شمار ایرانی رہنماء آیت اللہ خمینی کے قریبی لوگوں میں ہوتا تھا ۔ کوئٹہ میں ہونے والے ایسے ہی ایک احتجاج کے دوران کچھ مقامی ملاؤں نے مطالبات کی منظوری سے انکار کی صورت میں کوئٹہ کو لبنان بنانے کی دھمکی دے ڈالی ۔ تب لبنان مختلف گروہوں کے درمیان شدید خانہ جنگی کا شکار تھا ۔ ان ایران پلٹ ملاؤں کی اس دھمکی کا بھی بظاہر یہی مقصد تھا کہ وہ کوئٹہ کو لبنان بنانے کے درپے تھے ۔ ملاؤں کی ان تندوتیز تقاریر کے باعث مظاہرے نے خون ریز شکل اختیار کرلی جس میں پولیس سمیت کئی عام شہری مارے گئے ۔ بعض لوگوں نے اس واقعے کو شیعہ سنی تصادم کا نام دیا جبکہ ضیائی مارشل لاء کے زیر اثر زرائع ابلاغ نے بھی اس واقعے کو خوب اچھالا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ  اس واقعے کے بعد نہ صرف پاکستان کے مختلف مسالک کے درمیان دوریاں بڑھتی گئی بلکہ اس سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں کو اپنے منظور نظر گروہوں کی حوصلہ افزائی کا بھی بہانہ ہاتھ آیا۔

    6 جولائی کے اس واقعے کے صرف دو مہینے بعد یعنی 6 ستمبر 1985 کو انجمن سپاہ صحابہ کی بنیاد ڈالی گئی  ۔ پنجاب کے شہر جھنگ میں تشکیل پانے والی اس تنظیم کا بنیادی مقصد پاکستان کو ایرانی انقلاب کے اثرات سے “پاک” رکھنا اور شیعیوں کے اثرو نفوز کو بڑھنے سے روکنا تھا ۔ میں مضمون کے آغاز میں عرض کر چکا ہوں کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر وہ پہلے شخص تھے جن کے قتل کا براہ راست الزام ایران پر لگایا گیا ۔ اس واقعے کے چند ہفتوں بعد راولپنڈی میں ایک ایسی بس کو دھماکے سے اڑایا گیا جس میں ایرانی ائر فورس کے انجئیر سوار تھے ۔ اس حملے کو علامہ ظہیر کے قتل کا بدلہ قرار دیا گیا ۔ پھر تو فرقہ وارانہ قتل وغارت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا ۔ 5 اگست 1988 کو پشاور میں ایک قاتلانہ حملے کے نتیجے میں علامہ عارف حسین حسینی قتل کر دئے گئے جبکہ فروری 1990 میں انجمن سپاہ صحابہ جس کا نام تبدیل کرکے سپاہ صحابہ پاکستان رکھا گیا تھا کے بانی حق نواز جھنگوی کو ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک کردیا گیا ۔ اس واقعے کے رد عمل کے طور پر دسمبر 1990 میں خانہ فرہنگ ایران لاہور کے ڈائرکٹر صادق گنجی کو حملہ کرکے قتل کر دیا گیا۔

  پنجاب میں قتل و غارت کا یہ سلسلہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جاری رہا ۔ اس دوران نہ صرف سپاہ صحابہ کے بطن سے لشکر جھنگوی کا جنم ہوا بلکہ تحریک نفاذ فقہہ جعفریہ کے صفوں سے سپاہ محمد نمودار ہوئی جنہوں نے مل کر پنجاب میں قتل و غارت گری کا ایسا بازار گرم کیا جس کی زد میں آکر لاتعداد ڈاکٹر ، انجنئر ، تاجر ،اساتذہ اور عام شہری زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جن کی اکثریت کا تعلق شیعہ فرقے سے تھا ۔ اس دوران تاجروں سمیت تعلیم یافتہ اور پیشہ ور طبقے کی ایک بڑی تعداد جان بچانے کی خاطر پاکستان چھوڑ کر دیگر ممالک میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوئی ۔ پنجاب سے سرمایہ باہر کے صوبوں اور ممالک میں منتقل ہونے لگا جسے دیکھتے ہوئے شریف برادران لشکر جھنگوی کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے ۔ اس معاہدے کے بعد لشکر جھنگوی سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں نے پنجاب میں اپنی سرگرمیاں ختم کردیں اور بلوچستان کے بلوچ علاقوں اور کراچی میں منتقل ہونا شروع ہوئے۔

