Reference
پکچر ابھی باقی ہے دوست۔۔۔
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
14 جولائ 2015
جون میں شروع ہونے والے ویانا مذاکرات کے حتمی دور میں کڑی سودے بازی ہوئی
ایران کا جوہری پروگرام 58 برس پرانا ہے۔ 1957 میں امریکہ کی آئزن ہاور انتظامیہ نے ایٹم برائے امن کی اسکیم کے تحت پاکستان اور ایران سمیت کئی ترقی پذیر ممالک کو پانچ میگاواٹ قوت کے ریسرچ ری ایکٹر فراہم کیے جن کے لیے افزودہ مواد بھی امریکہ دیتا تھا۔
1968 میں جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے کے ابتدائی دستخط کنندگان میں ایران بھی شامل تھا۔
سمجھوتے کے فریقوں کو پابند کیا گیا کہ ان کی ایٹمی سرگرمیاں جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کے قوانین و نگرانی کے تابع ہوں گی۔(اسرائیل، پاکستان اور بھارت نے اس سمجھوتے پر آج تک دستخط نہیں کیے)۔
شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی نے 1974 میں اعلان کیا کہ چونکہ تیل ایک دن ختم ہو جائے گا لہٰذا پیش بندی کے طور پر ایران 1994 تک 23 ہزار میگا واٹ ایٹمی بجلی پیدا کرے گا۔ آٹھ امریکی کمپنیوں سمیت درجن بھر مغربی اداروں سے ٹینڈر طلب کیے گئے۔ ایک جرمن کمپنی سیمنز نے بوشہر میں 1200 میگاواٹ کے پہلے پلانٹ کی تعمیر شروع بھی کر دی۔