پاکستانی میڈیا اور صحافیوں کی پُھرتیاں
پاکستانی میڈیا اور صحافیوں کی پھرتیاں
دو پڑوسنیں آپس میں لڑرہی تھیں۔ آستینیں چڑھی ہوئی تھیں، منہہ سے جھاگ نکل رہا تھا اور ہاتھ نچا نچا کے ایک دوسرے کو کوسنے دے رہی تھیں۔ “ارے میں کوئی اندھی بہری نہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ دودھ والے کے ساتھ تمھارا کیا چکر چل رہا ہے”؟ایک نے دوسرے کے راز سے پردہ اُٹھاتے ہوئے کہا۔”تو تم کونسی دودھ کی دُھلی ہو۔ سبزی والا تمھیں روز سبزیاں ایسے ہی مفت میں تو نہیں دیتا”دوسری نے بھی دو بدو جواب دیا۔دونوں کی تکرار جاری تھی۔ ایسے میں گلی کا ایک شخص جو کافی دیر سے ان کی “ادبی” گفتگو سن رہا تھا اپنی بیوی سے بولا کہ تم جاکے انہیں روکتی کیوں نہیں؟ بیوی نے کہا “میں کیوں روکوں؟ ویسے بھی آج کھل کر دونوں کے کردار سے پردہ اٹھ رہا ہے”
پاکستانی میڈیا پر بھی آج کل یہی کچھ دیکھنے میں آرہا ہے۔ حامد میر پر کراچی میں ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد میڈیا خصوصاَ ٹی وی چینلز پر صحافی جس طرح ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے اور “پردہ چاک” کرنے میں مصروف ہیں اسے دیکھ کرہم جیسے بے خبر لوگوں کی معلومات میں بیش بہا اضافہ ہو رہا ہے۔ صحافی اور مختلف میڈیا گروپ اپنے مخالفین کو جس طرح غدار اور ملک دشمن قرار دے رہے ہیں اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ بھی پاکستانی سیاست دانوں کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔ ویسے بھی پاکستانی میڈیا کے بارے یہ تصورعام ہے کہ اس نے کبھی غیر جانبدار رہ کر اپنا کردار ادا نہیں کیا۔
مجھے یاد ہے جب میں ماس کمیونیکیشن کا طالب علم تھا تو ایک دن ہمارے استاد نے صحافتی اخلاقیات کے موضوع پر لیکچر دیتے وقت کہا تھا کہ “ایک صحافی کو ہمیشہ غیر جانبداررہنا چاہئے” لیکن ایک مختصر وقفے کے بعد خود ہی کہنے لگے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔میں آئندہ کئی برسوں تک یہ گھتی سلجھانے میں ناکام رہا کہ جب کسی نکتے پرعمل کرنا ممکن ہی نہیں تو اسے اخلاقیات میں شامل کیوں کیا گیا ہے اور درسگاہوں میں اس کی تعلیم کیوں دی جاتی ہے؟ تب ہمارے کچھ دوست مزاق میں یہ بھی کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں رشوت لینے کے معاملے میں اگرچہ پولیس سب سے زیادہ بدنام ہے لیکن یہاں کے صحافی اتنے “طاقتور” ہیں کہ پولیس بھی انہیں رشوت دینے پر مجبور ہے۔ ہم نے کبھی ان الزامات کو سنجیدہ نہیں لیا لیکن جب پرویز مشرف کے دور میں آئے روز نت نئے ٹی وی چینلز کھلنے لگے اور نیوز چینلز کا سیلاب امڈ آیا تو پاکستانی صحافت کے خد و خال بھی کھل کر سامنے آنے لگے اور وہ باتیں جو پہلے مزاق لگتی تھیں حقیقت دکھائی دینے لگیں۔اس سے قبل ہم جن صحافیوں کو محض ان کی تحریروں کے حوالے سے جانتے تھے اور اپنا آئیڈیل تصور کرتے تھے جب ٹی وی اسکرین پر جلوہ افروز ہوکر اپنے “کمالات” دکھانے لگے تو پتہ چلا کہ وہ ان تصورات سے بہت مختلف تھے جو ہم نے ان کے بارے میں تراش رکھے تھے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صحافی بھی اسی دنیا کے باسی ہیں اور ان کی بھی اپنی پسند و ناپسند ہوتی ہیں۔ اسی طرح دنیا بھر کے میڈیا گروپس بھی اپنا خاص ایجنڈا رکھتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے علاوہ طاقت اور اثر و رسوخ کا حصول ہمیشہ ان کی ترجیحات میں شامل ہوتے ہیں اور وہ ان مقاصد کے حصول کے لئے کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کے طریق کار میں ایک سلیقہ ہوتا ہے اور کسی قاری یا ناظر کو بہ مشکل ہی اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ صحافی کس طرح رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہا ہے.
پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں کے صحافی یہی کام اتنے بھونڈے طریقے سے انجام دیتے ہیں کہ انسان پہلی فرصت میں ہی یہ جان لیتا ہے کہ ان کا جھکاؤ کس طرف ہے اور اگر وہ ہاتھ دھو کر کسی کے پیچھے پڑے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح یہاں کے سیاستدان پارٹی تبدیل کرتے رہتے ہیں ویسے ہی صحافی بھی “چینل” تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ یعنی “اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے”۔ایسے صحافیوں کا نظریہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے کیوں کہ یہ زیادہ تر اپنے میڈیا گروپ کی پالیسی یا ایجنڈے کے تحت کام کرتے ہیں اس لئے چینل تبدیل کرنے کے بعد سیاستدانوں کی طرح ان کا بھی نہ صرف لہجہ تبدیل ہو جاتا ہے بلکہ ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں۔
میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ریاست کے تینوں بنیادی ستونوں (مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ) اور عوام کے درمیان نہ صرف رابطے کا کام کرتا ہے بلکہ ریاست کے ان تینوں ستونوں کی کارکردگی پر بھی نظر رکھتا ہے۔اس اہم کام کو انجام دینے کے لئے میڈیا کا غیر جانبدار رہنا ضروری ہے ۔ جبکہ ہمارے ہاں اکثر صحافیوں پر مراعات کے حصول کی خاطر حکمرانوں اور خفیہ اداروں کے لئے کام کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ جس صحافی کی اقتدار کے ایوانوں یا ریاستی اداروں تک جتنی زیادہ رسائی ہوتی ہے وہ اتنا ہی “باخبر” کہلاتا ہے۔
صحافیوں کو Opinion Leaders یا Opinion Makers اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ حالات و واقعات سے زیادہ آگاہی رکھنے کے باعث ان میں رائے عامہ پر اثر انداز ہو نے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔بد قسمتی سے پاکستان میں بعض میڈیا ہاؤسز اور نامور صحافی اپنی اسی خصوصیت کی بدولت اپنے آپ کو King Maker سمجھ بیٹھے ہیں۔ ان کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ جسے چاہے آسمان کی بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں اور جسے چاہے منہہ کے بل زمین پر پٹخ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب انہوں نے حکومتیں گرانے اور بنانے کا کام بھی سنبھال لیا ہے۔
میڈیا میں اس رجحان کو تقویت دینے میں حکمرانوں، ریاستی اداروں، سیاسی پارٹیوں اور نامور شخصیات کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا خود صحافیوں کا۔ 2013 کے میڈیا کمیشن رپورٹ میں میڈیا اور صحافیوں پر لگائے گئے الزامات میں یہ الزام سرفہرست ہے کہ؛ “میڈیا پر بہتر اور حسب منشاء کوریج حاصل کرنے اور مخالفین کے خلاف جھوٹی اور ہتک آمیز خبریں نشر کرنے کے لئے صحافیوں اور میڈیا پرسنز کو رشوت، لالچ اور ترغیبات دی جاتی ہیں۔” یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ پاکستانی میڈیا سے وابسطہ اکثر صحافیوں کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا کام نکالنے کے لئے عموماَ دھونس دھمکی اور بلیک میلنگ سے کام لیتے ہیں۔ حکومت اور ایجنسیوں سے پلاٹ، نقدی اور غیر ملکی دوروں کی مد میں مراعات کی وصولی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔
اپنے مخالف اور باغی صحافیوں اور اینکرز کے “راز طشت از بام” کرنے اور بوقت ضرورت ویڈیو کی شکل میں ان کے “اصل چہرے اور کرتوت” یو ٹیوب اور فیس بک پر اپ لوڈ کرنے کی مثالیں بھی عام ہیں۔اس صورت حال میں عوام یہ سوچ کر حیران ہیں کہ وہ یقین کریں بھی تو کس کی بات پر؟ان پر جو اپنے آپ کو محب وطن اور مخالف صحافیوں کو ملک دشمن، غدار اور بیرونی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں یا ان کی بات پر جو اپنے خلاف ہونے والے اقدامات کو حق گوئی، جرآت و بیباکی اور آزادی صحافت کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں۔ ابھی چند دنوں پہلے کی مثال لیجئے کہ بعض “با خبر” ٹی وی اینکرز جس طرح ہاتھ دھو کے حکومت کے پیچھے پڑے تھے اور جس انداز سے وہ شریف فیملی کے اثاثے اور بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات ٹی وی اسکرین پر دکھا رہے تھے انہیں دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے نواز حکومت کے خلاف ایک زبردست چارج شیٹ تیار کی جارہی ہے۔ لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کی توپوں کا رخ حامد میر اور جنگ گروپ کی طرف ہوگیا اور ٹی وی تبصروں اور اخباری رپورٹوں کے زریعے انہیں غدار اور ملک دشمن قرار دینے کے علاوہ یہ بھی انکشاف کیا گیا اسی جنگ گروپ نے لشکر جھنگوی کے ایک دہشت گرد کو صرف اس لئے اپنے ہاں ملازمت دی تھی تاکہ ولی بابر کو قتل کیا جاسکے۔
دوسری طرف حامد میر اور جنگ گروپ کا یہ کہنا کہ ” انہیں بلوچستان کا مسئلہ اجاگر کرنے کی سزا دی جارہی ہے” اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تمام تر دعوؤں کے باوجود پاکستانی میڈیا کو مکمل آزادی میسر نہیں۔ حالانکہ بلوچستان کی عوام کو ہمیشہ اس بات کی شکایت رہی کہ پاکستانی میڈیا نے بلوچستان کو کبھی اتنی اہمیت نہیں دی جس کی وہ حقدار ہے۔
بلوچستان کا موجودہ مسئلہ بھی کوئی نیا بلکہ اس کی ابتدا تب ہوئی تھی جب 2006 میں “نامعلوم جگہ سے فائر کرکے” بزرگ بلوچ رہنماء نواب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا تھا۔ تب تو پاکستانی میڈیا سے وابسطہ کسی “محب وطن اور جرآت مند” صحافی نے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس واقعے کو غلط اور ملک کے لئے نقصان دہ قرار دینے کی جسارت نہیں کی؟ بلکہ وہ تو اپنے ٹاک شوز میں اس واقعے کو نہ صرف حکومت کی رٹ برقرار رکھنے کے لئے درست عمل قرار دیتے تھے بلکہ اسے صحیح ثابت کرنے کی غرض سے پرویز مشرف کے وزراء کے منہ میں اپنے الفاظ بھی ڈال دیا کرتے تھے۔
پاکستانی میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ رویہ 2007 میں بھی دیکھنے میں آیا تھا جب اسلام آباد میں لال مسجد کا واقعہ ہوا تھا۔ سب کو یاد ہوگا کہ پہلے تو تمام ٹی وی چینلز کئی دنوں تک برقعہ پوش ڈنڈا بردار طالبات اور ماسک پہنے جدید اسلحے سے لیس طالب علموں کی مسلسل لائیو فوٹیج دکھا کر حکومت سے یہ سوال کرتے رہے کہ ملک کے دارالخلافہ میں حکومت کی رٹ کو چیلینج کرنے والوں کے خلاف آپریشن میں تاخیر کیوں کی جا رہی ہے؟ لیکن جب حکومت نے آپریشن کرکے لال مسجد اورجامعہ حٖفصہ کو ان شدت پسندوں سےآزاد کرالیا تو تقریباَ تمام پاکستانی میڈیا نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے حکومت کو درجنوں “معصوم بچیوں” اور بے گناہوں کا قاتل قرار دینا شروع کر دیا۔ جس سے عوام اس کنفیوژن میں مبتلا ہوئے کہ میڈیا کا رویہ آپریشن سے پہلے درست تھا یا اس کے بعد؟
میڈیا کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پرویز مشرف ہی کے دور میں جب پاکستان بھر بالخصوص کوئٹہ میں فرقے کے نام پر معصوم لوگوں کا بے دریغ خون بہایا جارہا تھا تب بھی کسی نڈر صحافی یا اینکر کو اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ اس موضوع پر اپنا کوئی ٹاک شو سجاتا. نہ ہی کسی باخبراور صاف گو صحافی نے فرقے کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں اور ان کے سرپرستوں کے بارے میں کبھی لب کشائی کی جرآت کی.
