باادب با ملا حظہ

با ادب با ملا حظہ

رات کے بارہ بج چکے تھے۔ کھانے پینے کا سلسلہ تھم چکا تھا۔ مہمان بھی رخصت ہوچکے تھے اب وہاں ان کے نزدیکی رشتہ داروں اور کچھ بے تکلف دوستوں کے سوا کوئی نہیں تھا۔ دوست آپس میں خوش گپیاں کرنے کے ساتھ اسے بھی چھیڑنے میں مصروف تھے۔ کچھ دیر پہلے تک اس کا سراپا پھولوں کے ہار سے لدا ہوا تھا جسے اب اس نے اتار کر ایک طرف رکھ لیا تھا۔ وہ بار بار موبائل کی گھڑی پر نظریں ڈال رہا تھا۔
اس کے کان زنان خانے کی طرف لگے ہوئے تھے جہاں سے خواتین اور بچّوں کی مسلسل آوازیں آرہی تھیں۔ ان آوازوں میں کبھی خواتین کے بلند قہقہے بھی شامل ہو جاتے۔ اسے اپنی بہنوں کی طرف سے بلاوے کا انتظار تھا تاکہ شادی کی آخری رسومات ادا ہو سکیں۔ آج وہ زندگی کی نئی شروعات کرنے جارہا تھا۔ آج اس کی شادی تھی۔ وہ خوش اور مطمئن تھا۔ وہ اپنی دلہن کے بارے میں سوچنے لگا جسے وہ ابھی تک جی بھر کر دیکھ بھی نہیں پایا تھا۔ ان کی طرح دلہن کے گھر والے بھی روایت پسند تھے۔ ویسے دلہن اس کے اور اس کے گھر والوں کے معیار کے عین مطابق تھی۔ باپردہ اور شریف خاندان کی۔ وہ خود بھی ایک شریف خاندان کا فرد تھا۔
اس کے خاندان میں پردے کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ بہنیں ماشاء اللہ باپردہ خاندانوں میں بیاہی گئی تھیں۔ چونکہ والدین کا خیال تھا کہ بچیاں جلد ہی جوان ہو جاتی ہیں اس لئے ان کی شادیاں بھی جلد ہی کرا دی گئیں تھیں۔ انہیں پرائمری کے بعد مزید پڑھنے بھی نہیں دیا گیا تھا۔ بڑا بھائی شادی کے ایک سال بعد ہی بیوی کو طلاق دے چکا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ بھابھی پردہ نہیں کرتی تھی۔ اس کا ہر ایک کے سامنے بے دھڑک آنا کسی کو پسند نہیں تھا۔ ویسے بھی وہ ضرورت سے کچھ زیادہ پڑھی لکھی تھی۔ جب اس کی شادی ہوئی تو وہ بی اے کر رہی تھی۔ اس کے سر پر دوپٹہ ٹکتا ہی نہیں تھا۔ چونکہ بھائی اور دیگر گھر والوں کو یہ ہرگز پسند نہیں تھا اس لئے اسے ہمیشہ سب کی صلواتیں سننا پڑتیں۔ حالانکہ وہ بہت سگھڑ اور ہر ایک کا خیال رکھنے والی تھی۔
معاملہ توتکار سے بڑھ کر لڑائی جھگڑوں اور مارپیٹ تک جا پہنچا تو بڑوں نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں کا مزید ساتھ رہنا ممکن نہیں لہٰذا مولوی کو بلایا گیا اور ان کی طلاق کروادی گئی۔ اس کی شادی کی باری آئی تو خاندان بھر کے لوگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ طے پایا کہ اب کی بار کسی شریف اور پردے کے پابند خاندان سے رشتہ لیا جائے تاکہ بڑے بھائی والا واقعہ نہ دہرانا پڑے۔ بھاگ دوڑ شروع ہوگئی۔ رشتہ کرانے والی خالہ سے بھی مشورہ کیا گیا۔ مہینے بھر بعد ایک لڑکی کے نام پر سب کا اتفاق ہوا۔
وہ ایک شریف باپردہ خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ کچھ لوگوں کے ذریعے محلّے والوں سے لڑکی اور ان کے گھر والوں کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی تو پتہ چلا کہ وہ کچھ عرصہ پہلے ہی وہاں شفٹ ہوئے تھے۔ وہ اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ تھے اور کسی سے ان کا زیادہ میل ملاپ بھی نہیں تھا۔ لڑکی پردے کی سخت پابند تھی۔ کہیں آتے جاتے مضبوطی سے نقاب اوڑھے رکھتی تھی اس وجہ سے اس کا چہرہ بھی شاید ہی کسی نے دیکھ رکھا تھا۔ لڑکی کی شرافت کی مکمل تصدیق ہوگئی تو رشتہ ڈالا گیا۔ لڑکی کافی خوبصورت نکلی۔ گھر میں ضرورت کی ہر چیز میسر تھی جو ان کے ذوق اور آسودگی کا پتہ دیتی تھی۔ لڑکی کے ابو کچھ عرصہ پہلے وفات پا چکے تھے لیکن جاتے جاتے ان کے لئے کافی کچھ چھوڑ گئے تھے۔ گھر میں ان دونوں کے علاوہ ایک چھوٹا بھائی تھا جو نزدیک ہی ایک سکول میں پڑھ رہا تھا۔ اگرچہ ان کی امی کچھ تیزو طرار قسم کی نظر آئی لیکن انہیں تو لڑکی کا رشتہ چاہئے تھا سو کچھ ملاقاتوں کے بعد رشتہ طے پاگیا۔
