دردِ مشترک
دردِ مشترک
وہ پارک میں لگے لکڑی کے بنچ پر بیٹھا نہ جانے کن سوچوں میں گم تھا۔ دونوں بچے پاس ہی کھیل کود میں مصروف تھے جبکہ بیوی ننھے کو گود میں اٹھائے ٹہلنے میں مصروف تھی ۔تبھی اسے ایک آواز سنائی دی۔
جعفری صاحب؟
اسے لگا جیسے کوئی اسے پکار رہا ہو۔اس نے چونک کر دیکھا تو سامنے ایک شخص کھڑا نظر آیا۔ پہلے تو گمان ہوا کہ شاید اسے کچھ غلط فہمی ہو رہی ہے یا شاید اس کے کان بج رہے ہیں ورنہ یہاں کون اسے پہچانتا؟ لیکن جب سامنے کھڑے شخص نے دوبارہ اس کا نام لے کر پکارا تو اسے یقین ہوگیا کہ وہ اسی سے مخاطب ہے۔اس نے غور سے دیکھا تو سامنے کھڑا شخص ہاتھ آگے کیے مسکرا رہا تھا جیسے ہاتھ ملانے کی کوشش کر رہا ہو۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیا کہ یہ اس کا پرانا کلاس فیلو اسلم تھا۔
وہ برق رفتاری سے اٹھا اور اپنی بانہیں پھیلائیں۔ دونوں کئی لمحوں تک ایک دوسرے سے بغلگیر رہنے کے بعد علیحدہ ہوئے تو خوشی اور حیرت کے مارے دونوں کا چہرہ تمتما رہا تھا۔یہ ملاقات دونوں کے لیے غیر متوقع تھی۔
“یار جعفری مجھے تو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آرہا کہ اس طرح اچانک اور وہ بھی یہاں آپ سے ملاقات ہوسکتی ہے” دونوں بنچ پر بیٹھنے لگے تو اسلم نے کہا:
اسلم نے اس کی خوبصورت پینٹ شرٹ اور سلیقے سے ترشے ہوئے چمکداربالوں کی طرف دیکھ کر کہا “تم تو ذرّہ برابر بھی نہیں بدلے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ جوان لگ رہے ہو، شاید یہاں کی آب و ہوا کچھ زیادہ ہی راس آگئی ہے۔”
“تم بھی تو بڑے ہشاش بشاش اور سمارٹ نظر آرہے ہو” اس نے مسکراتے ہوئے خوش اخلاقی سے جواب دیا۔ وہ اپنے بچپن کے دوست کو اس طرح اچانک سامنے پاکر حیران بھی تھا اور خوش بھی۔
“کیا تم اکیلے ہو؟” اس نے اسلم سے پوچھا۔
“نہیں فیملی بھی ساتھ ہے، ٹھہرو میں انہیں بلا کے لاتا ہوں۔”
چند لمحوں بعد وہ واپس آیا تو ساتھ ایک خاتون بھی تھی جس نے دو خوبصورت گول مٹول بچّوں کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ اس نے بھی آواز دے کر اپنے بیوی بچّوں کو پاس بلا لیا۔ سب کا آپس میں اچھی طرح تعارف ہو چکا تو خواتین بچّوں کا ہاتھ پکڑ کر پارک کے ایک گوشے کی طرف چلی گئیں جب کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے بارے میں استفسار کرنے لگے۔
وہ اور اسلم ایک ہی محلّے میں پلے بڑھے تھے۔ دونوں کی عمریں بھی تقریباَ یکساں تھیں۔ تب پرائیویٹ اسکولوں کا چلن عام نہیں ہوا تھا اس لیے تمام بچّے ٹاٹ والے سرکاری سکولوں میں پڑھتے تھے۔ گھر کے پاس ہی ایک سرکاری پرائمری اسکول تھا۔ دونوں نے اپنی ابتدائی تعلیم وہی سے حاصل کی تھی۔ اس دوران وہ نہ صرف ہم جماعت رہے بلکہ ہائی اسکول میں بھی وہ ایک ہی کلاس میں پڑھتے رہے۔ ان کی زندگی کا یہ دور بہت ہی خوبصورت تھا۔ وہ اکثر شام کو اکٹھے فٹبال کھیلنے جایا کرتے۔ اس طرح وہ آپس میں اچھے دوست بن گئے اور ان کا زیادہ وقت بھی ساتھ ہی گزرنے لگا۔ یہ سلسلہ کالج پہنچنے تک جاری رہا۔