طالبان اور القاعدہ کو “مردان حُر” کا خطاب دینے والے اور اسامہ بن لادن کو مسلمانوں کا ہیرو قرار دینے والے بھی یہی پاکستانی صحافی تھے جن میں سے کئی آج بھی میڈیا پر آکر بڑی بیباکی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان مردان حُر کے طالبانی نظام کی تمنا کرتے ہیں جو معصوموں کے چیتھڑے پہلے اڑاتے ہیں اور جرم بعد میں بتاتے ہیں۔
آج بھی “دلیر اور جرات مند” صحافیوں کی دلیری اور جرآت کا یہ عالم ہے کہ طالبان اور ان کے اتحادی دہشت گردوں کے ہاتھوں شکار ہونے والے معصوم لوگوں کے قتل عام پر نہ صرف چھپ سادھے ہوئے ہیں بلکہ پھولے ہاتھ پاؤں اور اُڑی رنگت کے ساتھ اپنے لائیو پروگرام میں ان کی منتیں ترلے کرتے نظر آتے ہیں۔
اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح بھی ہماری اسی میڈیا کی ایجاد ہے جس کے مطابق افغانیوں کے گلے کاٹنے والے ‘اچھے طالبان’ ہیں جبکہ پلٹ کر ہمی کو میاؤں کرنے والوں کو ‘برے طالبان’ کہا جاتا ہے۔
جہاں تک لشکر جھنگوی جیسے گروہوں کا تعلق ہے تو شاید ان کے بارے میں ہمارے صحافی ابھی تک اس مخمصے کا شکار ہیں کہ انہیں دہشت گرد کہا جائے یا مردان حُر؟ کیوں کہ ہمارے یہ باخبر صحافی ابھی تک یہ نہیں جان پائے ہیں کہ لشکرجھنگوی “اپنوں” کا قتل عام کرتے ہیں یا “دشمنوں” کا؟
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ٹی وی چینلز کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد تفریحی چینلز کی ہے جن پر فلمیں، ڈرامے، موسیقی اور دیگر تفریحی پروگرام پیش کئے جاتے ہیں۔
نیوز چینلز کی تعداد بیس کے قریب ہے جو ناظرین تک سب سے پہلے اور سچی خبریں پہنچانے کے دعویدار ہیں لیکن ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور “مارکیٹ” پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی خاطر ان میں جو دوڑ لگی ہے اس میں اخلاقیات کی پامالی کا کسی کو غم نہیں۔
جب عوام کو “سب سے پہلے” سچی خبریں پہنچانے والوں کا یہ رویہ ہو تو ان کا کیا قصور جو ان خبروں پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں؟ کاش ہماری صحافت امریکہ اور مغربی ممالک کے معیار کی پیروی کرتی جو صحافت اور صحافتی اخلاقیات کے بانی ہیں۔اس کے برعکس ہم نقالی کرتے بھی ہیں تو انڈیا کی جسے ہم اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیتے ہیں۔ خبروں میں سنسنی خیزی اور ٹاک شوز میں بلا کر مہمانوں کی بے عزتی کروانا اور انہیں آپس میں دست و گریبان کرنے کا یہ انداز ہم نے انہیں سے تو سیکھا ہے ۔
لیکن اسی انڈیا میں ایسے بھی سرپھرے Investigative Journalists, اور ادارے ہیں جو جان ہتھیلی پر رکھ کر سچی خبریں ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ تہلکہ ڈاٹ کام کی مثال لیجئے جس نے 2002 میں ہندوستانی ریاست گجرات میں ہونے والے فسادات سے متعلق تحقیقی رپورٹ شائع کی تھی۔اگرچہ اس آن لائن ادارے کے کرتا دھرتا ہندو تھے لیکن انہوں نے جس دلیری سے ہندو انتہا پسند تنظیم بجرنگ دل کے مظالم اور وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے کردار کا پردہ چاک کیا تھا اسے یاد کرکے دل میں یہی خواہش ابھرتی ہے کہ کاش ہمارے دلیر اور حق گو صحافی بھی کبھی “مرغے لڑانے” کے بجائے قتل عام ہونے والے بے گناہ پاکستانیوں کے قاتلوں کا پیچھا کرکے ان کے چہرے بے نقاب کریں۔
