پرچون کی دکان

پرچون کی دکان ۔

13 مئی، 2015 ۔۔۔۔

اسے یہاں آئے کئی گھنٹے ہوچکے تھے ۔ وہ بڑی بے تابی سے اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا ۔ کمرے میں لوگوں کی بھیڑ لگی تھی ۔ کچھ لوگ نشست نہ ملنے کے باعث ٹہلنے میں مصروف تھے ۔ سبھی کو اپنی باری کا انتظار تھا ۔ اس نے ہاتھوں میں ایک فائل تھام رکھی تھی اور دل ہی دل میں اس بات کی دعا مانگ رہا تھا کہ کسی طرح اسے حاجی صاحب سے ملنے کا موقع میسر آسکے کیونکہ اب وہی اس کی آخری امید تھے ۔ 

حاجی صاحب علاقے کی ایک مشہور شخصیت تھے ۔ وہ بڑے دین دار اور ہر ایک کے دکھ درد میں شریک رہنے والے شخص تھے ۔ انکے مریدوں کی تعداد لاکھوں میں تھی ۔ وہ ایک سیاسی پارٹی کے بڑے عہدیدار بھی تھے ۔ طبیعت میں چونکہ خوش اخلاقی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لئے سبھی ان کی عزت کرتے تھے ۔ لیکن جب سے وہ انتخابات جیت کر وزیر بنے تھے تب سے ان کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی تھی ۔ اب وہ پہلے سے زیادہ مصروف رہنے لگے تھے اور ان کے ارد گرد لوگوں کی بھیڑ میں بھی اضافہ ہو گیا تھا ۔ حاجی صاحب کا دفتر شہر کے سب سے محفوظ اور پرسکون علاقے میں تھا جہاں کی سیکیوریٹی انتہائی سخت تھی اور عام لوگوں کو وہاں پہنچنے تک تلاشی اور پوچھ گچھ کے طویل مراحل سے گزرنا پڑتا تھا ۔ اسے بھی یہاں تک پہنچنے کے لئے کافی جتن کرنے پڑے تھے ۔ پڑوس میں رہنے والے ملک صاحب نہ ہوتے تو وہ شاید یہاں تک بھی نہ پہنچ پاتا ۔
وہ ایک درمیانے درجے کا سرکاری ملازم تھا ۔ اسکا خاندان زیادہ بڑا نہیں تھا ۔ ابّو کچھ سال قبل وفات پاچکے تھے جبکہ امی زیادہ تر بیمار رہتی تھی ۔ بیٹے کا سکول میں پہلا سال تھا جبکہ بیٹی ابھی صرف دو سال کی تھی ۔ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ اسے بیوی بڑی سگھڑ ملی تھی جس نے آتے ہی گھر کا سارا انتظام سنبھال لیا تھا یوں اس کا یہ مختصر کنبہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا ۔
شہر کے حالات کافی عرصے سے خراب چلے آرہے تھے ۔ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب کہیں سے کسی بم دھماکے یا ٹارگٹ کلنک کی خبر نہ آتی ہو ۔ شہر کی رونقیں عرصہ ہوئے ماند پڑچکی تھیں اور لوگ زیادہ تر گھروں میں رہنے کو ترجیح دینے لگے تھے ۔ اس کے لئے اطمینان کی بات یہ تھی کہ اس کا دفتر شہر کے نسبتاَ محفوظ علاقے میں تھا جہاں سیکیوریٹی کا خاطر خواہ انتظام تھا ۔ اس کے باوجود اسے ہمیشہ اپنی جان کا کھٹکا لگا رہتا تھا کیونکہ اس کے کئی جاننے والے دفتر آتے جاتے نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن چکے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھی وہ گھر سےدفتر کے لئے نکلتا تو اس کی ماں دعائیں پڑھ کر اس پر پھونکنے لگتی جبکہ بیوی بھی اس کےگھر واپس آنے تک انگاروں پر لوٹتی رہتی ۔
وہ شروع سے ہی محنتی اور ایماندار تھا ۔ ہمیشہ ٹھیک وقت پر دفتر پہنچتا ۔ اسے لوگوں کے مسائل حل کرکے بڑی خوشی محسوس ہوتی ۔ دفتر کے باقی لوگ اسے زیادہ پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ رشوت نہیں لیتا تھا اس لئے لوگوں کے جو کام مہینوں پھنسے رہتے تھے وہ انہیں کچھ دنوں میں ہی نمٹا لیتا تھا ۔ اس کی تنخواہ اس قابل تھی کہ وہ اپنے مختصر کنبے کو بہ آسانی سنبھال سکے ۔ یوں تمام تر خرابی حالات کے باوجود وہ اپنی زندگی سے نہ صرف مطمئن تھا بلکہ ہر لمحے خدا کا شکر ادا کرتا رہتا تھا ۔
اس کی زندگی میں بھونچال تب آیا جب اس کی ایک ایسے علاقے میں ٹرانسفر ہوگئی جہاں حالات حد سے زیادہ خراب تھے ۔ وہ شہر سے دور ایک انتہائی خطرناک اور بدنام علاقہ تھا جہاں سے آئے دن نہ صرف لوگوں کے قتل کی خبریں آتی تھیں بلکہ وہاں حکومت کی عملداری بھی نہ ہونے کے برابر تھی ۔ کسی سرکاری ملازم کے لئے تو وہ علاقہ پھانسی گھاٹ سے ہر گز کم نہیں تھا ۔
