خواب
خواب
9 اگست، 2014 ۔۔۔
یہ یکم جنوری 2005 کی بات ہے جب کوئٹہ میں برف باری کا بیس سال پرانا ریکارڈ ٹوٹا تھا ۔ تصویر میں نظر آنے والے تینوں بچّے اب ٹھیک ٹھاک مشٹنڈے بن گئے ہیں۔ ان کی داڑھی مونچھیں نکل آئی ہیں اور وہ راہ چلتے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ اس تصویر میں ایک بچّی بھی نظر آرہی ہے جو اپنی چادر ٹھیک کر رہی ہے ۔ میری اس بچّی کا دھیان اب بھی اپنی چادر کی طرف ہی ہے ۔ وہ مجھ سے کئی بار کہہ چکی ہے کہ “ابو کاش میں بھی ایک لڑکا ہوتی ۔ اپنی مرضی سے گھومتی پھرتی ، موٹر سائکل پر ون ویلینگ کرتی ، بھائی کی طرح سارا دن گھر سے غائب رہتی ۔ تب آپ بھی میری منتیں کرتے اور میری فرمائشیں پوری کرتے ۔”
اس کی باتیں سن کر میں سن پڑ جاتا ہوں اور میرے منہ سے بس یہی بات نکلتی ہے کہ میرے بچّے خواب دیکھنا چھوڑ دو اور گھر کے کام کاج میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹایا کرو ۔ ہاں سر سے چادر نہیں ڈھلکنی چاہئے ورنہ لوگ جینا حرام کر دیں گے ۔
میری بچّی نے اب خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے اور وہ ہر وقت اپنے سر پر چادر ٹھیک کرتی نظر آتی ہے ۔