دہشت گردی کا فلٹر پلانٹ

دہشت گردی کا فلٹر پلانٹ

آٹھ جون کی رات جب کچھ بُرے طالبان کراچی کے ہوائی اڈے پر قبضہ جمائے اندھا دھند گولیاں برسانے میں مصروف تھے عین اسی وقت بلوچستان کے سرحدی شہر تفتان میں کچھ اچھے طالبان ایران سے واپس آئے زائرین کو اپنی گولیوں اور بموں کا نشانہ بنا رہے تھے ۔ کراچی میں ہونے وا لے واقعے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی جبکہ تفتان واقعے کا سہرا جیش الاسلام نے اپنے سر لیا ۔
ان واقعات کے دو دن بعد دس جون کو جس وقت وزیر داخلہ چودھری نثار قومی اسمبلی میں کراچی ائیرپورٹ واقعےسے متعلق خطاب میں مصروف تھے عین اسی وقت کراچی ائیرپورٹ سے ملحق اے ایس ایف کیمپ پر دہشت گردوں کے حملے کی خبریں بھی آرہی تھیں ۔
زیادہ دن نہیں گزرے جب حکومت اور طالبان کے درمیان تحائف کے تبادلے کا سلسلہ زورو شور سے جاری تھا ۔ طالبان حکومت کو لاشوں کا تحفہ دے رہے تھے تو حکومت بھی ان کے خطرناک قیدیوں کو جیلوں سے رہا کرکے اپنے جذبہ خیر سگالی کا اظہار کر رہی تھی ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ رشتہ پکا ہو چکا بس طالبان کی رخصتی باقی ہے ۔ لیکن طالبان حکومت کے برعکس بڑے ہوشیار نکلے اور انہوں نے حکومت کے دئے تحفے اپنے پاس رکھے اور موقع ملتے ہی رشتے کی انگوٹھی بھی اتار پھینکی۔
پاکستان کے معاشی حب کراچی کے ہوائی اڈّؔے اور تفتان میں زائرین پر ہونے والے حملوں کی ٹائمنگ دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اچھے اور برے طالبان نے مل کر ان حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی ۔ کیونکہ جب تفتان میں بچّوں اور عورتوں پر گولیوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور زخمی مدد کے لئے پکار رہے تھے تمام پاکستانی میڈیا کراچی ائیر پورٹ کے واقعے کو کور کرنے میں مصروف تھا ۔
قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران وزیر داخلہ نے تفتان واقعے کا بھی ذکر کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ سے تفتان کا فاصلہ چونکہ کافی زیادہ ہےاس لئے اس راستے کی سیکیوریٹی میں کافی مشکلات درپیش ہیں ۔ انہوں نے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ نقصان کے باوجود حکومت نے زائرین کو پرواز کی سہولت فراہم کر رکھی ہے لیکن اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا کیونکہ اس زمینی راستے سے بس مالکان اور ٹور آپریٹرز کے مالی مفادات وابستہ ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وہ زائرین کے لئے فضائی سہولیات کی بات کر رہے تھے اسی وقت کراچی ائیر پورٹ ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کے نشانے پر تھا اور ساری پروازیں معطل ہوچکی تھیں۔
چودھری صاحب کا مشورہ بجا کہ چونکہ حکومت کوئٹہ تفتان روٹ پر مسافروں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی اس لئےانہیں اس راستے پر سفر نہیں کرنا چاہئے ۔ لیکن کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کونسی جگہ ہے جہاں عوام کو تحفظ حاصل ہے ؟ کیا مساجد امام بارگاہ ،جماعت خانے،چرچ اور دیگرعبادت گاہیں محفوظ ہیں؟ اگر نہیں تو کیا عبادت گاہوں میں عوام کے جانے پر پابندی لگا دی جائے؟ اگر سکولوں اور طلباء کی بسوں کو دھماکوں سے اڑایا جاتا ہے تو کیا انہیں تعلیم حاصل کرنے سے منع کر دیا جائے ؟ ملازمین کو بھی تو روز قتل کیا جاتا ہے کیا انہیں بھی دفاتر جانے سے پرہیز کا مشورہ دینا چاہئے؟ یہاں تو بازار، مارکیٹیں اور گلی کوچے بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں تو کیا اس کا حل یہی ہے کہ عوام کو گھروں تک محدود کردیا جائے ؟
