بونڈائی بیچ (Bondi Beach)

بونڈائی بیچ      (Bondi Beach) 

کچھ سال پہلے ایک دن میں حسب معمول ایک ڈاکیومنٹری چینل دیکھ رہا تھا جس پر بونڈائی بیچ کے نام سے ایک مقبول ریئلیٹی شو چل رہا تھا اور جو آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے مشہور بیچ “بونڈائی” سے متعلق تھا ۔ اس شو میں ساحل سمندر پر فرائض کی انجام دہی میں مشغول لائف گارڈز کی پیشہ ورانہ مصروفیات کا احاطہ کیا جاتا تھا ۔
وہ غالباَ چُھٹی کا ایک دن ہوگا ۔ ساحل پر ہر طرف لوگ ہی لوگ نظر آرہے تھے جن میں خواتین اور بچّوں کی تعداد زیادہ تھی ۔ ان گنت لوگ سمندر میں نہانے میں مصروف تھے جبکہ ایک بہت بڑی تعداد غسل آفتابی اور چہل قدمیوں میں مصروف تھی ۔ گویا ساحل پر اس وقت تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی ۔
ایسے میں وہاں موجود لائف گارڈز کی ذمہ داری بھی یقیناَ بہت بڑھ گئی تھی اور وہ بڑے چاق و چوبند انداز میں سمندر پر نظریں جمائے کھڑے تھے ۔ ایک نسبتاَ اونچے چبوترے پر ایک بڑا کنٹرول روم بنا ہوا تھا جس میں کچھ لائف گارڈ مانیٹرز پر نظریں ٹکائے کیمروں کی مدد سے ساحل پر ہونے والی سرگرمیوں کی باریک بینی سے جانچ کر رہے تھے ۔ کچھ اہلکار آنکھوں سےدوربین لگائے سمندر میں نہانے میں مصروف افراد کی خبر گیری میں مصروف تھے تاکہ اگر وہاں انہیں کوئی غیر معمولی بات نظر آئے تو اس کی چارہ جوئی کر سکے ۔ ایسے میں وہ فوراَ واکی ٹاکی کے زریعے ساحل پر موجود مستعد تیراکوں کو اطلاع کرتے جو انتہائی برق رفتاری سے اپنے سرفنگ بوٹ بغل میں دبا کر پانی کی طرف دوڑ پڑتے ۔
تب ایسا نظارہ بھی دیکھنے کو ملتا کہ وہ سمندر میں ڈوبنے کے قریب کسی اناڑی تیراک کو نکال کر لا رہے ہوتے ۔ سلسہ یہی پر نہ رکھتا بلکہ اسی دوران ایک جانب سے کچھ پیرا میڈکس دوڑتے ہوئے آتے جو اس اناڑی تیراک کی نبض کا معائنہ کرتے اور اسے فوری ضروری طبی امداد پہنچاتے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کسی شخص کو ہسپتال لے جانے کی ضرورت پیش آتی تو ایمبولینس کا سہارا لیا جاتا جو کسی ایسی ہی صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہر وقت وہاں موجود رہتی ۔

اسی ہلے گلے میں ایک لائف گارڈ کی نظر ایک ایسی خاتون پر پڑی جو بہت بوکھلائی ہوئی تھی ۔ وہ تیزی سے ساحل پر ادھر ادھر آجا رہی تھی اور چاروں طرف ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کسی کو تلاش کر رہی ہو ۔
لائف گارڈ نے خاتون کو روک کر اس کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو پتہ چلا وہ انگریزی زبان سے بہت حد تک نابلد تھی ۔ چہرے مہرے سے بھی وہ کسی وسط ایشیائی ملک کا باشندہ لگ رہی تھی ۔ اشاروں اور ٹوٹی پھوٹی انگلش میں وہ بس اتنا بتا پائی کہ اس کا شوہر کہیں کھو گیا ہے اور نظر نہیں آرہا ۔ اگرچہ لائف گارڈ کے لئے یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا کیونکہ ہر روز اس طرح ساحل کی بھیڑ میں عارضی طور پر کھوجانے کے متعدد واقعات ہوتے رہتے تھے جو ایک معمول کی بات تھی ۔ اس کے باوجود اس نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے پیش نظر واکی ٹاکی پر نہ صرف اپنے کنٹرول روم بلکہ ساحل پر موجود تمام اہلکاروں کو اس واقعے کی اطلاع کردی ۔
یہی وہ وقت تھا جب ایک نوجوان لیکن مظبوط جسم والے ایک لائف گارڈ کو سمندر کے ایک سنسان گوشے میں ایک دھبہ دکھائی دیا جو ایک لمحے کے لئے پانی کی سطح پر ابھرا لیکن جلد ہی دوبارہ غائب ہو گیا ۔ اس نے آنکھوں پر لگی دوربین کو دوبارہ فوکس کرکے اسی ایک نقطے پر جمادیا تاکہ اس دھبے کی حقیقت جان سکے لیکن کئی منٹ گزرنے کے باوجود اسے پانی میں دوبارہ کوئی ہلچل نظر نہ آئی ۔ تب تک خاتون کو کنٹرول روم میں بٹھایا جاچکا تھا جہاں اس سے اس کے شوہر سے متعلق معلومات لی جارہی تھیں ۔ پتہ چلا کہ اس کا شوہر کوئی ڈیڑھ گھنٹہ پہلے تیراکی کے لئے سمندر کے ایک ایسے حصے کی طرف گیا تھا جہاں چٹانیں تھیں اور لہریں بھی نسبتاَ اونچی اٹھ رہی تھیں ۔اتنی جانکاری حاصل ہونے کے بعد کنٹرول روم کی چھت پر لگے طاقتور اسپیکروں سے اعلانات کا سلسلہ شروع ہوا تاکہ اگر کسی کے پاس اس بارے میں کوئی معلومات ہوں تو اس سے استفادہ کیا جاسکے ۔ نوجوان لائف گارڈ نے یہ اعلان سنا تو اس نے اسی وقت واکی ٹاکی پر کنٹرول سے رابطہ کیا اور کچھ دیر قبل ہونے والے واقعے کی روداد بتائی ۔
اس اطلاع کے ساتھ ہی کنٹرول روم میں کھلبلی مچ گئی اور کئی غوطہ خوروں کو بیک وقت مذکورہ علاقے کی طرف دوڑایا گیا ۔ وہ سب انتہائی تیزی سے چٹانوں والے علاقے کی طرف دوڑنے لگے جبکہ ریت پر چلنے والی کچھ مخصوص موٹر سائیکلیں بھی ساحل پر نظر آنے لگیں ۔

