تاش کی بازی
تاش کی بازی
وہ بڑے انہماک سے تاش کھیلنے میں مگن تھے جبکہ ان کا دوست کباب کی تیاری میں مصروف تھا ۔ پاس ہی ایک چھوٹی ندی بہہ رہی تھی جس میں اچھلتے صاف پانی کی آواز سے مدھر موسیقی کا گمان ہو رہا تھا ۔ یہ جولائی کا مہینہ تھا اور گرمی اپنے عروج پر تھی ۔ ایسے میں شہر کے مضافات میں واقع یہ سر سبز پہاڑی مقام گرمی کے ستائے افراد کے لئے کسی نعمت سے ہرگز کم نہیں تھا ۔
آج چونکہ چھٹی کا دن تھا اس لئے بھیڑ بھی زیادہ تھی اور لوگ مختلف ٹولیوں میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ ہر طرف سے ڈھول ، موسیقی اور قہقہوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں ۔ ایسے میں پہاڑی درّے سے آنے والی خنک ہوا میں بسی کبابوں کی اشتہاء انگیز خوشبو انہیں بھوک کا شدت سے احساس دلا رہی تھی ۔ کباب کے تیار ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا اس لئے وہ تاش کھیل کر اپنا وقت بِتانے میں مصروف تھے تبھی نوید کے موبائل فون کی گھنٹی بجی ۔
اس نے ٹٹول کر اپنا موبائل نکالا ، ایک نظر اس کی سکرین پر ڈالی اور ایک بٹن دبا کے فون اپنے کانوں کے ساتھ لگا لیا ۔ دوسری طرف اس کی بیوی تھی جو ہیجانی آواز میں کچھ بول رہی تھی ۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آیا ۔ دیکھا تو موبائل کے سگنل ٹھیک کام نہیں کر رہے تھے ۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک نسبتاَ اونچی جگہ پر جا کھڑا ہوا ۔
نوید تم کہاں ہو، بیوی نے رودینے والی آواز میں پوچھا ؟
میں دوستوں کے ساتھ پکنک پر آیا ہوں ، صبح تمہیں بتایا تو تھا ۔ لیکن تم رو کیوں رہی ہو، نوید نے پریشان ہوکر پوچھا ؟
وہ ٹی وی پر خبریں آرہی ہیں کہ شہر میں ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا ہے جس میں بہت سارے لوگ زخمی ہو گئے ہیں ۔ مجھے تو بڑا ڈر لگ رہا ہے ۔ بیوی نے جواب دیا!
دیکھو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، میں یہاں بالکل ٹھیک ہوں ۔ ہاں یہ بتاؤ کہ دھماکہ کہاں ہوا ہے اور انور کہاں ہے ، نوید نے اپنے نوجوان بیٹے کے بارے میں پوچھا ؟
دھماکہ کسی پارک کے قریب ہوا ہے ۔ میرا تو دل بیٹھا جارہا ہے ۔ انور کا بھی فون نہیں لگ رہا وہ ایک گھنٹہ پہلے اپنی موٹر سائیکل پر گھر سے نکلا تھا ۔ کہہ رہا تھا کہ اپنے کسی دوست کے ساتھ گھومنے جارہا ہے ۔ یہ کہہ کر بیوی نے ایک بار پھر رونا شروع کردیا ۔
اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ اس نے بیوی کو حوصلہ دیتے ہوئے فون بند کردیا اور دوڑتے قدموں سے واپس دوستوں کی طرف جانے لگا ۔
تب دوست تاش کی بازی لپیٹ کر دسترخوان بچھا چکے تھے جس پر رکھے کبابوں سے دھواں اٹھ رہا تھا ۔
وہ وہاں پہنچا تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں ۔ اس نے پھولی سانسوں کے درمیان دوستوں کو گھر سے آنے والی فون کال کے بارے میں بتایا ۔ یہ سن کر تمام دوستوں کے چہرے سفید پڑ گئے اور وہ اپنے اپنے موبائل نکال کر فون کرنے لگ گئے ۔ سب کو اپنوں کی فکر تھی ۔
فون کے سگنلز چونکہ ٹھیک کام نہیں کر رہے تھے اس لئے انہیں چیخ چیخ کر بولنا پڑ رہا تھا جس کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے دھماکے کی خبر وہاں آئے تمام لوگوں تک پہنچ گئی اور ہر طرف ایک سراسیمگی سی پھیل گئی ۔ موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے لوگوں نے موسیقی کی آوازیں بند کردیں اور ایک دوسرے سے واقعے کے بارے میں استفسار کرنے لگے ۔ کسی کے پاس چونکہ کوئی ٹھوس اور تفصیلی اطلاع نہیں تھی اس لئے سب اپنے پیاروں کے بارے میں سوچ کر فکرمند ہونے لگے ۔ ۔
