ہزارہ قتل عام ۔ چوتھی قسط
ہزارہ قتل عام (چوتھی قسط) Proxy War continues
پاکستان میں فرقہ واریت کے نام پر جاری سعودی ایران پراکسی جنگ کو سمجھنے کے لئے لازمی ہے کہ اس ٹرائیکا کے تاریخی تعلقات اور پالیسیوں پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے ۔ ۔ سید احمد ارشاد ترمزی آئی ایس آئی کے ایک سابق ڈائریکٹر رہے ہیں ۔ سعودی عرب کی پاکستان اور شیعوں سے متعلق پالیسی کو انہوں نے اپنی کتاب “حساس ادارے” ( پروفائلز آف انٹیلیجنس ) کے صفحہ 268 پر ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ “اپنے عقیدے اور مسلک کے حوالے سے شیعوں کے ساتھ سعودی عرب کی دوستی اور جذبات ہمیشہ کچھ سرد رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ہر حکومت نے اسے ایک غیر تحریری قانون اور قومی پالیسی کا حصہ سمجھا ہے کہ جہاں تک ممکن ہوں سعودی عرب کے پاکستانی سفارتخانے میں کسی شیعہ کو تعینات نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی شیعہ فوجی کو تربیت یا کسی اور فوجی مشق کے لئے وہاں بھیجا جائے” ۔
سعودی حکمران پاکستان کو مٹھی میں رکھنے کی خاطر انہیں وقتاَ فوقتاِ امداد بھی دیتے رہتے ہیں جو بعض اوقات اربوں روپے کی تیل کی شکل میں ہوتا ہے ۔ یہی پالیسی ایران کی بھی ہے ۔ 1998 میں جب نواز حکومت نے چاغی میں ایٹمی دھماکے کئے اور نتیجے میں پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی تو ایران وہ واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے تمام بین القوامی قرضے ادا کرنے اور پاکستان کی ہر ممکن امداد کی پیشکش کی ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پیشکش دراصل اس ڈیل کا حصہ تھی جس کے مطابق پاکستان ایران کو ایٹمی ٹیکنالوجی مہیا کرنے کا پابند تھا جبکہ بدلے میں ایران نے افغانستان کے مرکزی اور شمالی علاقوں پر طالبان کے قبضے کے لئے پاکستان کی معاونت کا وعدہ کر لیا تھا ۔ یادرہے کہ پاکستان نے اپنا ایٹمی دھماکہ مئی 1998 میں کیا جس کے صرف تین مہینے بعد یعنی اگست 1998 میں مزار شریف پر طالبان کا مکمل قبضہ ممکن ہوسکا ۔ اس حملے میں صرف دو دنوں کے دوران تقریباَ آٹھ ہزار ہزارہ مرد ، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا گیا ۔ 8 اگست کو جب طالبان مزار شریف میں واقع ایرانی کونسلیٹ پہنچے تو انہوں نے ایرانی خبر رساں ادارے ” ارنا ” کے ایک نمائندے کے علاوہ نو ایرانی سفارت کاروں کو بھی ہلاک کر دیا ۔ اس واقعے کے بعد ایرانی رہنماء ہاشمی رفسنجانی نے پاکستان سے گلہ کرتے ہوئے بیان دیا کہ ” قرار نبود اینجوری بشہ ” (معاہدے میں یہ شامل نہیں تھا) ایران نے اس واقعے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جبکہ پاکستان نے اس کی ذمہ داری ایک ایسے گروہ پر ڈال دی جو طالبان کا ہمنوا لیکن پاکستان اور ایران کے اچھے تعلقات کا مخالف تھا ۔ بعد میں یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ان ایرانیوں کے قتل میں لشکر جھنگوی ملوث تھا جو پاکستان اور ایران میں بڑھتی حالیہ قربتوں کے خلاف تھا ۔
پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا پر ایسی تحقیقی رپورٹس کثرت سے شائع ہوتی رہی ہیں جن کے مطابق سعودی عرب اور ایران پاکستان میں اپنے منظور نظر گروہوں کی مالی معاونت کر رہی ہیں ۔ اگر ایک طرف وکی لیکس کے مطابق سعودی عرب اور خلیج کی دیگر عرب ریاستیں جنوبی پنجاب کے سینکڑوں وہابی مدرسوں کو سالانہ کروڑوں ڈالر امداد دے رہی ہیں تو ایران بھی اپنے حامی شیعہ گروہوں کی دل کھول کر امداد کرنے میں مصروف ہے ۔
یہ دونوں ممالک جنہوں نے بزعم خود مسلمانوں کے سنی اور شیعہ فرقوں کی رہنمائی کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے تیل کی دولت سے مالا مال ہیں ۔ حج اور زیارات کی مد میں انہیں جو آمدنی ہوتی ہے وہ ان کے علاوہ ہے جن کا ریکارڈ کہیں دستیاب نہیں ۔ ایسی داستانیں عام ہیں جن کے مطابق سعودی حکمرانوں کے اربوں ڈالر امریکی معیشت کو سہارا دئے ہوئے ہیں ۔ ایسے قصّوں کی بھی کمی نہیں کہ کسی سعودی شہزادے نے کچھ گھنٹوں کی عیاشی پر کروڑوں ڈالر خرچ کئے ۔ ایک سعودی شہزادی نے تو سویٹزرلینڈ میں واقع ایک جائداد کو چھ کروڑ ڈالر میں خریدا ۔ انوکھے موبائل فون نمبر یا گاڑی کی نمبر پلیٹ کے حصول کے لئے ہی عرب شہزادے کروڑوں ڈالر کی بولی لگاتے ہیں ؟ دوسری جانب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای بھی 90 ارب ڈالر مالیت کے بزنس امپائر کے مالک ہیں ۔ ایسے میں اگر وہ اپنے سیاسی و ملکی مفادات کے حصول اور علاقے میں اپنا اثرو نفوز بڑھانے کی خاطر کچھ کروڑ ڈالر لٹا بھی دیں اور کچھ ہزار معصوم لوگوں کا خون بہا بھی دیں تو ان کی صحت پر کیا فرق پڑ سکتا ہے ؟
یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ پاکستانی شیعوں میں دو طرح کے مقلدین ہیں ۔ ایک وہ جو عراقی علماء یا مرجعین کی تقلید یا پیروی کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو ایرانی مرجعین کے مقلد ہیں ۔ عراقی ملّاؤں یا مرجعین کے پیروکار سیاست سے عموماَ دور رہے ہیں اور ان کی تمام توجہ درس اور تدریس پر رہی ہے ۔ ان کے برعکس جو شیعہ ملّا ہمیں سیاست میں ملوث نظر آتے ہیں یہ وہی ہیں جو ایرانی ملّاؤں کی تقلید کرتے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر کئی ایسے ہزارہ ملّاؤں کو جانتا ہوں جو عراق سے پڑھ کر آئے تھے لیکن ایرانی انقلاب کے بعد جب وہاں کے رہنماؤں نے اپنا انقلاب دیگر ممالک میں برآمد کرنے کا آغاز کیا اور دولت کی ریل پیل ہونے لگی توان ملاؤں نے بھی اپنا قبلہ تبدیل کر لیا اور ایرانی رہنماؤں کی تصاویراٹھاکرانقلاب کے” ثمرات ” سمیٹنے میدان سیاست میں کود پڑے ۔
ان کے برعکس نجف سے تعلیم حاصل کرکے آنے والے کئی ایسے ہزارہ ملّا آج بھی بقید حیات ہیں جو کبھی کسی سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنے اور ہمیشہ درس و تدریس سے ہی منسلک رہے ۔ انہوں نے کبھی ایرانی رہنماؤں کی تصاویر کو ڈھال بنانے کی کوشش نہیں کی کی جبکہ ایران پلٹ ملّاؤں نے نہ صرف ہمیشہ خمینی ، خامنہ ای اور رفسنجانی کی تصویروں کو اپنے سروں پر آویزاں کئے رکھا بلکہ لبنانی شیعہ رہنماء حسن نصراللہ کو پاکستانی عوام میں متعارف کرا نے کا سہرا بھی انہیں کے سر جاتا ہے جو خود لبنان میں ایک ایرانی پراکسی کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ اگربات مذہب اور عقیدے کی ہوتی تو شاید پاکستان کے یہ شیعہ علماء عراق کے مرجعین کا بھی اتنا ہی احترام کرتے جتنا ایرانی رہنماؤں کا کرتے ہیں لیکن جس طرح ان کے جلسے جلوسوں ، بیانات اور کردار سے واضح ہے وہ مذہب کو محض ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کا بنیادی مقصد ایرانی مفادات کی تکمیل ہے ۔