نیوز چینلز کی بھرمار اور ناظرین کو چینل تبدیل کرنے کی سہولت میسر ہونے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صحافت کے معیار میں بہتری آتی اور مقابلے کی دوڑ میں آگے رہنے اور ناظرین کی نظریں اپنے چینل پر جمائے رکھنے کی خاطر خبروں کے معیار، ان کی صحت اور پیشکش کے انداز میں تبدیلی لائی جاتی، عوامی مسائل کو زیر بحث لاکر حکمرانوں کو عام پاکستانی کی مشکلات سے آگاہ کیا جاتا اور ملک کو انتشار اور بدامنی سے نکالنے کی خاطر رواداری، بھائی چارہ اور پر امن بقائے باہمی کے فروغ کے لئے پروگرام پیش کئے جاتے۔ لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے اور نیوز چینلز اپنی ریٹنگ بہتر بنانے اور زیادہ اشتہار حاصل کرنے کی خاطر جس سنسنی خیزی اور چٹ پٹی خبروں کا سہارا لے رہے ہیں اس نے ایک زمانے میں چھپنے والے شام کے اخبارات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
بعض چینل تو “بریکنگ نیوز” دیتے وقت ایسی دل دہلانے والی موسیقی (Signature Tune) نشر کرتے ہیں کہ انہیں سن کر ہی خون خشک ہونے لگتا ہے۔آٹو رکشے کے سائیلنسر اور گیس سلینڈر پھٹنے کی آواز کو بم دھماکہ قرار دیکر لوگوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کی داستانیں تو عام ہیں لیکن ان غلطیوں پر معزرت کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی حالانکہ پیمرا کے ضابطہ اخلاق کے مطابق غلط خبر نشر کرنے پر معزرت کرنا لازمی ہے۔
صبح کی نشریات پر نظر دوڑائیں تو یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ آپ کوئی نیوز چینل دیکھ رہے ہیں۔ بھڑکیلے لباس میں ملبوس خواتین و حضرات کی اوٹ پٹانگ حرکتیں، میک اپ ٹپس، کھانا پکانے کی ترکیبیں، بے سروپا باتیں، ناچ گانا، کھیل کود اور شور شرابہ. یاد رہے کہ پیمرا رولز 2009 کے تحت نیوز اور تفریحی چینل دو مختلف کیٹیگریز میں شمار ہوتے ہیں ۔ لیکن پاکستانی میڈیا کے کرتا دھرتاؤں نے نیوز چینلز میں بھی اتنا تنوّع ڈال دیا ہے کہ ان میں اور تفریحی چینلز میں زیادہ فرق باقی نہیں رہا۔
حقیقی واقعات کی ازسر نو ڈرامائی تشکیل (Re enactment) کے نام پر بھی نیوز چینل کا ایک بڑا حصہ مختص ہے۔ گو کہ یہاں اس کی گنجائش موجود ہے لیکن ان پروگراموں کے پیش کرنے کا انداز بھی ایسا ہی ہے کہ اکثر پر جھوٹ کا گمان ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے محض چینل کا پیٹ بھرنے کی کوشش ہو رہی ہو۔
اسی طرح معاشرے کی برائیوں کو بے نقاب کرنے کے نام پر جس طرح لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں بے جا مداخلت کی جاتی ہے اس میں بھی زور زبردستی، دھونس دھمکی، بلیک میلنگ اور سنسنی خیزی کا عنصر واضح دکھائی دیتا ہے۔ بعض ایسے پروگراموں میں میزبان کا رویہ اکثر پولیس افسران جیسا ہوتا ہے جو لوگوں کو باقاعدہ ہتھکڑی لگانے کے احکامات دیتے نظر آتے ہیں۔2012میں ایسے ہی ایک پروگرام کی خاتون میزبان کو عوام کے شدید احتجاج کے بعد ایک نیوز چینل سے اس وجہ سے برطرف کیا گیا تھا کہ وہ شو کے نام پر لوگوں کی ذاتی زندگی میں دخل در معقولات کرتی پھرتی تھی۔مذکورہ خاتون جو ایک سابق اداکار رہ چکی ہیں نے بعد میں اس بات کا برملا اعتراف بھی کرلیا تھا کہ دراصل ان کا شو حقیقت کے نام پر ایک ایسا ڈرامہ تھا جس میں معاوضے کے عوض شوقیہ اداکاروں سے کام لیا جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سکینڈل کے باوجود موصوفہ زیادہ دنوں بیکار نہیں بیٹھی رہیں بلکہ جلد ہی ایک اور نیوزچینل پر ملازمت مل گئی جہاں وہ آجکل جن بھوتوں، چڑیلوں اور عاملوں کے درمیان کُشتی کے براہ راست مقابلے کروارہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کبھی اس بات کا بھی انکشاف ہو کہ ان جن بھوتوں اور چڑیلوں کو بھی ان کی پرفارمنس کے بدلے باقاعدہ معاوضہ دیا جاتا ہو۔