   بلوچستان میں اپنی کاروائیوں کا آغاز کرنے کے لئے لشکر جھنگوی نے پہلے پہل آر سی ڈی شاہراہ پر واقع بلوچ علاقوں کا انتخاب کیا جو پاکستانی اور ایرانی بلوچستان کو ملانے والی معروف بین الاقوامی شاہراہ ہے ۔ یہ علاقہ ہمیشہ سے ایران کی دلچسپی کا مرکز رہا ہے اس لئے ان علاقوں میں اپنا اثرو نفوز بڑھانے کی خاطر ایران نے یہاں آباد قبائل پر ہمیشہ خصوصی توجہ دی ۔ ایران کی اس خصوصی توجہ ہی کا نتیجہ تھا کہ 1990 کی دہائی میں یہاں کے لوگوں میں شیعہ مسلک اختیار کرنے کا رجحان بڑھنے لگا ۔ یاد رہے کہ ان دنوں ایسی افواہیں عام تھیں کہ مستونگ اور گردو نواح میں بلوچوں کی کئی با اثر شخصیات شیعہ مسلک اختیار کرنے والی تھیں ۔ مستونگ میں تو کئی خاندانوں نے ایسا کیا بھی ۔ لہٰذا جب فرقہ واریت کے نام پر دہشت گردی میں مبتلا گروہ بلوچستان منتقل ہوئے تو انہوں نے مستونگ کے علاقے کو ہی اپنا مرکز بنایا جہاں اپنے پاؤں جمانے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے انہی خاندانوں کا صفایا کرنا شروع کیا جو اپنا مسلک ترک کر کے شیعہ ہوچکے تھے ۔ ان خاندانوں کو نہ صرف بڑی بے دردی سے قتل کردیا گیا بلکہ لوگوں کو انہیں دفنانے اور ان کی نماز جنازہ پڑھنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی ۔ یہ ایک طرح سے ان لوگوں کے لئے واضح پیغام تھا جو ان کے خیال میں شیعہ مسلک اختیار کرکے علاقے میں ایرانی اثرو نفوذ کو بڑھاوا دینے کا سبب بن رہے تھے۔         iran-saudi              

     پاکستان میں فرقہ واریت کے نام پر جاری سعودی ایران پراکسی جنگ کو سمجھنے کے لئے لازمی ہے کہ اس ٹرائیکا کے تاریخی تعلقات اور پالیسیوں پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے ۔ ۔ سید احمد ارشاد ترمزی آئی ایس آئی کے ایک سابق ڈائریکٹر رہے ہیں ۔ سعودی عرب کی پاکستان اور شیعوں سے متعلق پالیسی کو انہوں نے اپنی کتاب “حساس ادارے” ( پروفائلز آف انٹیلیجنس ) کے صفحہ 268 پر ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ “اپنے عقیدے اور مسلک کے حوالے سے شیعوں کے ساتھ سعودی عرب کی دوستی اور جذبات ہمیشہ کچھ سرد رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ہر حکومت نے اسے ایک غیر تحریری قانون اور قومی پالیسی کا حصہ سمجھا ہے کہ جہاں تک ممکن ہوں سعودی عرب کے پاکستانی سفارتخانے میں کسی شیعہ کو تعینات نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی شیعہ فوجی کو تربیت یا کسی اور فوجی مشق کے لئے وہاں بھیجا جائے”۔