رشتہ چونکہ ہر لحاظ سے ان کے معیار کے مطابق تھا لہٰذا جھٹ منگنی ہوئی اور پٹ بیاہ ہوا۔ اس دوران ان دونوں کو ایک دوسرے کو دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔
وہ انہی خیالوں میں گم تھا جب کسی نے اس کا شانہ تھپتھپایا۔ بالآخر زنان خانے سے اس کے لئے بلا وا آ ہی گیا گیا۔ وہ دوستوں کے جلو میں شرماتے لجاتے وہاں پہنچا تو عورتوں کی بھیڑ دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ بہن نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دلہن کے پہلو میں بٹھادیا۔ دلہن سمٹی ہوئی بیٹھی تھی۔ اس نے آنکھیں گھما کے اس کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کی لیکن گھونگھٹ کی وجہ سے وہ اس کی شکل نہیں دیکھ پایا۔ بقایا رسومات پوری ہوئیں تو وہ ایک بار پھر دوستوں کے ساتھ مردانے میں چلا آیا۔ دوست اسے مزید چھیڑنے کہ موڑ میں تھے لیکن آخر کار انہیں بھی ایک ایک کرکے رخصت ہونا پڑا۔
سارے مہمان جا چکے تو اس کے ابو اور بھائی اسے لیکر گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ اس کی ماں اور بہنیں اس کی دلہن کو ساتھ لیکر پہلے ہی گھر جا چکی تھیں۔ ان کی گاڑی گھر پہنچی تو ماں، بہنوں اور کچھ دیگر رشتہ داروں کو اپنا منتظر پایا۔ سب نے ایک بار پھر اسے شادی کی مبارک باد دی اور مستقبل کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔
رات گئے وہ اپنے کمرے میں آیا تو اس کی دلہن گھونگٹ اوڑھے بستر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے دروازے کی کنڈی لگائی اور بستر کے کنارے بیٹھ گیا۔ اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا تو لگا جیسے حلق خشک ہورہا ہو۔ وہ اُٹھا اور پاس پڑی چھوٹی میز پر رکھے جگ سے گلاس میں پانی انڈیلا۔ ابھی وہ کوئی گھونٹ لینے ہی والا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ حیران ہوا۔ اس وقت کون ہو سکتا ہے؟ وہ گلاس میز پر رکھ کر دروازے کی طرف بڑھا تو ہڑ بڑاہٹ میں اس کا پاؤں میز سے ٹکراگیا۔ کمرے میں ایک آواز گونجی۔ وہ دروازہ کھول کے ہاہر نکلا تو اس کی بہن ہاتھوں میں ایک ٹرے لئے کھڑی تھی جس پر دودھ سے بھرے دو گلاس رکھے تھے۔
“میں یہ دودھ رکھنا بھول گئی تھی” بہن نے سرگوشی میں کہا اور مسکراتے ہوئے واپس پلٹ گئی۔ ٹرے لئے وہ واپس مڑا۔ دروازہ بند کرکے اس نے ایک ہاتھ سے دوبارہ کنڈی لگائی اور ٹرے چھوٹی میز پر رکھا۔ دونوں گلاس اٹھا کے وہ بیڈ کی طرف مڑا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دلہن بیڈ پر موجود نہیں تھی۔ ایک لمحے کے لئے پریشان ہوا۔ پھر کچھ سوچ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ دودھ کے گلاس دوبارہ میز پر رکھ کر وہ غسل خانے کی طرف بڑھا۔ دستہ گما کے اس نے دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا تو دروازہ کھل گیا۔ غسل خانے میں کوئی نہیں تھا۔ اس نے کھڑکی پر لگے پردوں کے پیچھے بھی جھانکا لیکن دلہن نظر نہیں آئی۔ وہ پریشان کھڑا تھا کہ اسے بیڈ کے نیچے کچھ ہلچل سی محسوس ہوئی۔ نیچے جھانک کر دیکھا تو دلہن سہمی سمٹی لیٹی ہوئی تھی۔ گھونگھٹ چہرے سے سرک چکا تھا اور خوبصورت چہرے پر پسینے کے ننھے قطروں کے ساتھ  پریشانی کے آثار نظر آرہے تھے۔ اس نے اسے بازو سے پکڑ کر باہر نکالا۔ وہ لمبی سانسیں لیتی ہوئی بیڈ کے کنارے بیٹھ گئی۔
کیا ہوا بیڈ کے نیچے کیوں چھپی ہوئی تھی؟ اس نے لہجے میں پیار بھر کر پوچھا۔
دلہن نے کمرے پر ایک نظر دوڑائی، دروازے پر لگی کنڈی کی طرف دیکھا اور اطمینان کی سانس بھرتے ہوئے کہنے لگی

“دراصل جب دروازے پر دستک ہوئی تو میں سمجھی کہ شاید پھر چھاپہ پڑ ا ہے”

One thought on “باادب با ملا حظہ

  • 06/04/2014 at 2:28 am
    Permalink
    Its 2:00 am and i could not stop myself laughing after reading it.
    Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.