مارے بھی اور رونے بھی نہ دے
مارے بھی اور رونے بھی نہ دے
گزشتہ پندرہ سالوں میں 2000 کے قریب ہزارہ ،جنون کی قربان گاہ میں قربان کئے جا چکے ہیں ۔ ان میں بچّے بھی شامل ہیں اور بڑے بھی ۔ عورتیں بھی شامل ہیں اور مرد بھی ۔ کڑیل جوان بھی شامل ہیں اور بوڑھے بھی ۔
کسی کو نہیں بخشا گیا ۔ مزدور بھی مار دیئے گئے اور تاجر بھی ۔ سرکاری ملازمین کا بھی خون بہایا گیا اور سبزی فروشوں کا بھی ۔ سیکیولر بھی مارے گئے اور قوم پرست بھی ۔ مذہب کے شیدائیوں کو بھی قتل کیا گیا اور مذہب کا مذاق اڑانے والوں کو بھی ۔
یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور شاید آگے بھی جاری رہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہزارہ قوم کو تو اونچی دیواروں میں قید کر دیا گیا ہے لیکن ان کا قتل عام کرنے والے ریاستی پالتوؤں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے ۔
احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسائی جاتی ہیں اور انہیں عقوبت خانوں میں ڈال دیا جاتا ہے جبکہ قاتلوں کی خاطر مدارات کی جاتی ہے ۔
قاتل سارے شہر میں دندناتے گھومتے پھرتے ہیں جبکہ مقتولوں کو اس بات پر قصور وار ٹہرایا جاتا ہے کہ انہوں نے قفس سے نکلنے کی جرات کیسے کی ۔
شریف برادران یہ سوچ کر مطمئن ہیں کہ ان کے اتحادی (لشکر جھنگوی) پنجاب میں کاروائیاں نہ کرکے معاہدے کی مکمل پاسداری کر رہے ہیں جبکہ ڈاکٹر مالک یہ کہہ کر تمام ذمہ داریوں سے پہلے ہی عہدہ برآں ہو چکے ہیں کہ
” یہ خود آئسولیشن سے نکلنا نہیں چاہتے “
جہاں تک میڈیا کی بات ہے تو وہ آیان علی کی اداؤں اور ایگزیکٹ کی خبروں سے باہر نکلے کو تیار نہیں ۔ ایسے میں وہ ایک “اقلیتی نسلی گروہ ” کے قتل عام کے بارے میں کیوں کر بات کریں گے جس سے انہیں اشتہار ملنے کی کوئی توقع نہیں ۔
ہماری مثال تو ایسی ہے کہ ہمیں مار بھی پڑ رہی ہے اور رونے بھی نہیں دیا جا رہا ۔