دخل نسب
دخل نسب (دخل در معقولات )
1- ایک مکان کی تعمیر ہورہی ہے ۔ مزدور اپنے کام میں جتے ہیں ۔ ٹھیکیدار ایک فلم ڈائریکٹر کی طرح ہر ایک کو اس کا کام سمجھانے میں مصروف ہے ۔ ایسے میں ایک راہ چلتا آدمی چلتے چلتے رک جاتا ہے ۔ ایک نظر مزدوروں پر ڈال کر وہ ٹھیکیدار کے پاس جا کھڑا ہوتا ہے ۔
نقشہ کس سے بنوایا ؟ سیمنٹ کس کمپنی کی ہے ؟ اینٹیں کہاں سے منگوائیں ؟ کھڑکیاں اور دروازے کس مٹیریل کے ہیں ؟
پھر مشوروں کی پٹاری کھول کے کہنے لگتا ہے کہ اگر آپ ایسا کرنے کے بجائے ویسا کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا ۔
ٹھیکیدار پوچھنے لگتا ہے ” کیا آپ تعمیرات کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں ؟ ” جواب ملتا ہے ” نہیں پہلے میں ایک موچی تھا ، اب کافی عرصے سے بے روز گار ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2- چلتے چلتے آپکی موٹر سائیکل بند ہوجاتی ہے ۔ کئی ککس لگانے کے بعد بھی جب وہ سٹارٹ نہیں ہوتی تو آپ نیچے اتر آتے ہیں ۔ آپ پلگ نکالنے میں مصروف ہیں اور آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ ارد گرد کافی بھیڑ جمع ہو چکی ہے ۔
” پیٹرول تو ختم نہیں ہوا ” ؟ ایک آواز آتی ہے “
ٹنکی فل ہے ” آپ جواب دیتے ہیں ۔
” پھر تو کاربوریٹر میں کوئی مسئلہ ہوگا ” ایک اور آواز آتی ہے ۔
” نہیں یار دھوتے وقت انجن میں پانی چلا گیا ہوگا ” ایک اور ایکسپرٹ اوپینین (Expert opinion) آتا ہے ۔
” دراصل اس کمپنی کی ٹیکنالوجی ہی ناکام ہے ” ایک بندہ کہہ اٹھتا ہے ۔
” کیا آپ کوئی میکینک ہیں” ؟ آپ پوچھتے ہیں ۔
” نہیں میں پاس والے تندور میں روٹیاں لگا تا ہوں ” جواب آتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3- وہ گزشتہ دس سالوں سے ایک پیچیدہ بیماری کا شکار تھا ۔ لاکھوں روپئے خرچ کرنے اور درجنوں ڈاکٹروں سے علاج کے بعد بمشکل اس قابل ہوا تھا کہ خود لاٹھی ٹیک کر چند قدم چل سکے ۔ ڈاکٹر نے اسے باقاعدگی سے واک کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ لیکن وہ جب بھی باہر نکلتا تو کوئی بندہ سامنے کھڑا ہو جاتا ۔
” کیا ہوا ؟ یہ مسئلہ کب سے ہے ؟ کس سے علاج کروایا ؟ فلاں ڈاکٹر سے ملے ؟ میری بات مانو تو فلاں عامل سے کوئی تعویز لے لو”
سنا ہے کہ اب وہ شخص گھر سے باہرہی نہیں نکلتا اور گھر کے اندر ہی ایک Treadmill پر واک کرنے کو ترجیح دیتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4- تمھاری بیٹی کیسی ہے ؟ کیا کبھی فون بھی کرتی ہے یا سب کچھ بھول بھال گئی ہے ؟خاتون نے خالہ سے پوچھا ۔
ارے نہیں وہ ہفتے میں ایک بار ضرور فون کرتی ہے ۔ بہت خوش ہے اور اچھی زندگی گزار رہی ہے ۔ خالہ نے کہا ۔
لیکن میں نے تو سنا ہے کہ تمھارا داماد ایک نمبر کا لفنگا ہے اور شراب بھی پیتا ہے پھر ان کا گزارہ کیسے ہوتا ہوگا؟ خاتون نے پوچھا ۔
مجھے تو بس اتنا ہی معلوم ہے کہ وہ خوش ہیں اور میری بیٹی نے کبھی کسی بات کی شکایت نہیں کی ۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تمھاری بیٹی کیسی ہے ؟ وہ بھی اپنے گھر میں خوش ہوگی ؟ کیوں کہ تمھارا داماد تو ماشاء اللہ بڑا ہی سلجھا ہوا اور نیک لڑکا ہے ۔ خالہ نے پوچھا ۔
میری بیٹی کو طلاق ہوگئی ہے اور وہ دس دنوں سے میرے ہاں ہے ۔ یہ کہہ کر خاتون اٹھنے لگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5- فٹبال کا میچ ہورہا تھا ۔ دونوں ٹیمیں جیتنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی تھیں ۔ تماشائیوں کا جوش و خروش بھی دیدنی تھا ۔ ایسے میں ایک تماشائی کچھ بڑھ چڑھ کر بول رہا تھا ۔ کبھی وہ مٹھیاں بھینچتا تو کبھی کسی کھلاڑی کی شان میں کوئی محترمانہ گالی صادر کرتا ۔ پاس بیٹھا ایک شخص جو کافی دیر سے اسے برداشت کرتا آرہا تھا بول اٹھا ۔
” یہ سارا دن مشق کرتے ہیں ۔ ان کی عمر گزر گئی ہے یہ کھیل کھیلتے ہوئے اور تم میدان کے باہر بیٹھ کر ان کو گالیاں دے رہے ہو ؟ کیا کبھی خود بھی فٹ بال کھیلی ہے ؟”
ناراض تماشائی نے اپنی ٹانگوں کی طرف اشارہ کر کے کہا ” میں تو چل بھی نہیں سکتا کیوں کہ مجھے بچپن سے پولیو ہے
بہت ہی عمدہ تحریر حسن چنگیزی صاحب آپ کی یہ تحریر بلکل حقیقت کی عکاسی کرتا ہے.