کالج لائف ان کی زندگی کا نیا تجربہ ثابت ہوا جہاں انہیں پہلی بار اس بات کا احساس ہوا کہ اب وہ بچّے نہیں رہے۔ ان کی مسیں بھی بھیگنے لگیں تھیں۔ انہوں نے پہلی بار دیکھا کہ ماسٹر صاحب جنہیں یہاں لیکچرر کہا جاتا تھا طالب علموں کو نہ تو مرغا بناتے تھے نہ ہی انہیں ڈنڈے سے پیٹتے تھے۔ اس کے برعکس یہاں تو الٹا طالب علم ہی استادوں کو آنکھیں دکھاتے تھے۔
کالج میں آنے کے بعد دونوں کو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہاں تعلیم سے زیادہ سیاست کی حکمرانی تھی جس کا کنٹرول ان طلباء تنظیموں کے ہاتھوں میں تھا جو کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے وابسطہ تھیں۔ اسکول کے گھٹن زدہ ماحول کی نسبت دونوں کو کالج کا یہ آزاد ماحول بڑا پسند آیا۔ لیکن اتفاق دیکھیے کہ دونوں نے نہ صرف دو مختلف، بلکہ فکری لحاظ سے متضاد تنظیموں میں شمولیت اختیار کرلی۔ وجہ شاید ان کے لاشعور میں دبی سوچ تھی یا ہوسکتا ہے کہ انہیں اپنے سینئر دوستوں کے افکار میں کشش محسوس ہوئی ہو۔
اب عموماَ دونوں کی آپس میں تکرار بھی رہنے لگی جو کبھی کبھار تلخی کا بھی باعث بنتی۔ یہی وہ دور تھا جب بچپن کے دونوں دوستوں میں دوریاں بڑھنے لگیں اور راستے جدا ہونے لگے۔ اسلم جو پہلے ایک چلبلا لڑکا ہوا کرتا تھا، اب غیر نصابی کتابوں میں کھویا رہنے لگا۔ اس کے چہرے پر وقت سے پہلے سنجیدگی بڑھنے لگی اور وہ اپنے آپ سے لاتعلق نظر آنے لگا۔ اس کی ساری شوخی گویا ہوا ہوگئی اور وہ اپنی عمر سے بڑا دکھائی دینے لگا۔ اس کے دوست بھی اب اسے کامریڈ کہہ کر بلانے لگے۔
دوسری طرف اس نے بھی اپنے نام کے ساتھ جعفری کا اضافہ کردیا۔ ساتھ ہی اس نے شیو بنانی بھی چھوڑ دی جس کے باعث اس کے چہرے پر ایک خوبصورت ہلکی داڑھی سج گئی۔
مصروفیات تبدیل ہوئیں تو دونوں میں رابطہ بھی کم ہونے لگا۔ اب وہ شام کو اکٹھے فٹ بال کھیلنے کے بجائے الگ الگ مقامات پر بحث اور لیکچرز میں شرکت کرنے لگے۔ اس دوران اگر کبھی اتفاق سے دونوں کی سرِ راہ ملاقات ہو بھی جاتی، تو وہ رسمی علیک سلیک کر کے گزر جانے کو ترجیح دیتے۔
کالج کا مرحلہ طے ہوا تو اسلم نے شہر کی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ اب وہ پہلے کی نسبت کافی بردبار ہوچکا تھا اور ہمیشہ انقلاب کی باتیں کرنے لگا تھا جبکہ اس نے بھی ایک برادر ملک کی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔
کئی سال گزر گئے۔ وہ لوٹ کے واپس آیا تو ایک مذہبی اسکالر بن چکا تھا۔ جب کہ کامریڈ نے ایک سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ دونوں کو اپنے اپنے حلقہء احباب میں کافی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اب ان کی مصروفیات بھی بڑھ گئیں تھیں، لہٰذا ان کا آمنا سامنا اور بھی کم ہونے لگا تھا لیکن چونکہ دونوں آپس میں حریف تھے اس لیے ایک دوسرے کی مکمل خبر رکھتے تھے۔
