اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟

اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟

جب سے بلوچستان میں داعش کی سرگرمیوں بالخصوص لشکر جھنگوی اور اہل سنت والجماعت سے ان کے رابطوں سے متعلق بلوچستان کے محکمہ داخلہ کا خفیہ مراسلہ منظر عام پر آیا ہے صوبے کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں ایک کھلبلی سی مچ گئی ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یہ مراسلہ 21 اکتوبر کو جاری کیا گیا تھا جس میں متعلقہ اداروں کو مستقبل میں تشدد کی ممکنہ نئی لہرسے خبردار کیا گیا تھا ۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک اس سے قبل صوبے میں داعش کی موجودگی کا امکان ظاہر کر چکے تھے لیکن اس مراسلے کے دو ہی دن بعد انہوں نے اپنے سابقہ بیان کی نفی کرتے ہوئے ایسے کسی امکان کو مسترد کردیا ۔ پھر جب پاکستان کے متعدد شہروں سے داعش کی حمایت میں وال چاکنگ کی خبریں آنے لگیں تب وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے بھی اپنے ایک بیان میں ملک میں داعش کی موجودگی کا امکان یکسرمسترد کردیا ۔ تصدیق اور تردید کا یہ سلسلہ ابھی جاری تھا جب کالعدم عسکریت پسند تنظیم جنداللہ کا ایک دعویٰ سامنے آیا جس کے مطابق داعش کے ایک وفد نے بلوچستان میں ان کی قیادت سے ملاقات کی تھی۔