مذکورہ جگہ پہنچتے ہی تمام غوطہ خوروں نے سمندر میں چھلانگ لگادی اور مختلف سمتوں میں تیر کر اس شخص کی تلاش میں جت گئے ۔ وہ بار بار ڈبکیاں لگاتے اور کچھ دیر پانی میں رہ کر دوبارہ سطح پر ابھر آتے ۔ یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا لیکن نہ تو وہاں کسی ڈوبنے والے کے آثار نظر آئے نہ ہی خاتون کے شوہر کا کہیں سے اتا پتا ملا ۔ ادھر کنٹرول روم میں خاتون مسلسل روئے جارہی تھی جبکہ ایک اہل کار ریڈیو پر مسلسل کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا ۔ ساتھ ہی وہ بار بار اپنی گھڑی پر نظریں ڈال رہا تھا ۔ اس کے چہرے پر پریشانی واضح تھی ۔
وقت گزرتا جارہا تھا جبکہ سورج بھی آہستہ آہستہ ڈوبنے لگا تھا ۔ تاریکی بڑھنے کے احساس سے ہی لائف گارڈز کی پریشانی میں بھی اضافہ ہو رہا تھا کیونکہ وہ ہر حال میں جلد ہی گمشدہ غیر ملکی کو تلاش کرنا چاہتے تھے ۔ ان کا اس کام کو کل پر چھوڑنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا ۔
تبھی ساحل پر ایک ہیلی کاپٹر آکر اترا جس میں سے تیراکی کا مخصوص لباس پہنے کچھ غوطہ خور اترے ۔ ان کی پشت پر آکسیجن سلنڈر نصب تھا ۔ وہ بڑی عجلت میں پانی میں اتر گئے ۔ پتہ چلا کہ پانی زیادہ گہرا ہونے کی وجہ سے چونکہ عام طریقوں سے تلاش کا کام جاری نہیں رکھا جاسکتا تھا اس لئے مخصوص غوطہ خوروں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں ۔
پھر کچھ دیر بعد ہیلی کاپٹر بھی ہوا میں اڑ کر ٹھیک اسی جگہ منڈلانے لگا جہاں اس غیر ملکی کے ڈوبنے کے امکانات تھے ۔ ہیلی کاپٹر کے نچلے حصے میں طاقتور سرچ لائیٹیں لگی ہوئی تھیں جو غوطہ خوروں کو تلاش میں مدد دے رہی تھیں ۔
بالاخر ان کی تلاش رنگ لائی اور انہوں نے ڈوبنے والے غیر ملکی کا بے جان جسم پانی سے باہر نکال لیا ۔ پاس ہی ساحل کی ریتلی زمین پر ایک جدید ایمبولینس تیار کھڑی تھی جس میں موجود پیرا میڈکس نے حتیٰ الامکان اس بات کی کوشش کی کہ کسی طرح اس غیر ملکی کی سانسیں دوبارہ بحال کرسکیں لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے جس کے بعد اس کی باڈی اسی ہیلی کاپٹر کے زریعے اس امید کے ساتھ ہسپتال بجھوا دی گئی کہ شاید جدید مشینوں کی مدد سے اس پردیسی کو اس کی سانسیں دوبارہ لوٹائی جا سکیں لیکن بہت دیر ہو چکی تھی ۔
اب آگے کی کہانی سنیں۔


