بھاگ دوڑ
بھاگ دوڑ ۔
عوامی نمائندے چاہے کسی بھی درجے کے ہوں جب ترقیاتی کام یا کسی قسم کی تعمیرات کرواتے ہیں تو وہ عوام پر کوئی احسان نہیں کر رہے ہوتے ۔ بلکہ وہ عوام ہی کے پیسے انہی پر خرچ کر رہے ہوتے ہیں ۔
یہ وہی پیسے ہیں جوعوام مختلف ٹیکسز کی شکل میں حکومت اور ریاست کو ادا کرتی ہیں ۔
ہاں وہ نمائندے یقیناَ تعریف کے مستحق ہیں جو عوام کے خون پسینے کی کمائی کو امانت سمجھتے ہیں اور اسے شیر مادر سمجھ کر نوش جان کرنے کے بجائے ایمانداری سے واپس عوام کو سونپتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے ۔
دور کیوں جائیں ؟ زرا آس پڑوس کی بات کرتے ہیں ۔
جنرل موسی بوائز کالج ، عیسیٰ خان گرلز ہائی سکول ، ہزارہ سوسائٹی ہائی سکول اور حسن موسیٰ گرلزکالج سمییت دیگر کئی ادارے ایسے ہیں جو ایک ایسے عوامی نمائندے کی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں جس نے عوامی نمائندگی کا حق بھر پور طریقے سے ادا کیا اور جو آج بھی “گمشدہ” ہونے کے بجائے معاشرے کے ہر دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں ۔
بے شک بعد میں آنے والے عوامی نمائندوں نے بھی ان اداروں کی توسیع اور بہتری میں اپنا حصہ ڈالا جبکہ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے کسی پہلے سے تعمیر شدہ عمارت کی دیوار میں نصب پرانی تختی اکھاڑ کے اپنے نام کی تختی لگا کر تاریخ میں اپنا نام ثبت کیا اور گم شدہ ہوگئے۔
ایسی مثالیں بھی عام ہیں کہ عوام کے لئے بنائی گئی عمارتوں کو اپنے یا اپنے اجداد کے ناموں سے منسوب کرنے میں بھی ایک مقابلہ دیکھنے میں آیا جو کبھی کبھار نزع کا بھی باعث بنا ۔ لیکن اس کے باوجود اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی عار نہیں کہ اگر بلوچستان کے باقی عوامی نمائندے بھی اپنے فنڈز کا اسی “ایمانداری” سے استعمال کرتے تو آج صوبے کی حالت کچھ اور ہی ہوتی اور ڈاکٹر مالک کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ مری آباد شہر کے باقی علاقوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہے ۔
عوامی فنڈز کو ایمانداری سے خرچ کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کوئی ان پیسوں کو اپنی جیب میں ڈالنے کے بجائے نالی میں پھینک دیں اور قسمیں کھاکر ہر ایک کو بتاتا پھرے کہ حرام ہے اگر میں نے ایک پیسہ بھی اپنی ذات پر خرچ کیا ہو یا اپنی جیب میں ڈالا ہو ۔
میرے خیال میں کسی عوامی نمائندے کو مفاد عامہ کے کام انجام دیتے وقت اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہئے ۔ پہلے سے بنی سڑکوں پر تارکول ڈال کر ان کا اور سرکاری فائلوں کا تو منہ کالا کیا جاسکتا ہے لیکن عوام کی آنکھوں پر پٹی نہیں چڑھائی جاسکتی ۔
مری آباد پہاڑ کے دامن میں گلستان ٹاؤن کے ایک عام پلاٹ کے رقبے کے برابر (دروغ بر گردن راوی) یعنی محض چار ہزار سکوائر فیٹ پر بلوچستان یونیورسٹی کا کیمپس بنانے کا عمل بھی گویا ایسا ہی ہے جیسے عوام کے پیسوں کو گٹر میں بہانا ۔ جسکا راستہ “گنج شہداء” سے ہو کر گزرتا ہے ۔ جبکہ اسی “پرفضاء” مقام سے صرف کچھ سو میٹر کی دوری پر ہموار اور چٹیل میدان موجود ہے ۔
