انتہا پسندی اور نوجوان نسل
انتہا پسندی اور نوجوان نسل
میری نظر میں انتہا پسندی ایک ایسا نفسیاتی رویہ ہے جس کے باعث انسان اپنے روزمرّہ کے معمولات خصوصاَ سیاسی اورعقیدتی معاملات میں برداشت، رواداری اور اعتدال کی حد پار کرجاتا ہے ۔ ایسے میں وہ نہ صرف اپنی سوچ ، نظریے یا عقیدے کو ہی برحق قرار دیتا ہے بلکہ انہیں دوسروں پر بھی مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے معاشرے میں انتشار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور معاشرے کا نظم درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ اس نفسیاتی کیفیت کو شدت پسندی اور جنون یعنی (Fanaticism) بھی کہتے ہیں جس میں اگر تشدد اور زور زبردستی کا عنصر بھی شامل ہو تو یہ رویہ دہشت گردی میں بدل جاتا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعتدال کسے کہتے ہیں ، اس کی حدود کیا ہیں اوران کا تعیّن کیسے کیا جائے جن کے اس پارانتہا پسندی کی حد شروع ہوتی ہے ؟
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا تمام معاشروں میں اعتدال کی ایک جیسی حدود مقرر ہیں یا ان میں اختلاف کی گنجائش موجود ہوتی ہے؟
میری نظر میں اعتدال کی حدود کو ناپنے کے کئی پیمانے یا Units ہو سکتے ہیں ۔ مثلا ہم جن جغرافیائی سرحدوں کے اندر رہتے ہیں وہاں نافذ ریاستی قوانین ہمارے لئے بعض حدود کا تعین کرتی ہیں جو معاشرے میں نظم یا Order برقرار رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں ۔ ان قوانین کی رو سے ریاست کے اندر رہنے والے ہر شخص کو اپنے عقائد پر کاربند رہنے اور اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے ۔ یعنی ایک مسلمان کو اپنی مساجد اور دیگر عبادت گاہوں میں عبادت کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی ہندو کو اپنے مندر ، عیسائی کو اپنے گرجا گھر اور سکھ کو اپنے گوردوارے میں عبادت کا حق ہے ۔ وہ یہ کام اپنے گھروں میں بھی آزادی سے انجام دے سکتے ہیں ۔ لیکن اگر کوئی مسلمان اپنے گھر یا مسجد کے بجائے کسی مندر ، گوردوارے یا چرچ میں زبردستی گھس کر اور اپنا مصلّیٰ بچھا کر نمازادا کرنا چاہے تو یہ حد پار کرنے والی بات ہوگی ۔ اسی طرح وہی نمازی اگر اپنے گھر میں نماز پڑھنے کے بجائے کسی دوسرے کے گھر میں زبردستی گھس کر یا بیچ سڑک نماز پڑھنا شروع کریں اور وہ اپنے اس حق پر اصرار بھی کرے تو اس عمل کا شمار بھی انتہا پسندی میں ہوگا ۔
بالکل ایسے ہی کسی بھی ڈرائیور کو گاڑی چلاتے وقت ٹریفک کے قوانین کا خیال رکھنا پڑتا ہے جس کی خلاف ورزی پر نہ صرف لوگوں کی زندگیوں کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں بلکہ ڈرائیور کو سزا بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ قوانین ہرشخص کی حدود کا تعین کرتی ہیں جن سے ٹریفک کے نظام میں ایک نظم قائم رہتا ہے جنہیں پار کرنا انتشار کا باعث بن سکتا ہے ۔
کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جن پر قانون کی بھی گرفت نہیں ہوتی ایسے میں مذہب یا معاشرے کی بعض مروجہ اخلاقیات معاشرے کو انتشار سے بچانے کا کام کرتی ہیں ۔ مثلا ہمارے ملکی قوانین میں جھوٹ بولنے کی کوئی سزا مقرر نہیں جو ہم سارا دن بولتے رہتے ہیں ۔ لیکن شاید کوئی مذہب یا معاشرہ ایسا نہیں جس میں جھوٹ بولنے پر انعام دیا جاتا ہو لہٰذا ماننا چاہئے کہ مذاہب ، معاشرتی اخلاقیات اور کلچر بھی بعض ایسی حدود کا تعین کرتے ہیں جن سے صرف نظر کرنا انتشار کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے ۔
