امر بالمعروف

امر بالمعروف 

Advice12 دسمبر، 2014 ۔۔۔
آج ایک دوست سے ملاقات ہوئی ۔ بہت بھپرے ہوئے تھے ۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ
” آج چچا گھر آئے ہوئے تھے ۔ باتوں ہی باتوں میں کہنے لگے کہ تم نے اپنی بچّی کو عیسائیوں کے سکول میں کیوں داخل کرایا ؟”
میں نے پوچھا کہ” اس میں برائی کیا ہے ؟”
کہنے لگے کہ “تمہیں اسے کسی ایسے سکول میں داخل کرانا چاہئے تھا جہاں اسلامی تعلیمات دی جاتیں ہوں ۔”
میں نے کہا کہ کہ “مجھے اپنی بیٹی کو ملّا نہیں بنانا ۔ میں تو اسے تعلیم دینا چاہتا ہوں ۔”
کہنے لگے کہ” تم اپنی پیٹی کو کافر بنانا چاہتے ہو ؟”
میں نے کہا کہ “اس میں کافر بنانے والی کیا بات ہے ؟”
کہنے لگے ” میرا کام تمھیں سمجھانا تھا اس لئے اپنا فرض پورا کرنے آگیا ”
میں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا کہ میرا ایک ہمسایہ دن بھر مزدوری کرتا ہے ، اس کی ایک بچّی کافی عرصے سے بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کی سکت نہیں رکھتا ۔ آپ کو تو اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے ۔ کیا آپ اُس کی کچھ مدد کر سکتے ہیں ؟
کہنے لگے “اللہ ان کا امتحان لے رہا ہے ، اور اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کا امتحان لیتا رہتا ہے ۔ اس لئے اسے میری مدد کی کوئی ضرورت نہیں ۔ تم بھی ان فالتو باتوں پر دھیان دینے کے بجائے اپنے بچّوں کی تربیت کی فکر کرو اور انہیں کسی اسلامی سکول میں دخل کراؤ”
میں نے دوست کا غصّہ کم کرنے کے لئے کہا کہ ” تمھارے چچا ٹھیک ہی تو کہتے ہیں ۔ تمہیں کیا پڑی ہے کہ ہمسایوں کے پھڈے میں ٹانگ اڑاتے رہو ؟ اگر انہیں کوئی تکلیف ہے تو ہوا کرے ۔ اگر انہیں کھانے کو کچھ نہیں ملتا اور وہ اپنی بچّی کا علاج نہیں کرا سکتے تو یہ ان کی قسمت ہے جو لکھی جا چکی ہے تم بس اپنی آنکھیں بند کرلو ۔ ہاں اگر وہ خلاف شریعت کوئی کام کرتے ہیں یا ان کی بچّی پردہ نہیں کرتی تو تمھارا فرض بنتا ہے کہ انہیں ان برائیوں سے روکو کیوں کہ ہمارا دین ہمیں یہی سکھاتا ہے “۔
مجھے نہیں معلوم کہ میری اس نصیحت میں کیا برائی تھی کہ میرا دوست مجھے گھورتے ہوئے اور بنا “اللہ حافظ ” کہے چلا گیا ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.