ایک اور رجحان جو کم و بیش ہر نیوز چینل پر دیکھنے میں آرہا ہے وہ ہے جُگتوں پر مبنی پروگرام کا۔ ان پروگراموں پر اسٹیج کے اداکاروں کا قبضہ ہے جو جُگتیں کرنے میں ماہر ہیں۔ جو بات ان سب پروگراموں میں مشترک ہے وہ ہے ان میں استعمال ہونے والی پنجابی زبان جسکا سمجھنا باقی صوبوں کے لوگوں کے لئے اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ان پروگراموں کو دیکھ کر دوسرے صوبوں کے عوام کا یہ سوچنا فطری ہے کہ میڈیا کی زیادہ توجہ پنجاب پر ہے جہاں سے انہیں زیادہ اشتہارات ملتے ہیں۔
سوال پھر وہی کہ نیوز چینل پر ایسے پروگراموں کی کتنی گنجائش ہو سکتی ہے؟ خصوصاَ ان اوقات میں جب لوگ کسی دلخراش واقعے کے بارے میں جاننا چاہ رہے ہوں اور چینل پر قہقہے لگ رہے ہوں۔
اب زرا بات ہوجائے پرائم ٹائم کی جس کی ٹیلی ویژن پر سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ اسکا دورانیہ عموماَ رات آٹھ سے گیارہ بجے تک ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب تمام نیوز چینلز اپنے اہم ترین پروگرام پیش کرتے ہیں۔ اس دوران ٹاک شوز کے علاوہ تبصروں اور تجزیوں کے پروگرام بھی نشر کئے جاتے ہیں جن میں سینئر اور باخبر صحافی و اینکرز بھرپور تیاری کے ساتھ اپنی معلومات عوام تک پہنچانے کے لئے موجود ہوتے ہیں۔
تجزیوں اور تبصروں کے دوران میزبان بعض اوقات جس طرح مختلف شخصیات کا نام لے لے کر انہیں چیلنج کرتے نظرآتے ہیں انہیں دیکھ کر مولا جٹ فلموں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ شاید یہ بھی ایک سنجیدہ پروگرام کو دلچسپ بنانے کا کوئی تیر بہ ہدف نسخہ ہو؟اسی پرائم ٹائم کے دوران بڑھکوں، گالی گلوچ اور الزام تراشیوں سے بھرپور کچھ ایسے ڈرامے بھی نشر ہوتے ہیں جنہیں ٹاک شوز کہا جاتا ہے۔ ان میں ناظرین کی تفریح کا اتنا سامان ہوتا ہے کہ ان کی مقبولیت نے تفریحی چینلز کو بھی گہنا کر رکھ دیا ہے۔
ان ٹاک شوز کی مقبولیت کا الگ ہی پیمانہ ہے۔ کسی پروگرام میں مہمان ایک دوسرے کی جتنی زیادہ بےعزتی کرتے ہیں اس پروگرام کا اتنا ہی چرچا ہوتا ہے۔ میزبانوں کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح بات گالم گلوچ بلکہ ہاتھا پائی تک جا پہنچے اس لئے وہ مہمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان اینکرز کی صرف ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ جس طرح ممکن ہو پروگرام کی مقبولیت میں اضافہ کیا جائے تاکہ ان کے میڈیا گروپ کو زیادہ سے زیادہ اشتہارات مل سکیں اور وہ خود بھی ‘سیلیبریٹی’ کہلائیں۔اس ماحول میں ان چند گنے چنے اینکرز کا دم غنیمت لگتا ہے جو دھیمے سُروں میں مہمانوں سے سوال کرتے اور عوامی مسائل پر بات کرتے نظر آتے ہیں ورنہ بعض حضرات خصوصاَ کچھ خواتین میزبان اتنی چیخ چیخ کر بات کرتی ہیں کہ ناظرین کو ذہن پر ہتھوڑے برستے محسوس ہوتے ہیں۔