آج ہمارا معاشرہ جس دہشت گردی اور قتل و غارت کا شکار ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی انتہا پسندی ہے ۔
مشہور مقولہ ہے کہ آپ کی آزادی کی حد وہاں ختم ہوتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے ۔ سلیس الفاظ میں اسے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ کسی کو بھی اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے لیکن سب کو دوسروں کے حقوق کا بھی اتنا ہی خیال رکھنا ہوگا جتنا وہ اپنے حقوق کا رکھتے ہیں کیوںکہ سب کی اپنی پسند و ناپسند ہوتی ہیں اورسب کو اپنے نظرئے اور سوچ کے مطابق زندگی گزارنے کا برابر حق حاصل ہوتا ہے ۔ اگرچہ ہر شخص کو کسی دوسرے کی سوچ اور نظرئے سے اختلاف کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا اپنے نظرئے پر پاپند رہنے کا لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ دوسروں پر اپنی سوچ مسلط کرنے کی کوشش کی جائے ۔ کیونکہ اگر سب یہی رویہ اختیار کرنے لگے تو ظاہر ہے کہ نتیجہ وہی نکلے گا جسے آج ہم دہشت گردی کی شکل میں بھگت رہے ہیں ۔
اسی انتہا پسندانہ سوچ کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ایک مسلمان کسی ہندو کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھانے کو گناہ تصور کرتا ہے بیشک وہ ہندو اس سے زیادہ صاف ستھرا اور رکھ رکھاؤ والا ہو ۔ اس کے بجائے بعض لوگوں کے لئے ایک گندے عامل کی تھوک اوراونٹ کا پیشاب پینا باعث برکت اور ثواب ہوسکتا ہے جن میں درجنوں اقسام کی بیماریاں پوشیدہ ہوتی ہیں ۔ اسی طرح ایک مومن شیعہ کربلا کے شہداء کی یاد میں جسم پر چُھری چلا کر اپنا سیروں خون سڑکوں پر بہانے کو ثواب اور قیامت کے دن شفاعت کا باعث سمجھتا ہے لیکن کسی جاں بہ لب مریض کو خون دیتے ہوئے اس کی ٹانگیں کاننپنے لگتی ہیں ۔
اسی انتہا پسندانہ سوچ کا ہی نتیجہ ہے کہ غلطی سے کسی دیوبندی امام کے پیچھے نماز پڑھنے پر تمام بریلویوں کے لئے نکاح کی تجدید لازمی قرار پاتی ہے جبکہ دیوبندی حضرات کسی شیعہ (جنہیں وہ کافر سمجھتے ہیں) کے ساتھ ہاتھ ملانے کو گناہ تصور کرتے ہیں ۔ اسی انتہا پسند سوچ کی بدولت بعض سادہ لوح افراد اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بے شک وہ متعدد گناہان کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہوں اور انہوں نے زناء بالجبرسمیت قتل ، چوری ڈآکہ زنی کے عمل کا ارتکاب کرنے کے علاوہ لاتعداد یتموں اور بیواؤں کا حق غصب کیا ہو، اگر وہ مکّے اور مدینے کی گلیوں کا طواف کر لے یا روضہ امام رضا پر حاضری دے آئے تو اس کے سارے گناہ دھل جائیں گے ۔
جو یہ بھی نہ کر سکیں ان کے لئے یہ رعایت رکھی گئی ہے کہ وہ بہشت ذینب کے دروازے پر نصب تختی پر لکھی ایک منٹ کی دعا ہی پڑھ لیں جس کے بارے میں باور کرایا گیا ہے کہ اس کے پڑھنے سے کسی کے بھی اگلے پچھلے پچاس سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔ حد تو یہ کہ بعض لوگ نہ صرف ان باتوں پر مکمل یقین رکھتے ہیں بلکہ وہ دوسروں کو بھی ان پر یقین کرنے کی ترغیب دیتے ہیں جس سے انکار کرنے والوں پر جھٹ سے کفر کا فتویٰ صادر کیا جاتا ہے ۔ زرا اندازہ کریں کہ جو لوگ ان فلسفوں پر یقین رکھتے ہیں انہیں جھوٹ پہ جھوٹ بولنے ، کمزوروں کا گلہ گھونٹنے ، چوری چکاری و قتل و غارت کرنے اور اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرکے اپنے جیسے انسانوں کو ذبح کرنے سے کون روک سکتا ہے جنکا یہ عقیدہ ہے کہ وہ جتنا چاہیں گناہ کریں ان پر توبہ کے دروازے کبھی بند نہیں ہونگے ؟
