مجھے ایک سائیکاٹرسٹ کی ضرورت ہے ۔

مجھے ایک سائیکاٹرسٹ کی ضرورت ہے 

خسرو حسن

میرے اندر اب بھی ایک چھوٹا سا بچّہ بستا ہے ۔ زندگی سے بھرپور ، شریر، چلبلا اور اٹھکیلیاں کرتا ہوا۔ وہ مجھے اپنی طرح دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لئے مجھے اپنی جیسی حرکتیں کرنے کی ترغیب دیتا رہتا ہے ، مجھے شرارتوں پر اکساتا رہتا ہے ۔ ان بچوں کی طرح جو دن میں کئی بار ہمارے گھر کی گھنٹی بجا کے بھاگ جاتے ہیں ۔ وہ مجھے اپنے آپ میں رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔
میں دوسروں پر رعب جمانے کی خاطر بزرگ بننے کی کوشش کرتا ہوں لیکن میرے اندر جی رہے بچے کو یہ پسند نہیں ۔ اسے اس بات سے چڑ ہے ۔ وہ مجھے بچہ رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔ اس کی باتیں کبھی کبھار میرے اوپر حاوی بھی ہوجاتی ہیں ۔ ایسے میں لگتا ہے کہ اس کی روح میرے اندر حلول کر گئی ہے ۔ تب میں کوئی شعر سن کے رونے لگ جاتا ہوں ، کوئی لطیفہ سن کے میرے قہقہے نکل جاتے ہیں ۔ کوئی داستان سن کے میری ہچکی بندھ جاتی ہے اور کوئی مووی دیکھ کر مجھے اپنے آنسوؤں پہ قابو رکھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
لیکن پتہ نہیں ایسے میں کیوں کوئی جھریوں بھرا ایک کھوسٹ آدمی اپنا مدقوق چہرہ لئے نمودار ہوتا ہے ۔ وہ مجھے غیرت دلاتا ہے مجھے اس بچے سے دور رہنے کی تاکید کرتا ہے ۔ وہ مجھے سمجھاتا ہے کہ اب میں چھوٹا بچہ نہیں رہا میں بڑا ہو گیا ہوں ، میری داڑھی مونچھیں سفید ہو رہی ہیں اور میں کچھ سٹھیا بھی گیا ہوں اس لئے بچوں جیسی حرکتیں کرتے میں اچھا با لکل نہیں لگوں گا ۔ یہ بوڑھا میرے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے ، مجھے آنکھیں بھی دکھاتا ہے ۔ وہ مجھے اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ میں بڑوں کی طرح پیش آؤں ۔ لوگوں پر اپنی علمیت جتاؤں ۔ سب کو نصیحتیں کروں ، سب کی باتوں کو ان کی بے عقلی اور سادہ لوحی سے تعبیر کرکے انہیں عقل کی باتیں بتاؤں ۔ وہ مجھ سے یہ بھی کہتا ہے کہ میری آنکھوں میں آنسو نظر نہیں آنے چاہئے کیونکہ یہ کمزوروں کی نشانی ہوتی ہے ۔ وہ مجھے مرد بننے کا مشورہ دیتا ہے جن کے دل پتھر کے ہوتے ہیں اور جو آنسو نہیں بہاتے ۔
ایسے میں میرے اندر کا وہی بچہ نہ جانے کہاں سے نمودار ہوتا ہے جس کے ہونٹوں پر وہی ایک معصوم مسکراہٹ ہوتی ہےلیکن مجھے اس مسکراہٹ میں معصومیت سے زیادہ ایک طنز نظر آتا ہے ۔ وہ مجھے اس بوڑھے کھوسٹ سے دور رہنے کا اشارہ کرتا ہے ۔ میری مشکل یہ ہے کہ مجھے ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے ۔
میں بچہ بن کر رہنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے دل کی بات کسی مصلحت کے بغیر کہہ سکوں ، میں کسی شعر کو سن کر رونا چاہتا ہوں ، میں کسی لطیفے پر دل کھول کر قہقہے لگانا چاہتا ہوں ۔ میری خواہش ہے کہ جب میں کوئی مووی دیکھ کر رونے لگوں تو مجھ پر ہنسے والا کوئی نہ ہو ۔ اور اگر کوئی ہنسے بھی تو مجھے اس کی پرواہ نہ ہو ۔ میں اس بوڑھے اور بچے کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہوں ، شاید مجھے کسی سائکاٹرسٹ کی ضرورت ہے جو مجھے اس Multiple Personality Syndrome سے نکال سکے .

2 thoughts on “مجھے ایک سائیکاٹرسٹ کی ضرورت ہے ۔

  • 05/08/2016 at 4:31 am
    Permalink

    یہ بچہ زندگی کی علامت ہے

    Reply
  • 06/04/2014 at 2:17 am
    Permalink
    Every one has a child inside. Some brings it out some can’t.
    Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.