اس سلسلے میں یوم القدس کی مثال دی جا سکتی ہے جو ایک خالصتاَ ایرانی سیاسی ایجنڈا ہے ۔ یہ دن آیت اللہ خمینی کے اس فرمان کے تحت منایا جاتا ہے جو انہوں نے 1979 میں دیا تھا ۔ تب فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ زوروں پر تھی اور فلسظینی عوام اپنے ملک کی آزادی کی خاطر اسرائیل سے پرسر پیکار تھی ۔ اس دن کو منانے کا مقصد فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ سے یکجہتی کا اظہار تھا ۔ آج اس واقعے کو 35 سال گذرچکے ہیں اور فلسطینی عوام ایک عشرے سے ہتھیار پھینک کر اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں ۔ لیکن چونکہ ایران اس مسئلے کو ایک سیاسی ایجنڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے اس لئے ہر سال یوم القدس کے موقع پر نہ صرف لاکھوں افراد ایران کی سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کرتے ہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں بھی کچھ مخصوص لوگ یہ دن منا کر ایران سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بھی کچھ گنتی کے ایسے لوگ وجود رکھتے ہیں جنہوں نے اسے ایک مذہبی تہوار کا درجہ دے رکھا ہے اور اسے ثواب کے حصول کا ایک آسان زریعہ بتاکر لوگوں کے عقاید سے کھلواڑ کرتے ہیں ۔
2010 میں کوئٹہ کے میزان چوک پر یوم القدس کےایک ایسے ہی جلوس پر خود کش حملے میں سو سے زاید افراد ہلاک ہو گئے تھے جن کی اکثریت ایسے ہزارہ جوانوں پر مشتمل تھی جنہیں جمعہ کی نماز کے بعد بہلا پھسلا کر جلوس میں شامل کیا گیا تھا ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ خود کش حملہ کرنے والا لشکر جھنگوی کا دہشت گرد بھی جنت کا متلاشی تھا جبکہ بے خبری میں اس دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کو بھی جنت کی بشارت دی گئی تھی ۔ حد تو یہ کہ اس واقعے کے عاملین آج بھی اپنے کردار پر شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے فخر کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں ۔ یاد رہے کہ فلسظینی صدر محمود عباس خود بھی چند سال قبل ایران سے برملا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کے بجائے اپنی حالت بہتر بنانے پر توجہ دیں ۔
ہزارہ قوم کے قتل عام میں ملوث لشکر جھنگوی اور جیش الاسلام جیسے گروہ اور میڈیا میں ان کے بھونپو کا کردار ادا کرنے والی تنظیم اہل سنت والجماعت کئی بار یہ کہہ چکی ہے کہ ان کی ہزارہ قوم سے کوئی دشمنی نہیں بلکہ وہ ان لوگوں کے مخالف ہیں جو ایران سے تربیت حاصل کر کے آتے ہیں یا جو گستاخانہ لٹریچر کی چھپائی میں ملوث ہیں ۔ لیکن وہ ایک بھی ایسی مثال دینے سے یکسر قاصر ہیں جس سے ثابت ہوں کہ آج تک ہونے والے دہشت گردی کے کسی واقعے میں کوئی ہزارہ ملوث پایا گیا ہو ؟ کوئی ایسا لٹریچر بھی دستیاب نہیں جس کی تحریر یا چھپائی میں کسی ہزارہ کا ہاتھ ہو ؟ بلکہ سب بخوبی جانتے ہیں کہ فرقہ واریت پر مبنی مواد چاہے وہ کسی بھی فرقے کے خلاف ہوں زیادہ تردوسرے صوبوں خصوصاَ پنجاب کے چھاپ خانوں سے چھپ کر نکلتے ہیں ۔ ایسے میں بے دردی سے ہزارہ قوم کے قتل عام سے ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اس پراکسی جنگ میں ملوث دونوں گروہ مذہب کا نام استعمال کرکے اور ہزارہ قوم کا خون بہاکر دراصل اپنے سرپرستوں کے عزائم کی تکمیل میں مصروف ہیں ۔
سابقہ دور حکومت میں ایک موقع پر وزیر داخلہ رحمان ملک نے کابینہ کو بتایا تھا کہ پاکستان با الخصوص کوئٹہ میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں دو دوست اسلامی ممالک ملوث ہیں ۔ جب اس موضوع پر وزیر خارجہ حنا ربّانی کھر سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے رحمان ملک کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ سفارتی آداب اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم ان دوست اسلامی ممالک کا نام لیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ 2001-2002 میں جب پرویز مشرف نے فرقہ پرست دہشت گرد گروہوں پر پابندی لگائی تھی تو اخباری رپورٹوں کے مطابق تب بھی ان پر ” ہاتھ ہلکا رکھا گیا تھا ” کیوں کہ ان کے” سرپرست دوست اسلامی ملکوں ” کی ناراضگی کا خدشہ تھا ۔
اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی اٹھارہ کروڑ آبادی میں ہزارہ قوم کا تناسب صفر اعشاریہ دو فیصد (0.2٪) ہے جبکہ شیعیوں کی آبادی 20 سے 25 فیصد بتائی جاتی ہے ۔ شیعوں کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں آباد ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔ گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران کوئٹہ میں چودہ سو سے زائد ہزارہ دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں جو ان کی قلیل آبادی کے لحاظ سے ایک بہت بڑی تعداد ہے ۔ اگر گزشتہ پندرہ سالوں کا ریکارڑسامنے رکھا جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلی ایک دہائی میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات بلوچستان میں ہوئے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے اس لحاظ سے یہاں شیعوں کی آبادی بھی سب سے کم ہے جبکہ قتل عام کے ان واقعات کا شکار بننے والوں میں سے نوّے فیصد سے زیادہ کا تعلق ہزارہ قوم سے تھا جن میں ایک بڑی تعداد عورتوں اور بچّوں کی تھی ۔
میں پہلے ہی اس بات کا تذکرہ کر چکا ہوں کہ 1999 میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی اس پراکسی جنگ کو ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت پنجاب سے بلوچستان منتقل کیا گیا ۔ اس منصوبے میں کون سی قوتیں شامل تھیں؟ اگست 2006 میں نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کے بعد ہزارہ قتل عام میں کیوں تیزی آئی ؟ اور اس بے رحمانہ قتل عام کے پیچھے حکومتی اداروں کا کتنا ہاتھ ہے ؟ ان موضوعات پر اگلی قسط میں بات کرنے کی کوشش کروںگا ۔
دوستوں کی آراء کا انتظار رہے گا ۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں ۔
3 thoughts on “ہزارہ قتل عام ۔ چوتھی قسط”