انتہا پسند ہونے کے لئے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ، نہ ہی یہ کسی خاص عقیدے یا نظریے سے مشروط ہے ۔ ایک قوم پرست بھی انتہا پسند ہوسکتا ہے اگر وہ دیگر تمام اقوام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے اور اپنے آپ کو برتر اور دوسروں کو کمتر تصور کرکے ان کے استحصال کے بہانے ڈھونڈ تا رہے ، ایک سوشلسٹ بھی انتہا پسند ہو سکتا ہے اگر وہ اپنے تمام مخالفین کو سامراجی ایجنٹ اور سرمایہ داروں کا دلال قراردے کر اپنے ہی افکار کی ڈفلی بجاتا رہے اور ایک لکھاری اور دانشور بھی بھی انتہا پسند ہو سکتا ہے اگر وہ اپنے سوا سب کے خیالات کو لغو، احمقانہ اور بکواس قرار دیکر انہیں اپنی راہ پر چلنے کی تلقین کرتا پھرے ۔
میرے خیال میں ایسے کسی ترقی پسند انقلابی اور بنیاد پرست ملّا یا قوم پرست لیڈرمیں کوئی فرق نہیں جو انقلاب کا نام لیکر یا کسی خیالی جنت کے حصول کی خاطر یا پھر طاقت اوراثرورسوخ حاصل کرنے کے لئے عام لوگوں کی قربانی کو جائز سمجھتے ہیں ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسی عدم برداشت اور انتہا پسندی کی بدولت نہ صرف ہمارا معاشرہ بلکہ پورا خطہ آگ اور خون کی لپیٹ میں ہے ۔ لہٰذا اس انتہا پسندی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی دہشت گردی کا مقابلہ تبھی کیا جاسکتا ہے جب ہم اپنی نئی نسل کو اس بات کا احساس دلائیں کہ وہ دوسروں کی سوچ ، عقیدے اور نظریات کا اتنا ہی احترام کریں جتنا اپنے عقیدے اور نظریات کا کرتے ہیں ۔ انہیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ وہ بے شک دن رات نماز پڑھیں ، قوم پرستی کا پرچار کریں ، کمیونزم کی تبلیغ کریں یا کچھ بھی نہ کریں لیکن اپنی اور دوسروں کی حدود کا خیال رکھیں اور ان کے معاملات میں ٹانگ اڑانا اور انہیں زبردستی اپنے راستے پر چلانے کی کوشش نہ کریں ۔ کیونکہ کسی ہندو کو مسلمانوں کی جنت میں جانے کا کوئی شوق نہیں جہاں بہتّر حوریں مردوں اور اتنے ہی غلمان عورتوں کی دل پشوری کے لئے موجود ہوتے ہیں ۔ انہیں تو سورگ جانے میں دلچسپی ہوتی ہے جہاں ہر چوک پر ان کے دیوتاؤں کے مجسمے آویزاں رہتے ہیں جہاں گاؤ ماتا ہر طرف آزادی سے جگالی کرتی نظر آتی ہیں اور جہاں ہنومان دیوتا درختوں کی شاخوں پرجھولتا رہتا ہے ۔ اس لئے میری ناقص رائے میں ہمیں دوسروں کو زبردستی اپنی جنت میں داخل کرانے کے بجائے اپنی جنت کی فکر کرنی چاہئے ۔
اگر ہم اعتدال کی رسّی تھامے رکھیں ، باہمی احترام کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں اور دوسروں پر اپنا نقطہ نظریہ اور عقیدہ مسلط کرنے کے بجائے جمہوری انداز میں بحث و مباحثے کے کلچر کو فروغ دیں تو ہماری نئی نسلیں اس انتشار سے بچ سکتی ہیں جسکا نتیجہ قتل وغارت ، قتل وغارت اور مزید قتل وغارت کے سوا کچھ نہیں ۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم تحمل ، رواداری ، بردباری اور پر امن بقائے باہمی کے فلسفے کو فروغ دے کر اپنے معاشرے اور اپبی دنیا کو ہی جنت کا نمونہ بنائیں اور کسی نادیدہ جنت یا یوٹوپیا کی خاطر اپنے معاشرے کو جہنم میں تبدیل نہ ہونے دیں ۔
این قافلہ عمر عجب میگزرد دریاب دمی کہ با طرب میگزرد
ساقی غم فردائی حریفان چی خوریم پیش آر پیالہ را کہ شب میگزرد
متعلقہ مضمون
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ چنگیزی ڈاٹ نیٹ
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ڈان اردو
One thought on “انتہا پسندی اور نوجوان نسل”