اگلے دن کی بات ہے ۔ ساحل پر عوام کا رش انتہائی کم ہے ۔ کنٹرول روم میں خاموشی طاری ہے اور سارے لائف گارڈ خاموشی سے سر جھکائے کھڑے ہیں ۔ سب کے چہرے پر انتہائی سنجیدگی کے آثار واضح دکھائی دے رہے ہیں ، پھر ان کے انچارج کی آواز ابھرتی ہے ۔
” کل کا واقعہ انتہائی افسوس ناک تھا ۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ یہ سراسر ہماری غلطی ہے کہ ہم اپنا فرض اچھی طرح نہ نباہ سکے ۔ ہمارا کام ہی لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت کرنا ہے ۔ یہ نہ صرف ہماری پروفیشنل بلکہ انسانی ذمہ داری ہے اور ہم اسی بات کی تنخواہ لیتے ہیں ۔ لائف گارڈ کی حیثیت سے میری دس سالہ زندگی میں ایسا کوئی سانحہ رونماء نہیں ہوا ۔ کل یقیناَ ہم سے کوئی نہ کوئی کوتاہی سرزد ہوئی ہوگی ورنہ ہمارے ملک کی سیر کو آنے والے ایک مہمان کی جان نہ جاتی ۔ ہمیں اپنی کارکردگی کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا اور اس غلطی کی نشاندہی کرنی ہوگی تاکہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ رونماء نہ ہو “
انچارج کی بات ختم ہوئی تو نوجوان لائف گارڈ نے دھیمے اور بھرائے لہجے میں کہنا شروع کیا کہ کل والے واقعے میں سارا قصور میرا تھا ۔ کیونکہ جب میں نے اس ممنوعہ علاقے میں کسی شے کو ایک لمحے کے لئے پانی سے ابھرتے اور پھر پانی میں غائب ہوتے دیکھا تھا تبھی مجھے کسی گڑ بڑ کا احساس ہو جانا چاہئے تھا لیکن میں نے اسے نظر انداز کردیا جس کی وجہ سے یہ سانحہ ہوا ۔ اس غفلت کے لئے میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر سکوں گا ۔
پھر تیسرے دن وہ سب مل کر اس ڈوبنے والے شخص کے گھر گئے ، اس کی بیوہ اور بچوں سے تعزیت کی ، اس کی لاش دوبارہ وطن بھجوانے کا وعدہ کیا اور ڈھیر سارے تحائف دئیے ۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب کسی نے مرنے والے کی بیوہ سے اس کے تاثرات پوچھے تو اس نے روتے ہوئے بتایا کہ حالانکہ یہ میری زندگی کا سب سے اندوہناک واقعہ ہے لیکن مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ یہاں سب نے میرے ساتھ بہت تعاون کیا جس سے مجھے اس بات کا بالکل بھی احساس نہیں ہوا کہ میں اپنوں سے دور اور غیروں کے درمیان ہوں ۔ لائف گارڈز مجھ سے مسلسل اس بات کے لئے معزرت کر رہے ہیں کہ ان کی کوتاہی کی وجہ سے میرے شوہر کی جان چلی گئی ۔ حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں بلکہ انہوں نے میرے شوہر کی جان بچانے کی جتنی کوششیں کیں میرے لئے ان کا تصور بھی محال تھا ۔ دراصل میرے شوہر ایک یونیورسٹی میں پروفیسر تھے جو تیرنا تو جانتے تھے لیکن انہیں سمندر میں تیراکی کا کوئی تجربہ نہیں تھا اس لئے وہ ایک ایسی جگہ تیرنے چلے گئے جہاں تیراکی کرنا منع تھا۔
کئی سال قبل ڈاکیو منٹری چینل پر دیکھنے والا یہ واقعہ مجھے ابھی تک اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ یا دہے ۔ میں بھول بھی کیسے سکتا ہوں کیونکہ جس معاشرے میں میں رہتا ہوں وہاں جب بھی آس پاس گھومتے پھرتے ایسے لوگوں پر نظر پڑتی ہے جو اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائے انہیں دوسروں کے سر تھونپنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ، یا عوام کی جان کی حفاظت پر مامور ان پولیس والوں کے بارے میں پڑھتا ہوں جو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتا دیکھ کر قاتل کو للکارنے کے بجائے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ،یا ان بےحس لوگوں کی تصویریں دیکھتا ہوں جو سڑک پر پڑی نوجوانوں کی آڑھی ترچھی لاشیں دیکھ کر بھی منہہ پھیر کر گزر جاتے ہیں یا ان دردمند دل رکھنے والوں کے قصے سنتا ہوں جو کسی تڑپتے شخص کی مدد کرنے کے بجائے اس کی جیبیں ٹٹولتے ہیں تو کافروں کے دیس میں رونماء ہونے والا یہ واقعہ مجھے شدت سے یاد آنے لگتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.