مانا کہ پچھلے کچھ سال ہم پر قیامت بن کر گزرے ہیں ۔ یہ بھی قبول کہ آئندہ کچھ سالوں میں بلوچستان یونیورسٹی کا ایک کیمپس ہمارے گھر کی دہلیز پر ہوگا تو ہمارے نوجوان پیدل چل کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جایا کریں گے ۔ جہاں انہیں کسی ایسی بس پہ سوار نہیں ہونا پڑے گا جس پر خود کش حملے کا خطرہ ہو ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کیمپس ایسی پہاڑی پر بنانا ضروری تھا جہاں ایک عرصے سے بھاری مشینیں پتھر کوٹنے کا کام کر رہی ہیں لیکن نتیجہ صفر ؟ جہاں تک پہنچنے کے لئے رستے بھر اگربتی کی خوشبو میں لپٹی ماتم اورسسکیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ؟
شاید اس کیمپس تک پہنچنے کے لئے کسی متبادل راستے کا بھی انتخاب ہوا ہوگا ۔ لیکن میں ایک بار پھر وہی سیدھا سادہ سوال کرنے کی اجازت چاہوں گا کہ یہی کام تو کچھ ہی فاصلے پر 25٪ خرچے اور کم تر عرصے میں بخوبی انجام دیا جاسکتا تھا ۔۔۔۔۔۔؟
چلئے آنکھیں بند کرکے درگزر سے کام لیتے ہیں ۔ ویسے بھی نقار خانے میں طوطی کی آواز سنتا کون ہے ؟ لہٰذا آئیے موضوع تبدیل کرتے ہیں ۔
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ہمارے ہاں ایک ایسے کمیونیٹی ہال کی بہت زیادہ ضرورت ہے جہاں بھاری بھرکم فیس کے عوض شادی بیاہ کی تقریبات منعقد کرنے کے بجائے عوامی مسائل پر مباحثے ، کانفرنسز ، سیمینارز اور لیکچرز سمیت کلچرل پروگراموں کا انعقاد ہو ۔ تاکہ دیواروں میں محصور علاقے کی عوام کو مثبت سرگرمیاں میسر آسکیں ۔
یقیناَ آپ یہی سوچ رہے ہونگے کہ جو قومی ادارے پہلے ہی ایسے کمیونیٹی ہالز کے مالک ہیں انہوں نے اب تک کیا تیر مارا ہے ؟
میری بات مانیں تو ان کا ذکر ہی نہ کریں تو بہتر ہوگا کیونکہ وہ ایسے میرج ہالز اور کاروباری مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں جن کی سالانہ کروڑوں روپیوں کی آمدنی کا “حساب کتاب” کرنے کی نہ تو حکومت میں سکت ہے نہ ہم اور آپ میں ۔
ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد “ہر کہ برآمد او محروم شد”
آپ نے وہ لطیفہ ضرور سن رکھا ہوگا کہ ایک مرتبہ جب جنگل کا بادشاہ یعنی شیر کچھ دنوں کی رخصت پر جانے لگا تو اس نے ایک بندر کو اپنا جانشین مقرر کیا ۔
اگلے دن ایک ہرن گھبرایا ہوا آیا اور بندر سے شکایت کرنے لگا کہ پڑوس کا بھیڑیا مجھے بڑی خونخوار نظروں سے گھور تا رہتا ہے ۔ مجھے اس سے اپنی جان کا خطرہ ہے اس لئے آپ کچھ کریں ۔
ہرن کی فریاد سن کر بندر نے ایک چھلانگ لگائی اور درخت کی سب سے اونچی شاخ پرجا بیٹھا اور ایک ٹہنی پکڑ کر جھولنے لگا ۔ کبھی وہ قلابازی کھا کر زمین پر آجاتا تو کبھی اچھل کر پھر درخت پر چڑھ جاتا ۔ اسے اچھل کود کرتے کافی دیر ہوگئی تو ہرن بیزار ہوکر پوچھنے لگا کہ حضور آپ کرتب ہی دکھاتے رہیں گے یا میرا مسئلہ بھی حل کریں گے ؟
بندر ایک ٹہنی سے جھولتے ہوئے بولا :
ارے بے وقوف ؛ دیکھتے نہیں میں کتنی بھاگ دوڑ کر رہا ہوں ، یہ ساری بھاگ دوڑ تمہارے لئے ہی تو ہے ۔
آئیے ہم بھی بندروں کی بھاگ دوڑ دیکھتے اور واہ واہ کرتے ہیں ۔