ایچ ڈی پی ورکرز کنونش
ہم نے بھی سب دیکھا کئے ۔
آج میں ایک بار پھر وہاں موجود تھا ۔ آج بھی وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔ بس فرق اتنا تھا کہ آج شرکاء ہلّا گلّا کرنے کے بجائے بڑی سنجیدگی اورخاموشی سے اپنے رہنماؤں کا خطاب سننے میں مصروف تھےجو بڑے مدلل انداز میں پارٹی پالیسیوں پر گفتگو کر رہے تھے ۔ یہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا ورکرز کنونشن تھا جس میں پارٹی کی خواتین ممبران بھی قابل ذکر تعداد میں موجود تھیں ۔ مجھے تقریباَ بیس دن پہلے ہی اس کنونشن میں شرکت کرنے اور نیشنلزم کے موضوع پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی ۔
پچھلی مرتبہ 26 مئی کو جب میں یہاں آیا تھا تب ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تقریب حلف برداری تھی جہاں مجھے بس کچھ دیر کے لئے ہی رکنا تھا ۔ وہ میرے لئے ایک یاد گار دن تھا کیوں کہ ایچ ایس ایف میرے لئے ماں کے آغوش کی طرح ہے جس میں میری سیاسی اور اخلاقی پرورش ہوئی ۔ اس تقریب میں سٹیج پر دیگر نوجوانوں کے ساتھ اپنے بیٹے راحیل حسن کو حلف اٹھاتے دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی اور اس میں مجھے اپنا ہی چہرہ نظر آیا ۔
ایچ ایس ایف کی اُس تقریب میں شرکت کی حامی بھرتے وقت میں نے ان نوجوانوں سے وعدہ لیا تھا کہ وہ مجھے شرکاء سے اظہار خیال پر مجبور نہیں کریں گے ۔ لیکن آج کی اس تقریب میں مجھے نیشنلزم کے موضوع پرگفتگو کرنی تھی ۔ میرے سامنے ایچ ڈی پی کے وہ سیاسی کارکنان تشریف فرما تھے جو پارٹی میں ریڑھ کی ہذی کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کے دم قدم سے پارٹی ہر طرح کے طوفانوں سے لڑتی آرہی ہے ۔ شرکاء میں ایسی شخصیات بھی شامل تھیں جو میرے لئے استاد کا درجہ رکھتی ہیں ۔ میں تقریباَ دس سالوں کے بعد کسی عوامی اجتماع کے روبرو تھا ۔ گفتگو کا آغاز کرنے لگا تو اپنے لہجے میں اعتماد کی کمی بھانپ کر احساس ہوا کہ ” وہ دن گئے جب خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے ” ۔ اپنی گفتگو حتی الامکان مختصر کرکے جب میں واپس اپنی نشست پر پہنچا تو سوچ رہا تھا کہ کیا میں اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کر سکا ہوں؟ پھر یہ سوچ کراپنے آپ کو تسلی دی کہ کیا یہی کم ہے کہ دس سال تک “چارپائیاں توڑنے رہنے کے بعد ” میں ایک بار پھر اپنی پرانی دنیا کی طرف لوٹنے لگا ہوں ؟
یہ تقریب میرے لئے اس لحاظ سے بھی یاد گار تھی کہ میں نے بہت دنوں بعد ڈاکٹر اصغرکوخطاب کرتے سنا ۔ ان کے خوبصورت ، مدلل اور عالمانہ خطاب نے پوری محفل کو جوش دلائے رکھا ۔ زمان دہقانزادہ ہمیشہ خوبصورت اور نپے تلے انداز میں بولتے ہیں ، سیکولرازم کے موضوع پر ان کی گفتگو بھی بہت خوبصورت تھی ۔ احمد کہزاد ہمیشہ کی طرح پر اعتماد دکھائی دیئے ۔ انہوں نے کارکنوں کے سوالات (جن میں کچھ آؤٹ آف کورس) سوال بھی شامل تھے کا بڑی خندہ پیشانی سے جواب دیا ۔ جبکہ خالق ہزارہ نے اپنے صدارتی خطاب میں پارٹی پالیسی،کوئٹہ سمیت بلوچستان اور ملکی سیاست اورمستقبل کے متوقع حالات پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔
اس کنونشن میں سب سے خوبصورت بات جو مجھے نظر آئی وہ یہ تھی کہ کارکنوں نے قائدین سے دل کھول کر سوالات پوچھے ۔ اس دوران جہاں کچھ کارکنوں کے لہجے میں شکایت نظر آئی وہاں کچھ نوجوان کارکنوں کی باتوں میں غصے کی جھلک بھی دکھائی دی ۔ سوال و جواب کے سیشن میں جہاں بین الاقوامی معاملات پر گفتگو ہوئی وہاں بعض چھوٹے موٹے اندرونی مسائل کا بھی زکر ہوا ۔ اس بات سے قطع نظر کہ کارکن قائدین کے جوابات سے کتنے مطمئن ہوئے، جس وقت وہ جرات مندانہ انداز میں پارٹی معاملات سے متعلق تنقید اور سوالات کر رہے تھےمیں سوچ رہا تھا کہ کیا جمہوریت اور جواب دہی کی ایسی مثال معاشرے میں موجود دوسری پارٹیاں بھی پیش کر سکتی ہیں ؟
یہ ہر لحاظ سے ایک اچھی اور قابل تقلید تقریب تھی۔ میرے خیال میں ایچ ڈی پی کو ایسے مواقع کا تواتر سے انعقاد کرنا چاہئے تاکہ نہ صرف کارکنوں کی سیاسی اور ذہنی تربیت ہو سکے بلکہ انہیں پارٹی رہنماؤں سے کھل کر بات کرنے کے مواقع بھی میسر آسکیں ۔ پارٹی رہنماؤں کو بھی چاہئے کہ وہ کارکنوں کے سوالات، شکایات اور تنقید و آراء کو تحمل اور توجہ سے سنیں اور ان کی شکایات کے بر وقت ازالے کی ہر ممکن کوشش کریں کیوں کہ یہی کارکن پارٹی کا اصل سرمایہ ہیں اور اس سرمائے کی حفاظت پارٹی رہنماؤں پر فرض ہے ۔