آجکل یہی نیوز چینلز اور ان سے وابسطہ صحافی سارے کام چھوڑ کر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور جھگڑالو پڑوسنوں کی طرح ایک دوسرے کے ‘جائز و ناجائز تعلقات’ کی داستانیں افشا کرنے پر تلے ہوئے ہیں جسے دیکھ کر گمان ہوتا ہے جیسے ملک کے دیگر سارے مسائل حل ہو چکے ہیں۔ ہر طرف امن ہی امن ہے، طالبان اور ان کے اتحادی فرقہ وارانہ گروہ اپنی حرکتوں سے باز آچکے ہیں، کراچی پر سکون ہو چکا ہے، بلوچستان میں فرقہ واریت اور مسخ شدہ لاشیں ملنا بند ہوگئی ہیں. مہنگائی ختم ہو چکی ہے، عوام کا معیار زندگی بلند ہو چکا ہے، بجلی کی لوڈشیڈنگ قصئہ پارینہ بن چکی ہے، غربت کے مارے لوگوں کی خود کشیاں تھم گئی ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان جنت کا نمونہ بن چکا ہے۔
جبکہ مسائل جوں کے توں ہیں۔ ہاں صحافیوں، میڈیا گروپس اور اداروں کی اس لڑائی میں اب سیاست دان اور مذہبی گروہ بھی کود پڑے ہیں اور “مرے پر سو دُرّۓ” والے محاورے پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف جنگ اور جیو کے بائیکاٹ کے اعلانات ہو رہے ہیں بلکہ ان پر فتوے بھی لگائے جارہے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حامد میر پر ہونے والا قاتلانہ حملہ ہر لحاظ سے ایک قابل مذمت فعل ہے۔ اس بات کا فیصلہ تو اب شاید عدالت ہی کریگی کہ ان پر حملہ کرنے والے کون تھے اور ان کا مقصد کیا تھا؟ لیکن آجکل کچھ صحافی اور میڈیا گروپس اس واقعے کی آڑ لے کر جس طرح ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں اور مولویوں کی طرح فتوے صادر کر رہے ہیں انہیں پاکستانی صحافت کے مستقبل کے لئے نیک شگون ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یاد رکھنا چاہئے کہ ایسا ہی کوئی واقعہ کل کسی اور صحافی یا شخصیت کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی صحافیوں کے لئے ایک خطرناک ملک کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں متعدد صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔
ایسے میں حامد میر پر حملہ تمام صحافیوں کے لئے ایک پیغام بھی ہو سکتا ہے لہٰذا اگر اس واقعے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور صحافی اسی طرح ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف رہے تو آئندہ ان کے لئے بلا خوف و خطر اپنے فرائض انجام دینا ممکن نہیں رہے گا۔
اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ سیاست دانوں، وکلاء اور مذہبی پارٹیوں کے میدان میں کود پڑنے اور ان کے شور شرابے کے باعث اصل معاملہ پس پشت چلاگیا ہے اور فتوؤں اور الزامات کے اس ماحول میں صحافیوں کی طرح عوام بھی کئی حصوں میں تقسیم نظر آرہی ہے جسکا بعض صحافی اور میڈیا گروپ خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یقیناَ اس کھینچا تانی سے ان میڈیا گروپس کے کاروباری مفادات وابسطہ ہیں جبکہ کچھ صحافی اور سیاستدان بھی اس موقع کو غنیمت جان کر جیو سے اپنے پرانے حساب چکانے میں مشغول ہیں۔
ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا، صحافی اور دیگر تمام ادارے اپنے کردار اور حدود کا از سر نو جائزہ لیں۔ صحافیوں اور میڈیا گروپس کو بھی چاہئے کہ مل بیٹھ کرایک ایسا ضابطہ اخلاق تشکیل دیں جس پر عمل کرکے نہ صرف ملکی میڈیا کو سیاست کی آلودگیوں سے پاک کیا جاسکے بلکہ ایک معیاری صحافت کی بھی شروعات کی جاسکیں۔
یہ مضمون پہلی بار دو اقساط میں ڈان اردو پر شائع ہوا