ٹوپی اور کبوتر
اگر کوئی پاکستانی ایتھوپیا کی کسی گمنام یونیورسٹی مثلاَ Addis Ababa Online Urdu University سے گھر بیٹھے اردو میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرکے جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کا سربراہ بن بیٹھے تو آپ کا کیا رد عمل ہوگا ؟ یا کوئی شخص سعودی عرب کی Caliphate Online University of Space Sciences سے خط و کتابت کے بعد خلائی ٹیکنالوجی کی آن لائن ڈگری حاصل کرکے سپارکو کی سربراہی سنبھال لے تو آپ کیا محسوس کریں گے؟ بالکل ایسا ہی اگر کوئی مصری شہری الاسکا کے igloo International institute of Arabic Studies سے عربی فاضل کی آئن لائن سند لیکر جامعۃ الازہر میں شیخ الجامعہ تعینات ہو یا کوئی شخص پاپوانیو گنی کے کسی Aboriginal Academy of Fashion Designing سے ماڈرن فیشن ٹرینڈز کی آن لائن ڈگری وصول کرکے نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کا پرنسپل بن بیٹھے تو آپ کی حیرت کا کیا عالم ہوگا ؟
یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی بندہ نائجیریا کی Boko haram International Institute of Management Sciences نامی کسی آن لائن ادارے سے سند حاصل کرکے LUMS کا وائس چانسلر بن جائے ۔
عامر لیاقت حسین کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے جو سپین کے کسی گمنام ادارے Trinity College and University سے اسلامیات میں آن لائن ڈگری حاصل کرنے کے بعد عالم آن لائن بن کر اسلام کے قلعے میں آن لائن نفرتیں پھیلانے میں ہمہ تن مصروف ہیں ۔ انہیں آپ نے دلیپ کمار انداز میں مذہبی موضوعات پر گل افشانی کرتے عموماَ دیکھا ہوگا ۔ انہیں اس مشہور بھارتی اداکار ( ارے کیا نام ہے ان کا ، وہی ٹیڑھی ٹوپی والا ؟ ارے وہی جو فلموں میں بہت اچھے ۔۔۔۔۔۔۔ سین کرتا ہے ۔ یار وہی جو بہت ساری ۔۔۔۔۔۔ کو ۔۔۔۔۔۔ چکا ہے) کی طرح تالیاں بجاتے اور قوالیاں گاتے بھی سنا ہوگا ۔
انہیں آپ نے “انتہائی نازک صورت حال” پر انتہائی سنجیدہ گفتگو کرتے بھی یقیناَ دیکھا ہوگا لیکن آپ میں سے شاید کم ہی لوگوں کو معلوم ہوگا کہ جس طرح موصوف ” ایک سنّی اسلامی سکالر” کا چولا پہن کر ہرطرف کفر کے فتوے تھوکتا پھرتا ہے بالکل اسی طرح ان کا بھائی عمران لیاقت حسین ایک شیعہ آیت اللہ کا چوغہ اوڑھ کرلوگوں کو مذہب کے نام پر اپنے قدموں میں جھکانے کے مشن پر مامور ہے ۔
جس طرح عامر لیاقت اسلامیات کی جعلی آئن لائن ڈگری گردن میں لٹکائے نفرتیں بانٹنے میں مصروف ہے بالکل ویسے ہی عمران لیاقت علی نے بھی قم کے کسی مدرسے میں کچھ ہفتے گزار آنے کے بعد معصوم اور سادے لوگوں کو گھٹنوں کے بل چلانے کی تربیت گاہ کھول رکھی ہے ۔
یہ دونوں بھائی ٹھگوں کے اس ٹولے سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے اپنی وارداتوں کے لئے آپس میں علاقے بانٹ رکھے ہیں ۔ ایک بھائی نے سنیوں کی رہنمائی کا فریضہ سنبھال رکھا ہے تو دوسرے نے شیعوں کو سدھارنے کا ۔
ہماری سادگی دیکھئے کہ ہم ان ٹھگوں سے ٹھگے جانے پر آسودگی محسوس کرتے ہیں ۔ ہم ان مداریوں کے ارد گرد کھڑے ان کے شعبدوں پر واہ واہ کرنے اور تالیاں بجانے میں مشغول ہیں جبکہ یہ شعبدہ باز اپنی ٹوپیوں سے کبوتر نکال نکال کر ہمارے شعور کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں ۔
کبوتر اڑا کے جیو ۔