   سعودی حکمران پاکستان کو مٹھی میں رکھنے کی خاطر انہیں وقتاَ فوقتاِ امداد بھی دیتے رہتے ہیں جو بعض اوقات اربوں روپے کی تیل کی شکل میں ہوتا ہے ۔ یہی پالیسی ایران کی بھی ہے ۔ 1998 میں جب نواز حکومت نے چاغی میں ایٹمی دھماکے کئے اور نتیجے میں پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی تو ایران وہ واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے تمام بین القوامی قرضے ادا کرنے اور پاکستان کی ہر ممکن امداد کی پیشکش کی ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پیشکش دراصل اس ڈیل کا حصہ تھی جس کے مطابق پاکستان ایران کو ایٹمی ٹیکنالوجی مہیا کرنے کا پابند تھا جبکہ بدلے میں ایران نے افغانستان کے مرکزی اور شمالی علاقوں پر طالبان کے قبضے کے لئے پاکستان کی معاونت کا وعدہ کر لیا تھا ۔ یادرہے کہ پاکستان نے اپنا ایٹمی دھماکہ مئی 1998 میں کیا جس کے صرف تین مہینے بعد یعنی اگست 1998 میں مزار شریف پر طالبان کا مکمل قبضہ ممکن ہوسکا ۔ اس حملے میں صرف دو دنوں کے دوران تقریباَ آٹھ ہزار ہزارہ مرد ، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا گیا ۔  8 اگست کو جب طالبان مزار شریف میں واقع ایرانی کونسلیٹ پہنچے تو انہوں نے ایرانی خبر رساں ادارے ” ارنا ” کے ایک نمائندے کے علاوہ نو ایرانی سفارت کاروں کو بھی ہلاک کر دیا ۔ اس واقعے کے بعد ایرانی رہنماء ہاشمی رفسنجانی نے پاکستان سے گلہ کرتے ہوئے بیان دیا کہ ” قرار نبود اینجوری بشہ ” (معاہدے میں یہ شامل نہیں تھا) ایران نے اس واقعے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جبکہ پاکستان نے اس کی ذمہ داری ایک ایسے گروہ پر ڈال دی جو طالبان کا ہمنوا لیکن پاکستان اور ایران کے اچھے تعلقات کا مخالف تھا ۔ بعد میں یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ان ایرانیوں کے قتل میں لشکر جھنگوی ملوث تھا جو پاکستان اور ایران میں بڑھتی حالیہ قربتوں کے خلاف تھا۔

    پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا پر ایسی تحقیقی رپورٹس کثرت سے شائع ہوتی رہی ہیں جن کے مطابق سعودی عرب اور ایران پاکستان میں اپنے منظور نظر گروہوں کی مالی معاونت کر رہی ہیں ۔ اگر ایک طرف وکی لیکس کے مطابق سعودی عرب اور خلیج کی دیگر عرب ریاستیں جنوبی پنجاب کے سینکڑوں وہابی مدرسوں کو سالانہ کروڑوں ڈالر امداد دے رہی ہیں تو ایران بھی اپنے حامی شیعہ گروہوں کی دل کھول کر امداد کرنے میں مصروف ہے۔

    یہ دونوں ممالک جنہوں نے بزعم خود مسلمانوں کے سنی اور شیعہ فرقوں کی رہنمائی کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے تیل کی دولت سے مالا مال ہیں ۔ حج اور زیارات کی مد میں انہیں جو آمدنی ہوتی ہے وہ ان کے علاوہ ہے جن کا ریکارڈ کہیں دستیاب نہیں ۔ ایسی داستانیں عام ہیں جن کے مطابق سعودی حکمرانوں کے اربوں ڈالر امریکی معیشت کو سہارا دئے ہوئے ہیں ۔ ایسے قصّوں کی بھی کمی نہیں کہ کسی سعودی شہزادے نے کچھ گھنٹوں کی عیاشی پر کروڑوں ڈالر خرچ کئے ۔ ایک سعودی شہزادی نے تو سویٹزرلینڈ میں واقع ایک جائداد کو چھ کروڑ ڈالر میں خریدا ۔ انوکھے موبائل فون نمبر یا گاڑی کی نمبر پلیٹ کے حصول کے لئے ہی عرب شہزادے کروڑوں ڈالر کی بولی لگاتے ہیں ؟ دوسری جانب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای بھی 90 ارب ڈالر مالیت کے بزنس امپائر کے مالک ہیں ۔ ایسے میں اگر وہ اپنے سیاسی و ملکی مفادات کے حصول اور علاقے میں اپنا اثرو نفوز بڑھانے کی خاطر کچھ کروڑ ڈالر لٹا بھی دیں اور کچھ ہزار معصوم لوگوں کا خون بہا بھی دیں تو ان کی صحت پر کیا فرق پڑ سکتا ہے؟

    یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ پاکستانی شیعوں میں دو طرح کے مقلدین ہیں ۔ ایک وہ جو عراقی علماء یا مرجعین کی تقلید یا پیروی کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو ایرانی مرجعین کے مقلد ہیں ۔ عراقی ملّاؤں یا مرجعین کے پیروکار سیاست سے عموماَ دور رہے ہیں اور ان کی تمام توجہ درس اور تدریس پر رہی ہے ۔ ان کے برعکس جو شیعہ ملّا ہمیں سیاست میں ملوث نظر آتے ہیں یہ وہی ہیں جو ایرانی ملّاؤں کی تقلید کرتے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر کئی ایسے ہزارہ ملّاؤں کو جانتا ہوں جو عراق سے پڑھ کر آئے تھے لیکن ایرانی انقلاب کے بعد جب وہاں کے رہنماؤں نے اپنا انقلاب دیگر ممالک میں برآمد کرنے کا آغاز کیا اور دولت کی ریل پیل ہونے لگی توان ملاؤں نے بھی اپنا قبلہ تبدیل کر لیا اور ایرانی رہنماؤں کی تصاویراٹھاکرانقلاب کے” ثمرات ” سمیٹنے میدان سیاست میں کود پڑے۔

     ان کے برعکس نجف سے تعلیم حاصل کرکے آنے والے کئی ایسے ہزارہ ملّا آج بھی بقید حیات ہیں جو کبھی کسی سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنے اور ہمیشہ درس و تدریس سے ہی منسلک رہے ۔ انہوں نے کبھی ایرانی رہنماؤں کی تصاویر کو ڈھال بنانے کی کوشش نہیں کی کی جبکہ ایران پلٹ ملّاؤں نے نہ صرف ہمیشہ خمینی ، خامنہ ای اور رفسنجانی کی تصویروں کو اپنے سروں پر آویزاں کئے رکھا بلکہ لبنانی شیعہ رہنماء حسن نصراللہ کو پاکستانی عوام میں متعارف کرا نے کا سہرا بھی انہیں کے سر جاتا ہے جو خود لبنان میں ایک ایرانی پراکسی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

     ظاہر ہے کہ اگربات مذہب اور عقیدے کی ہوتی تو شاید پاکستان کے یہ شیعہ علماء عراق کے مرجعین کا بھی اتنا ہی احترام کرتے جتنا ایرانی رہنماؤں کا کرتے ہیں لیکن جس طرح ان کے جلسے جلوسوں ، بیانات اور کردار سے واضح ہے وہ مذہب کو محض ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کا بنیادی مقصد ایرانی مفادات کی تکمیل ہے۔

    اس سلسلے میں یوم القدس کی مثال دی جا سکتی ہے جو ایک خالصتاَ ایرانی سیاسی ایجنڈا ہے ۔ یہ دن آیت اللہ خمینی کے اس فرمان کے تحت منایا جاتا ہے جو انہوں نے 1979 میں دیا تھا ۔ تب فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ زوروں پر تھی اور فلسظینی عوام اپنے ملک کی آزادی کی خاطر اسرائیل سے پرسر پیکار تھی ۔ اس دن کو منانے کا مقصد فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ سے یکجہتی کا اظہار تھا ۔ آج  اس واقعے کو 35 سال گذرچکے ہیں اور فلسطینی عوام ایک عشرے سے ہتھیار پھینک کر اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں ۔ لیکن چونکہ ایران اس مسئلے کو ایک سیاسی ایجنڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے اس لئے ہر سال یوم القدس کے موقع پر نہ صرف لاکھوں افراد ایران کی سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کرتے ہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں بھی کچھ مخصوص لوگ یہ دن منا کر ایران سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بھی کچھ گنتی کے ایسے لوگ وجود  رکھتے ہیں جنہوں نے اسے ایک مذہبی تہوار کا درجہ دے رکھا ہے اور اسے ثواب کے حصول کا ایک آسان زریعہ بتاکر لوگوں کے عقاید سے کھلواڑ کرتے ہیں۔quds

    2010 میں کوئٹہ کے میزان چوک پر یوم القدس کےایک ایسے ہی جلوس پر خود کش حملے میں سو سے زاید افراد ہلاک ہو گئے تھے جن کی اکثریت ایسے ہزارہ جوانوں پر مشتمل تھی جنہیں جمعہ کی نماز کے بعد بہلا پھسلا کر جلوس میں شامل کیا گیا تھا ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ خود کش حملہ کرنے والا لشکر جھنگوی کا دہشت گرد بھی جنت کا متلاشی تھا جبکہ بے خبری میں اس دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کو بھی جنت کی بشارت دی گئی تھی ۔ حد تو یہ کہ اس واقعے کے عاملین آج بھی اپنے کردار پر شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے فخر کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں ۔ یاد رہے کہ فلسظینی صدر محمود عباس خود بھی چند سال قبل ایران سے برملا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کے بجائے اپنی حالت بہتر بنانے پر توجہ دیں۔

