یہ سب تمھارا کیا دھرا ہے
یہ سب تمھارا کیا دھرا ہے !
ہمارے مولویوں کے ہم پر اتنے احسانات ہیں کہ ہم چاہیں بھی تو ان کا بدلہ نہیں چکا سکتے ۔ اب یہ احسان کیا کم ہے کہ انہوں نے ایک ایسے قبرستان کو بہشت کا درجہ دے رکھا ہے جہاں سے ہر دم ماتم کی صدائیں آتی ہیں ، جہاں ہر دوسری قبر پر کوئی ماں اپنے نوجوان بیٹے کو یاد کرکے رو رہی ہوتی ہے ، جہاں ہر لمحے کوئی بہن اپنے کڑیل جوان بھائی کی قبر پر نوحہ کنان نظر آتی ہے ، جہاں بچّے اپنے والد اور گھر کے واحد کفیل کو یاد کرکے آنسو بہا رہے ہوتے ہیں ، جہاں ہر وقت کوئی بوڑھا باپ اپنے بچّے کی تصویر سینے سے لگائے کسی خالی قبر کو تکتا رہتا ہے ، جہاں کوئی سہاگن اہنے سہاگ کی قبر کو آنسوؤں سے سیراب کر رہی ہوتی ہے اور جہاں ان گنت چھوٹی قبروں پر کچھ والدین شمع جلائے ، سر نہیوڑائے اور آنسو بہاتے خاموشی سے بیٹھے نظر آتے ہیں ۔
ہاں یہ وہی بہشت ہے جہاں سے گزرتے وقت اگر بتی کی بو سے دم گھٹنے کا احساس ہوتا ہے اور جہاں ہر دس قدم کے فاصلے پر کوئی بھکاری ہاتھ پھیلائے یا کوئی بھکارن چادر پھیلائے خیرات مانگتی نظر آتی ہے ۔
اور اسی شہر خموشاں اور شہر ماتم کو ہمارے مولویوں نے بہشت کا نام دے رکھا ہے جسکا مطلب یہی ہے کہ
• ہم چاہیں کتنے بھی گناہ کرلیں ، جائیں گے بہشت میں ہی ۔
• بے شک ہم زیادہ ہیروئین پی کر کچرے کے ڈھیر پر ڈھیر ہوجائیں یا جوئے کے اڈے پر جھگڑے کے دوران قتل ہوجائیں ۔
• سڑک پار کرتے وقت کسی کچرا اٹھانے والی گاڑی کے نیچے آکر کچل جائیں یا بجلی کے تاروں پر کنڈا ڈالتے وقت کرنٹ لگنے سے ہمارا دیہانت ہو ۔
• پتنگ لوٹتے وقت چھت سے سر کے بل گر پڑیں یا سیلاب کی نظر ہوجائیں ۔
ایک بات تو سو فیصد کنفرم ہے کہ جائیں گے ہم بہشت میں ہی ۔ کیونکہ ہماری تدفین ” بہشت زینب ” میں ہی ہوگی ۔
ہمارے مولوی ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ ” راہ حق ” میں مرنے والے سیدھے جنت میں جائیں گے کیونکہ انہیں سیدھا ” بہشت زینب ” میں دفنا دیا جائے گا ۔
لیکن کیا کریں کہ بہشت زینب کی زمین دن بہ دن کم پڑتی جا رہی ہے اور اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ جلد ہی یہ ” بہشت ” دوبارہ ” قبرستان ” میں تبدیل ہو جائے ۔
اس کے بعد بہشت کے شیدائیوں کا کیا ہوگا یہ کوئی ان سے پوچھے جنہوں نے ” قبرستان ” کو ” بہشت ” کا نام دے رکھا ہے ۔