نوید اس لئے بھی زیادہ پریشان تھا کہ اس کے بیٹے انور کا فون نہیں لگ رہا تھا ۔ وہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا جو ابھی کالج کا امتحان دے کر فارغ ہوا تھا ۔ وہ بڑا نیک اور فرمانبردار لڑکا تھا ۔ اس میں بس ایک ہی خامی تھی کہ موقع ملتے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر گھومنے نکل جاتا تھا ۔ لیکن کیونکہ ان کے دوست کافی سلجھے ہوئے اور اچھے گھرانوں کے تھے اور وہ خود بھی ہمیشہ اندھیرا ہونے سے پہلے ہی گھر لوٹ آتا تھا اس لئے اس کے ماں باپ اس کی اس خامی کو نظر انداز کر دیا کرتے تھے ۔ آج بھی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں گھومنے نکلا تھا اور پریشانی کی بات یہ تھی کہ اس سے رابطہ نہیں ہو پارہا تھا ۔
خدا خیر کرے ! اس کا دل ڈوبنے لگا ۔ وہ آہستہ سے ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گیا ۔ اس کے باقی دوست بھی اس کے قریب آگئے ۔ کسی کے پاس کوئی مصدقہ اطلاع نہیں تھی ۔ اس لئے سب نے فیصلہ کیا کہ انہیں جلد گھر لوٹ جانا چاہئے ۔ انہوں نے جلدی میں اپنا سامان لپیٹنا شروع کیا اور کچھ دور کھڑی گاڑی میں رکھنے لگے ۔ دسترخوان بھی اسی طرح لپیٹ دیا گیا جس میں رکھے کبابوں سے اب بھی ہلکا سا دھواں اٹھ رہا تھا ۔ ان کی بھوک ختم ہو گئی تھی اور وہ سب کچھ بھول کر دل ہی دل میں بس یہی دعا کر رہے تھے کہ کاش ان کے پیارے خیریت سے ہوں ۔
وہ سب گاڑی میں بیٹھ گئے تو نوید نے گاڑی آگے بڑھائی ۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچا راستہ طے کرکے پکی سڑک پر پہنچتے انہیں سامنے سے ایک اور گاڑی آتی دکھائی دی جو غالباَ شہر کی طرف سے آرہی تھی ۔ نوید نے ایک ہی نظر میں گاڑی والے کو پہچان لیا ۔ وہ اس کے ہی محلے میں رہنے والا اختر تھا ۔ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو سامنے سے آنے والی گاڑی رک گئی ۔ نوید تیزی سے گاڑی سے اترا اور اختر کے پاس جاکر آج کے واقعہ کے بارے میں پوچھنے لگا ۔ پھر اس نے جیب سے موبائل نکالا اور ایک مختصر بات چیت کے بعد فون بند کرکے واپس جیب میں رکھ لیا ۔
باقی دوست گاڑی میں بیٹھے بے صبری سے اس کا انتظار کر رہے تھے ۔ وہ واپس آیا تو اس کے چہرے پر خوشی صاف دکھائی دے رہی تھی ۔ اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہی اس نے سٹیئرنگ گھمائی اور گاڑی کا رخ واپس موڑ دیا ۔
دوست حیران ہوئے اور بیک زبان بول پڑے کہ کیا ہوا ، ہمیں بھی تو کچھ بتاؤ؟
اختر ابھی شہر سے ہی آرہا ہے ۔ اس نے بتایا ہے کہ دھماکہ ایک پارک کے گیٹ پر ہوا ہے جس میں پچاس سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے ہیں جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے ۔ نوید نے پرانی جگہ گاڑی روکتے ہوئے مطمئن انداز میں کہا !
لیکن اس میں خوش ہونے والی کونسی بات ہے اور تم نے گاڑی واپس کیوں موڑ لی ، ایک دوست نے پوچھا ؟
خوشی کی بات یہ ہے کہ دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں اپنا کوئی نہیں بلکہ سارے پرائے لوگ ہیں ۔ اب پرایوں کے غم میں ہم کیوں اپنی پکنک خراب کریں ۔ اور ہاں میرا بیٹا بھی بالکل خیریت سے ہے ۔ ابھی میں فون پر اسی سے بات کر رہا تھا ۔
نوید کی بات سن کر سب دوستوں کی جان میں جان آئی اور وہ گاڑی سے اتر کر دوبارہ زمین پردری بچھانے لگے ۔ نوید نے دسترخوان کھولا تو کباب اب بھی گرم تھے ۔ ان کی بھوک دوبارہ چمک اٹھی تھی اس لئے سب نے جلدی جلدی ندی میں ہاتھ دھوئے اور کباب پر جھپٹ پڑے کیونکہ انہیں کھانا ختم کرکے پھر سے تاش کی بازی جمانی تھی ۔
یہ مختصر کہانی پہلی بار ڈان اردو پر شائع ہوئی ۔
http://www.dawnnews.tv/news/1021870/01june2015-taash-ki-bazi-hasan-raza-changezi-bm