ایک مقولہ ہے کہ پانی اگر چشمے سے ہی گدلا نکل رہا ہو تو میلوں دور جگہ جگہ پانی کی تطہیر کا انتظام کرنا فضول ہے ۔ اس وقت پنجاب کے سوا کم و بیش پورا پاکستان دہشت گردی کی زد میں ہے۔ عوام سے لیکر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں تک کوئی محفوظ نہیں ۔ کراچی سے لیکر کوئٹہ اور کے پی کے تک جا بجا عورتوں، بچوں اور عام افراد کا قتل عام ہورہا ہے ۔ پٹاخوں کی طرح پم پھوڑے جارہے ہیں۔ لگتا ہے دہشت گردوں کو کسی کا خوف نہیں رہا۔ ریاستی ادارے بھی ان واقعات کی روک تھام میں مکمل ناکام نظر آتے ہیں ۔ پیشگی معلومات حاصل ہونے کے باوجود ان واقعات کو روکنے میں ناکامی اور ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی ایک رسم چل نکلی ہے ۔ دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد حکومتی عہدیداروں سمیت تمام سیاسی پارٹیوں اورسول سوسائٹی کی طرف سے معمول کے بیانات جاری ہوتے ہیں ۔ کچھ گھنٹوں کے لئے سیکیوریٹی کو مزید سخت کر دیا جاتا ہے۔ کچھ رسمی گرفتاریاں ہوتی ہیں اورکچھ لوگوں کومقابلے میں مار بھی دیا جاتاہے لیکن پھر لوگ سب کچھ بھول بھال کر دوبارہ اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب دہشت گرد ایک نئی کاروائی کی منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں ۔ وہ نت نئی ترکیبیں نکالتے ہیں ، مکمل یکسوئی کے ساتھ پلاننگ کرتے ہیں ، سیکیوریٹی کی خامیوں کا جائزہ لیتے ہیں اور وقت آنے پر مکمل ارادے اور اخلاص سے اپنی کاروائی کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس حکمرانوں ، حکومتی اداروں اورسیکیوریٹی اہلکاروں میں اس اخلاص اور ارادے کا فقدان ہے۔ حکمرانوں کو اپنی مدّت پوری کرنے اور اپنے بینک اکاؤنٹ میں اضافے کی فکر لگی ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں ۔
بدقسمتی سے اس بات کو مسلّمہ حقیقت کے طور پر قبول کر لیا گیا ہےکہ خود کش حملوں کو روکنا ناممکن ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اس مقولے کے پیچھے ریاستی اداروں کی نااہلی اور ان کے ارادوں میں کمی نظر آئے گی ۔ اس بات پر بحث فضول ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ میں دہشت گردی کا کوئی واقع کیوں رونما نہیں ہوا؟ یہی صورت حال دیگر مغربی ممالک کی بھی ہے جہاں نہ صرف ایسے کئی واقعات کو وقوع پزیر ہونے سے پہلے ناکام بنادیا گیا بلکہ کئی دہشت گردوں کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انہوں نے اکا دکا دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے ان کے مراکز کا خاتمہ کیا۔ انہیں بیرونی ممالک سے ملنے والی امداد کی راہیں مسدود کیں، اینٹیلی جنس کا نظام مزید بہتر بنایا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی قومی پالیسی کا حصہ بنایا ۔
عوام کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ ان کو گھروں میں قید کرکے اور تحفظ کے نام پر ان کے گرد اونچی دیواریں کھڑی کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے ۔ اگر ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہے تو ریاست کو جرات مندانہ فیصلے کرنے ہونگے اور کسی مصلحت کی پرواہ کئے بغیر دہشت گردی کے مراکز کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔ اب بھی وقت ہے کہ حکمران اور ریاستی ادارے اچھے اور برے طالبان کی گردان چھوڑ کر ایک اچھے پاکستان کی بنیاد رکھیں ۔
اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے تحائف کے تبادلے،آنکھ مچولی اور مذاکرات کا ڈرامہ ختم کرنا ہوگا ۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے چشموں کو آلودگی سے پاک کیا جائے ۔ میلوں دور جگہ جگہ فلٹر پلانٹ لگانے سے کچھ نہیں ہوگا ۔

یہ مضمون ڈان اردو پر پڑھنے کے لئے اس لنک پر وزٹ کریں ۔
http://urdu.dawn.com/news/1005819/15jun14-you-wont-be-spared-next-time-riza-changezi-aq

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.