غیر سیاسی باتیں
غیر سیاسی باتیں
07 جون، 2015۔
کوئی بارہ تیرہ سال پہلے کی بات ہے ۔ جمعہ کا دن تھا اور میں اپنے سٹوڈیو میں بیٹھا کسی البم کی مکسنگ میں مصروف تھا جب کنٹرول روم میں لگا لال بلب جلنے بجھنے لگا ۔ دروازے پر کوئی تھا ۔ آنے والا جدید وضع قطع کا ایک خوش پوش اور خوبصورت نوجوان تھا ۔ سلام دعا ہوچکی تو کہنے لگا کہ میں اپنا البم ریکارڈ کروانا چاہتا ہوں ۔ میں نے پوچھا کہ کیا پہلے بھی آپ نے کوئی گانا ریکارڈ کروایا ہے ؟ کہنے لگا کہ نہیں یہ میرا پہلا البم ہوگا ۔ پھر اس نے کراچی کے ایک بینڈ گروپ کا نام لیکر کہا کہ وہ کئی مہینوں تک اس بینڈ گروپ کا حصہ رہا ہے ۔
مجھے خوشی کے ساتھ حیرت بھی ہوئی ۔ خوشی یہ جان کر ہوئی کہ کوئٹہ کا ایک نوجوان کراچی کے اس معروف بینڈ کا حصہ رہا ہے جو نہ صرف بین الاقوامی طور پر انتہائی مشہور ہے بلکہ اس میں ایک سے بڑھ کر ایک پروفیشنل گانے بجانے والے نوجوان شامل ہیں ۔جبکہ حیرت اس بات کی تھی کہ میں نے اس بینڈ کے تمام اراکین کے بارے میں سن رکھا تھا جن میں اس کا نام شامل نہیں تھا ۔
میرے سٹوڈیو میں جرمن سروں والا ایک سُریلا ہارمونیم پڑا رہتا تھا ۔ میں نے وہ ہارمونیم اس نوجوان کے سامنے رکھا اور اسے کچھ سنانے کا کہا تاکہ اس کی آواز کی کوالٹی اور سر لے کا اندازہ کر سکوں لیکن اس نے یہ کہہ کر معزرت کرلی کہ وہ ہارمونیم نہیں بجا سکتا کیونکہ اس نے صرف گٹار بجانا سیکھا ہے ۔
میرے سٹوڈیو میں تب گٹار نہیں تھا اس لئے میں کچھ جھینپ سا گیا ۔ پھر میں نے اسے اپنی پسند کا کوئی گانا گانے کو کہا ۔
اس نے ایک لمبی سانس لی اور آنکھ بند کر کے کشور کمار کا ایک مشہور گانا گانے لگا ۔
میرے محبوب قیامت ہوگی
آج رسوا تیری گلیوں میں محبت ہوگی
ابھی وہ انترا گانے والا تھا جب میں نے اسے ٹوکا ۔ وجہ یہ تھی کہ وہ اس خوبصورت گانے کو ایسے گا رہا تھا جس طرح ہم پرائمری سکول میں دو کا پہاڑا پڑھا کرتے تھے ۔ نہ سُر کا دھیان ، نہ لے کی سمجھ اور نہ ہی تلفظ کی پرواہ ۔
خیر بات آئی گئی ہوگئی ۔ وہ نوجوان بھی اگلے کئی مہینوں تک نظر نہ آیا ۔ پھرایک دن جب میں ایک دوست کے سٹوڈیو میں بیٹھا ہوا تھا تو موصوف دوبارہ نظر آیا ۔ میں نے پوچھا کہ اتنے دن کہاں تھے ؟ کہنے لگا کہ کراچی میں کلاسیکی موسیقی سیکھنے گیا تھا۔ مجھے ایک بار پھر حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوئی اس لئے پوچھ بیٹھا کہ استاد کون تھے ۔ کہنے لگا استاد خدا بخش خان ۔
اگرچہ اس استاد یا گویے کا نام میں پہلی مرتبہ سن رہا تھا لیکن میں نے اس بارے میں اپنی لاعلمی کا اظہار کئے بغیر پوچھا کہ موسیقی سیکھنے کے لئے تو ایک عمر درکار ہوتی ہے یہ بتاؤ کہ تم نے ان پانچ مہینوں میں کیا سیکھا ؟
کہنے لگا کہ میں اتنا کچھ سیکھ گیا ہوں کہ اب موسیقی کے حوالے سے کسی کے ساتھ بھی بحث کر سکتا ہوں ۔
اس کا یہ فلسفیانہ جواب سن کر مجھے ایک لمحے کے لئے دھچکہ سا لگا لہٰذا کہنے لگا کہ موسیقی کا علم بحث کرنے کے لئے نہیں بلکہ پرفارم کرنے کے لئے سیکھا جاتا ہے ۔ کوئی بے شک گھنٹوں سر ، لے ، تال اور راگ راگنیوں کے بارے میں لیکچر دیتا رہے لیکن جب تک وہ عملی طور پر اسے گا یا بجا کر پیش نہیں کرے گا تو بات نہ صرف کسی کے پلّے نہیں پڑے گی بلکہ اس کا علم بھی ادھورا مانا جائے گا ۔ بلکہ میں نے تو یہاں تک کہا کہ ایسے کسی عمل کو علم کہنا بھی زیادتی ہوگی ۔ ہاں اسے معلومات ضرور کہہ سکتے ہیں ۔ میری بات سن کر وہ صرف مسکراتا رہا ۔ مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ میری عقل پر ماتم کر رہا تھا ۔
میں ایک ایسے بندے کو بھی جانتا ہوں جس نے کوئی پندرہ سال پہلے موسیقی پر دوسو صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھی تھی ۔ اس کا پسندیدہ مشغلہ یہی تھا کہ جونہی کوئی نو آموز گلوکار کچھ گانے لگتا موصوف فوراَ پوچھ بیٹھتا کہ کیا تم بتا سکتے ہو کہ یہ گانا کس راگ میں بنا ہے؟ پھر ایک ایسی فالتو کی بحث چِھڑ جاتی جسے سن کر نوآموز گلوکار بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھتا ۔ موسیقی کے معاملے میں اس کا رویہ کچھ ایسا تھا کہ استاد سراہنگ جیسے نابغہ روزگار کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا لیکن جب بصد فرمائش خود گانے لگتا تو سامعین کے پیٹ میں یکدم مروڑ اٹھنے لگتے اور وہ ایک ایک کرکے محفل سے اٹھ کر بھاگ جانے کو ترجیح دیتے۔
سنا ہے آجکل وہ موسیقی سکھانے والا ایک ادارہ کھول کے بیٹھا ہوا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی شاگرد اس کے ادارے میں کچھ ہفتوں سے زیادہ نہیں ٹک پاتا ۔