ایسے میں ٹرانسفرکی خبر اس کے لئے موت کے پروانے سے ہرگز کم نہیں تھی ۔ اس کی نظروں کے سامنے اپنی بیمار ماں اور بیوی بچّوں کے چہرے گھومنے لگے ۔ ماں کو خبر ہوئی تو تسبیح لے کے بیٹھ گئی اور مصلیٰ بچھاکے دعاوؤں کا ورد کرنے لگی ۔ بیوی کے بھی چہرے کا رنگ اُڑ گیا ۔ وہ خود بھی اگلی کئی راتوں تک ٹھیک طریقے سے نہیں سوسکا ۔
ایک ہفتہ اس پر اور اسکے خاندان پر بڑا بھاری گزرا ۔ ایک مرتبہ تو جی میں آیا کہ نوکری چھوڑ کر گھر کے پاس ہی کوئی پرچون کی دکان کھول لے تاکہ کسی نامعلوم گولی کا نشانہ بننے یا اغوا ہونے سے بچ سکے لیکن دوستوں کے سمجھانے پراس نے اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کرلیا ۔ اب اسے کسی طرح حاجی صاحب سے ملنے کا طریقہ ڈھونڈنا تھا ۔
وہ اپنی باری کے انتظار میں بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا ۔ ملک صاحب بھی بار بار اپنی گھڑی کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ سہ پہر ہونے لگا تھا جب کسی نے انکا کا نام پکارا ۔ دونوں ہڑ بڑاگئے اور جلد ہی اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔
وہ کمرے میں داخل ہوئے تو حاجی صاحب کسی سے فون پر بات کر نے میں مصروف تھے ۔ دونوں خاموشی سے کمرے میں رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔
جی حکم کریں : حاجی صاحب نے فون رکھتے ہوئے خوش اخلاقی سے کہا ۔
ملک صاحب نے اسے کہنی ماری تو اس نے کھنکار کے گلا صاف کیا اور مدعا بیان کرنے لگا ۔
اگر آپ کسی طرح میرا ٹرانسفر رکوا دیں تو بڑی مہر بانی ہوگی ۔ اس نے اپنی مجبوری بیان کرکے امید بھری نظروں سے حاجی صاحب کی طرف دیکھا ۔
حاجی صاحب کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے شفیق لہجے میں سوال کیا : کیا تم مسلمان ہو ؟
جی الحمد للہ ۔ اس نے دھیرے سےجواب دیا ۔
“پھرتو تمہیں اس بات کا بھی یقین ہونا چاہئے کہ موت برحق ہےجس کا ایک وقت مقرر ہے اورجسے کوئی نہیں ٹال سکتا نہ ہی اس کا وقت آگے یا پیچھے کیا جاسکتا ہے ۔ تمہیں اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہونی چاہئے کہ ملک و قوم کی خاطر اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران مارا جائے والا شہید ہوتا ہے جو سیدھا جنت میں جاتا ہے ۔ اس لئے میری بات مانو تو مرد بنو اورموت سے ڈرنا چھوڑ دو ، اللہ پر ایمان رکھو اور اپنے فرائض بلا خوف و خطر انجام دیتے رہو۔ کیونکہ اگر تمہاری موت کا وقت نہیں آیا تو کوئی مائی کا لال تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا لیکن اگر تمہاری قسمت میں مرنا لکھا ہے تولاکھ موت سے بچنے کی کوشش کرو تم نہیں بچ پاؤگے۔” حاجی صاحب نے تسبیح گھماتے ہوئے کہا۔
وہ تھوک نگل کے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک آواز سنائی دی :
سر چلئے ، کھانے پر آپ کا انتظار ہورہا ہے ۔
حاجی صاحب معزرت کرکے اٹھنے لگے۔
ان کے پاس بھی اٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا لہٰذا باہر نکل آئے ۔ نیچے سڑک پرپہنچے تو دیکھا کہ وہاں گاڑیوں کی قطار لگی تھی جن پر جدید اسلحوں سے لیس محافظ بیٹھے ہوئے تھے ۔ درجنوں پولیس والے بھی مستعد کھڑے نظر آئے ۔ وہ آگے بڑھنے لگے تو کسی نے ڈانٹ کر انہیں بڑھنے سے منع کردیا ۔ اسی اثناء حاجی صاحب بھی باہر نکلے جنہیں کچھ ذاتی مسلح محافظوں نے گھیر رکھا تھا ۔ پھر جونہی حاجی صاحب اپنی بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھنے لگے تو سائرن کی آوازیں بھی ابھرنے لگیں ۔
وہ گھر پہنچا تواس بات کا فیصلہ کرچکا تھا کہ وہ نوکری چھوڑ کر پاس ہی کوئی پرچون کی دوکان کھول لے گا ۔

نوٹ؛یہ افسانچہ پہلی بار ڈان اردو پر شائع ہوا ۔

http://www.dawnnews.tv/news/1020457/29apr2015-khatarnak-nokri-ya-parchun-ki-dukan-hassan-raza-changezi-bm

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.