داعش کی پاکستان میں موجودگی اور اس کی تردید سے متعلق خبروں اور بیانت کا سلسلہ ابھی تک نہیں تھم سکا اور آئے دن میڈیا پر ایسی خبریں آرہی ہیں جن کے مطابق کراچی سے گلگت بلتستان تک پاکستان کے اکثر شہروں میں داعش کی حمایت میں وال چاکنگ اور پمفلٹ کی تقسیم کا سلسلہ جاری ہے ۔  اگرچہ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ عوام کو اس بات کا اطمینان دلا چکے ہیں کہ پاکستان کو داعش سے کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن بے یقینی کے اس دور میں ان کا یہ بیان شاید عوام کی تسلی کے لئے کافی نہیں ۔ تبھی تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو اپنے دورہ امریکہ کے دوران اس عزم کا اظہار کرنا پڑا کہ پاکستان اور افغانستان پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دینگے۔
اس ضمن میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کے اس تازہ ترین بیان کا تذکرہ ضروری ہے جس میں انہوں نے “انکشاف” کیا تھا کہ داعش عرب تنظیم ہے جسکا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ۔ کاش کوئی انہیں بتائے کہ القاعدہ بھی تو ایک عرب تنظیم ہے جس نے گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں دنیا بھر کے عرب اور غیرعرب “جہادیوں” کا میلہ لگا رکھا ہے ۔ جن کی دہشت گرد کاروائیوں سے ملک کا کوئی کونا محفوظ نہیں ؟ چودھری صاحب کو یہ بھی یاد دلانا ہوگا کہ “ہم” اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی سے بھی ہمیشہ انکار کرتے رہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو ایک طویل عرصے سے ہماری ناک کے نیچے ہی آرام فرما رہے تھے۔
حال ہی میں ڈان نیوز پر یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ داعش نے سابق افغان جہادی کمانڈر مسلم دوست کو “خراسان بیلٹ” کا امیر مقرر کیا ہے۔ جس میں پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور وسطی ایشیاء سمیت خطے کے بعض دیگر ممالک شامل ہیں ۔ خبر کی نوعیت ایسی تھی جیسے حاتم طائی دنیا کی بادشاہتیں ریوڑیوں کی طرح بانٹتا پھر رہا ہو لیکن یہ جان کر کہ داعش نے سونے اور چاندی سے بنے اپنے سکّے یا کرنسی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جو غالباَ دنیا کی سب سے قیمتی کرنسی ہوگی ، معاملے کی سنجیدگی کا شدت سے احساس ہوا ۔ یہ بھی دھیان میں رہے کہ داعش نے شام اور عراق میں نہ صرف تیل سے مالا مال کئی اہم شہروں پر قبضہ کر رکھا ہے بلکہ ان شہروں میں موجود بینکوں کے اثاثوں پر قبضے کی وجہ سے اسے  فی الحال دنیا کی دولتمند ترین دہشت گرد تنظیم ہونے کا درجہ حاصل ہے جس کے باعث اس کے لئے کہیں بھی کرائے کے قاتل بھرتی کرانا زیادہ مشکل نہیں رہا ۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ سابقہ عراقی پائلٹ داعش کے جنگجوؤں کو جنگی طیارے اڑانا سکھا رہے ہیں جس سے ان کی استعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ایسے میں پاکستان بالخصوص بلوچستان میں داعش کی سرگرمیوں اورحکمرانوں کے معمول کے بیانات سےعوام کے ذہنوں میں مستقبل سے متعلق خدشات کا ابھرنا ایک فظری امر ہے جو گذشتہ پندرہ سالوں سے بدترین بدامنی اور شورش کا شکار ہے ۔ اعدادوشمار کے مطابق 1999 سے جاری فرقہ واریت کے نام پر مسلط یک طرفہ دہشت گردی میں اب تک تقریباَ پندرہ سو افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن کی اکثریت کا تعلق ہزارہ قوم سے ہے جبکہ بلوچ قوم پرستوں کے مطابق گذشتہ دس سالوں کے دوران ان کے بھی ہزاروں نوجوانوں کویا تو قتل کر دیا گیا ہے یا وہ لاپتہ کر دئے گئے ہیں جن کی لاشیں وقتاَ فوقتاَ ویرانوں سے ملتی رہتی ہیں ۔ قتل عام کے شکار ہزارہ شروع سے ہی اس بات کی دہائی دیتے آرہے ہیں کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کے قتل عام کو روکنے کی کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں ۔ کچھ یہی خیالات بلوچ قوم پرست حلقوں کے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ صوبے میں مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کو جان بوجھ کر ہوا دی جارہی ہے تاکہ بلوچوں کو بدنام کرکے ان کے خلاف آپریشن کی راہ ہموار کی جاسکے۔
بلوچستان میں فرقہ واریت کے نام پر دہشت گردی کا آغاز 1999 میں ہوا تھا جبکہ علیحدگی کی حالیہ تحریک 2003 میں شروع ہوئی ۔ البتہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ علیحدگی کی حالیہ تحریک میں شدت آنے کے ساتھ ہی فرقے کے نام پردہشت گردی میں بھی بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ فرق یہ رہا کہ ” ٹارگٹ کلنگ کا جواب ٹارگٹ کلنگ ” کی پالیسی کے باعث علیحدگی پسندوں کی لاشیں تو صوبے کے ویرانوں سے مسلسل ملتی رہیں لیکن فرقہ وارانہ قتل عام میں ملوث کسی مجرم کو نہ صرف کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا بلکہ مبینہ طور پران کے گرفتار رہنماؤں کو جیلوں سے بھی فرار کروایا گیا ۔ یہی وجہ تھی کہ فرقہ واریت کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار پر ہمیشہ سوالات اٹھتے رہے۔
یاد رہے کہ جب مہینہ بھر پہلے یعنی 23 اکتوبر کو کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں 9 ہزارہ سبزی فروشوں کو بس کے اندر گھس کر قتل کیا گیا تھا تو اس کے اگلے دن لشکر جھنگوی نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستقبل میں ” داعش طرز” کے مزید حملوں کی دھمکی دی تھی۔
ایسی صورت حال میں صوبے کے لوگ یہ سوچ کرپریشان ہیں کہ وہ حکمرانوں کی طفل تسلّیوں پر کس حد تک بھروسہ کر سکتے ہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ داعش کا نام محض عوام کوخوف اور دہشت میں مبتلا رکھنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہو؟ اس ہیبت ناک پتلے (Scarecrow) کی طرح جسے پرندوں کو ڈرانے کی غرض سے کھیتوں میں نصب کیا جاتا ہے۔
مانا کہ پاکستان عراق یا شام ہرگز نہیں بلکہ یہ جدید ترین اسلحے اور مہارت سے لیس دنیا کی پانچویں بڑی فوج اورایٹمی طاقت کا حامل ایک ملک ہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ تمام تر خرابیوں اور دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پرہونے کے باوجود یہاں کی صورت حال شام اورعراق سے کافی مختلف اور قدرے بہتر ہے ۔ لیکن زرا سوچئے کہ اگر پاکستان میں داعش اور اس جیسے دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کا بروقت راستہ نہ روکا گیا اورانہیں اپنی سرگرمیاں بڑھانے کے مواقع میسر رہے تو کیا ہوگا ؟ کیا وہ بین الاقوامی قوتیں ان تمام معاملات سے لاتعلق رہ سکیں گی جو متعدد بار پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے محفوظ ہونے پرخدشوں کا اظہار کر چکی ہیں؟
یہی وہ انتہائی اہم سوال ہے جس کا سب کو سنجیدگی سے جواب تلاش کرنا ہوگا۔

One thought on “اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟

  • 15/12/2014 at 8:43 am
    Permalink

    خدا کا شکر ہے کہ آپ کو بالآخر احساس ہو گیا کہ پاکستان میں فرقہ واریت نہیں بلکہ فرقہ واریت کے نام پر دہشت گردی ہے. اور آپ مبارکباد کے مستحق بھی ہیں کہ آپ نے اپنی اصلاح کرنے میں شرم محسوس نہیں کی.

    Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.