پھر یوں ہوا کہ شہر کے حالات بگڑنے لگے۔ بم دھماکے اور قتل و غارت روز مرہ کا معمول بن گئے جن کی وجہ سے سیاسی سرگرمیاں بھی محدود ہونے لگیں۔ حالات زیادہ خراب ہوئے تو لوگوں میں ترک سکونت کا احساس بھی بڑھنے لگا۔ ایسے میں جس کو جہاں کی راہ سجھائی دی وہ اسی طرف چل نکلا۔ وہ دونوں بھی انہیں لوگوں میں شامل تھے۔
پارک میں رش بڑھ رہا تھا۔ آج ہفتے کا دن تھا اس لیے ہر طرف چہل پہل تھی۔ ان کی بیویاں آپس میں گفتگو میں مصروف تھیں جبکہ بچّے اب بھی پاس ہی کھیل کود میں مشغول تھے۔ دونوں سرجوڑے اپنی کہانیاں سنانے میں مصروف تھے۔
کب پاکستان سے نکلے، بیوی بچّوں کو کیسے بلایا، کہاں کہاں اور کیسی کیسی مزدوریاں کیں اور اب کیسی گزر رہی ہے، ان موضوعات پر کافی گفتگو ہوئی۔
دونوں کے تجربات لگ بھگ ایک جیسے ہی تھے۔
“یار جعفری ایک بات پوچھوں، برا تو نہیں مناؤ گے؟” کافی گپ شپ ہوچکی تو کامریڈ نے ہونٹوں پر تبسم لاتے ہوئے پوچھا۔
“نہیں بالکل نہیں” جعفری نے بھی سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
“تم تو ہمیشہ مغربی ملکوں کی بے حیائی کے خلاف بولتے تھے پھر تم نے کسی اسلامی ملک میں پناہ لینے کے بجائے اس غیر مسلم مغربی ملک کا انتخاب کیوں کیا؟” اسلم کی مسکراہٹ ایک لمحے کے لیے طنز میں بدل گئی۔
جعفری کے چہرے کا رنگ کچھ دیر کے لیے بدل سا گیا لیکن اس نے جواب دینے کے بجائے الٹا اسلم سے سوال کر ڈالا کہ تم بھی تو ہمیشہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بولتے نہیں تھکتے تھے پھر کیا وجہ ہے کہ تم نے کسی سوشلسٹ ملک کے بجائے ایک ایسے ملک میں زندگی گزارنے کو ترجیح دی جہاں مکمل سرمایہ دارانہ نظام نافذ ہے؟
ماحول میں کچھ دیر کے لیے سنّاٹا چھا گیا اور دونوں گفتگو بھول کر دائیں بائیں دیکھنے لگ گئے۔ پھراچانک کامریڈ کا ایک پھیکا سا قہقہہ بلند ہوا اور اس نے جعفری کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا:
“چھوڑو یار ہم بھی کیا فضول بات لے کے بیٹھ گئے۔ ایسا کرو کہ مجھے اپنا فون نمبر دو اور میرا نمبر بھی نوٹ کر لو۔ اگلے ہفتے تم بھابھی اور بچّوں سمیت میرے گھر آرہے ہو جہاں ہم باربی کیو کریں گے اور بڑی اسکرین پر جرمنی اور ارجنٹائن کے درمیان ہونے والا فٹ بال کا فائنل میچ دیکھیں گے۔” کامریڈ اپنے قیمتی آئی فون پر انگلیاں پھیرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی دیکھا دیکھی جعفری بھی اٹھنے لگا۔
دونوں ایک بار پھر گلے ملے لیکن اس بار وہ کچھ زیادہ دیر تک بغلگیر رہے۔
یہ افسانہ پہلی بار ڈان اردو پر شائع ہوا۔
دردِ مشترک
حسن رضا چنگیزی
شائع اپريل 10, 2015 03:14