   ہزارہ قوم کے قتل عام میں ملوث لشکر جھنگوی اور جیش الاسلام جیسے گروہ اور میڈیا میں ان کے بھونپو کا کردار ادا کرنے والی تنظیم اہل سنت والجماعت کئی بار یہ کہہ چکی ہے کہ ان کی ہزارہ قوم سے کوئی دشمنی نہیں بلکہ وہ ان لوگوں کے مخالف ہیں جو ایران سے تربیت حاصل کر کے آتے ہیں یا جو گستاخانہ لٹریچر کی چھپائی میں ملوث ہیں ۔ لیکن وہ ایک بھی ایسی مثال دینے سے یکسر قاصر ہیں جس سے ثابت ہوں کہ آج تک ہونے والے دہشت گردی کے کسی واقعے میں کوئی ہزارہ ملوث پایا گیا ہو ؟ کوئی ایسا لٹریچر بھی دستیاب نہیں جس کی تحریر یا چھپائی میں کسی ہزارہ کا ہاتھ ہو ؟ بلکہ سب بخوبی جانتے ہیں کہ فرقہ واریت پر مبنی مواد چاہے وہ کسی بھی فرقے کے خلاف ہوں زیادہ تردوسرے صوبوں خصوصاَ پنجاب کے چھاپ خانوں سے چھپ کر نکلتے ہیں ۔ ایسے میں بے دردی سے ہزارہ قوم کے قتل عام سے ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اس پراکسی جنگ میں ملوث دونوں گروہ مذہب کا نام استعمال کرکے اور ہزارہ قوم کا خون بہاکر دراصل اپنے سرپرستوں کے عزائم کی تکمیل میں مصروف ہیں۔parvez-ashraf

    سابقہ دور حکومت میں ایک موقع پر وزیر داخلہ رحمان ملک نے کابینہ کو بتایا تھا کہ پاکستان با الخصوص کوئٹہ میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں دو دوست اسلامی ممالک ملوث ہیں ۔ جب اس موضوع پر وزیر خارجہ حنا ربّانی کھر سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے رحمان ملک کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ سفارتی آداب اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم ان دوست اسلامی ممالک کا نام لیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ 2001-2002 میں جب پرویز مشرف نے فرقہ پرست دہشت گرد گروہوں پر پابندی لگائی تھی تو اخباری رپورٹوں کے مطابق تب بھی ان پر ” ہاتھ ہلکا رکھا گیا تھا ” کیوں کہ ان کے” سرپرست دوست اسلامی ملکوں ” کی ناراضگی کا خدشہ تھا۔

     اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی اٹھارہ کروڑ آبادی میں ہزارہ قوم کا تناسب صفر اعشاریہ دو فیصد (0.2٪) ہے جبکہ شیعیوں کی آبادی 20 سے 25 فیصد بتائی جاتی ہے ۔ شیعوں کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں آباد ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔ گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران کوئٹہ میں چودہ سو سے زائد ہزارہ دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں جو ان کی قلیل آبادی کے لحاظ سے ایک بہت بڑی تعداد ہے ۔ اگر گزشتہ پندرہ سالوں کا ریکارڑسامنے رکھا جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلی ایک دہائی میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات بلوچستان میں ہوئے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے اس لحاظ سے یہاں شیعوں کی آبادی بھی سب سے کم ہے جبکہ قتل عام کے ان واقعات کا شکار بننے والوں میں سے نوّے فیصد سے زیادہ کا تعلق ہزارہ قوم سے تھا جن میں ایک بڑی تعداد عورتوں اور بچّوں کی تھی۔

    میں پہلے ہی اس بات کا تذکرہ کر چکا ہوں کہ 1999 میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی اس پراکسی جنگ  کو ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت پنجاب سے بلوچستان منتقل کیا گیا ۔ اس منصوبے میں کون سی قوتیں شامل تھیں؟ اگست 2006 میں نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کے بعد ہزارہ قتل عام میں کیوں تیزی آئی ؟ اور اس بے رحمانہ قتل عام کے پیچھے حکومتی اداروں کا کتنا ہاتھ ہے ؟ ان موضوعات  پر اگلی قسط میں بات کرنے کی کوشش کروںگا۔

دوستوں کی آراء کا انتظار رہے گا ۔

2 thoughts on “ہزارہ قتل عام ۔ مکمل مضمون

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.