سرورق، کچھ پرانی یادیں
سرورق، کچھ پرانی یادیں
انیس سو اسّی (1980) کی بات ہے جب سیرت النبی کے موضوع پر منعقدہ ایک قومی سطح کے تقریری مقابلے میں شرکت کے لئے میرا کراچی جانا ہوا ۔ وہ جنرل ضیاء کے عروج کا زمانہ تھا اس لئے پاکستان بھر میں اس موضوع پر جا بجا مختلف نوعیت کے پروگرام منعقد کئے جارہے تھے۔ تب میں یزدان خان گورنمنٹ ہائی سکول میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا ۔ اس تقریری مقابلے میں بلوچستان کی نمائندگی میرے سپرد تھی کیونکہ اس سے قبل میں مقامی سطح پر ہونے والے کئی تقریری مقابلے جیت چکا تھا ۔ میرے ساتھ میرے بڑے بھائی رضا وکیل بھی جا رہے تھے ۔
کراچی میں ہمارا ابتدائی قیام بوائز سکاؤٹس کے زیر استعمال ایک ہاسٹل میں ہوا ۔ اگلے دن ہی مقابلہ تھا ۔ میری تیاری بھرپور تھی اس لئے اعتماد بھی آسمانوں کو چھو رہا تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ مضمون اور محتویٰ کے لحاظ سے وہ ایک انتہائی خوبصورت تقریر تھی جو ہمارے مہربان اور ہر دل عزیز استاد ” ماسٹر مبین” کی لکھی ہوئی تھی ۔ تقریر کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملہ اتنا خوبصورت اور متاثر کن تھا کہ جو بھی سنتا واہ واہ کہے بغیر نہ رہ پاتا ۔ اسی تقریر میں شامل یہ جملہ بے حد مشہور ہوا تھا کہ
یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے سمندروں میں مچھلی کی طرح تیرنا اور فضاؤں میں پرندوں کی طرح اُڑنا تو سیکھ لیا ہے مگر ہمیں آج تک زمین پر انسانوں کی طرح چلنا نہیں آیا ۔
اگلے دن قبل اس کے کہ مقابلے کا باقاعدہ آغاز ہوتا پروگرام کے منتظمین میں شامل ایک سینئر عہدیدار نے مجھے ایک طرف بلایا اور تقریر سنانے کو کہا ۔ میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایک دم اسٹارٹ ہو گیا ۔ تقریر کا آغاز ایک نعتیہ رباعی سے ہو نا تھا جو یہ تھی ؎
کتاب فطرت کے سرورق پر جو نام احمد رقم نہ ہوتا
تو نقش ہستی ابھر نہ سکتا وجود لوح و قلم نہ ہوتا
یہ محفل کن فکاں نہ ہوتی جو وہ امام امم نہ ہوتا
زمیں نہ ہوتی فلک نہ ہوتا ،عرب نہ ہوتا عجم نہ ہوتا
ابھی میں نے پہلا مصرع ہی پڑھا تھا کہ موصوف نے مجھے روک دیا اور کہنے لگا کہ آپ مصرع غلط پڑھ رہے ہیں کیونکہ اس میں شامل لفظ سر ورق (Sar waraq) نہیں بلکہ سرِ ورق (Sar-e-warq) ہے ۔ مجھے حیرانی تو ہوئی لیکن یہ سوچ کر اس کی بات گرہ سے باندھ لی کہ “جب وہ کہہ رہے ہیں تو ٹھیک ہی کہہ رہے ہونگے ” اس لئے مقابلے کے دوران میں نے اس مصرعے کو اسی طرح پڑھا ۔ پھر جب میں اپنی تقریر ختم کرکے اسٹیج سے اتر کر واپس اپنی نشست پر آیا تو میرے بیٹھے ہی بھائی نے سرگوشی میں پوچھا کہ تم نے مصرع کیوں غلط پڑھا اور یہ سرِ ورق (Sar-e-warq) کیا بلا ہے ؟
میں نے اسے اس “تصحیح ” کی مختصر روداد بتائی تو وہ کچھ بڑا بڑا کر چپ ہوگئے ۔ اس مقابلے میں میں نے دوسری پوزیشن حاصل کی ۔ بعد میں جب مبارک بادیاں دینے کا سلسلہ تھم گیا تو بھائی نے مجھے سمجھایا کہ سر ورق دراصل فارسی اور عربی الفاظ پر مشتمل ایک ایسی اصطلاح ہے جسکا مطلب شروع کا ورق یا پہلا ورق ہے ۔ پھر انہوں نے مجھے ورق (Waraq) کا صحیح تلفظ بھی بتادیا ۔
اسی تقریر کو لیکر میں نے کچھ مہینوں بعد اسلام میں منعقد ہونے والی سکاؤٹ جمبوری (Jamboree) کے تقریری مقابلے میں بھی شرکت کی جس کے مہمان خصوصی جنرل ضیاء الحق تھے جو آخری لمحوں میں کچھ دیر کے لئے تشریف لائے اور انعامات تقسیم کرکے واپس چلے گئے ۔
معاف کیجئے گا کہ یہ اسلام آباد والا واقعہ اور امیرالمومنین کے دست مبارک کا لمس یونہی بر سبیل تذکرہ یاد آیا ورنہ میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اردو ایک بہت ہی گنجلک (غونجول) اور مشکل زبان ہے ۔ خصوصاَ فارسی اور انگریزی کے مقابلے میں اس زبان کو اس کی تمام تر جزئیات کے ساتھ سمجھنا کافی مشکل ہے ۔ اگرچہ اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آتے آتے آجاتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اسے میرے جیسے لوگوں تک آتے اور معانقہ کرتے کافی دیر لگ جاتی ہے ۔
میں نے اردو الف ب پڑھنا پانچ سال کی عمر میں شروع کیا تھا ۔ ہمارے سارے استاد سکول میں ہم سے زیادہ تر ہزارہ گی میں بات کرتے تھے حتیٰ کہ گالیاں بھی ہزارہ گی میں ہی دیتے تھے ماسوائے ان اساتید کے جو ہزارہ گی نہیں جانتے تھے ۔ لیکن وہ بھی جب غصّے میں آتے تو پمیں بلوچی ، براہوی یا پشتو میں گالیاں صادر کرتے ۔
تب ہمارا واسطہ ہزارہ گی اور اردو کے علاوہ پشتو ۔ بلوچی اور براہوی سے بھی رہنے لگا تھا ۔ وجہ یہ تھی کہ ان دنوں مری آباد اور اس سے ملحقہ علاقوں میں بلوچوں اور پشتونوں کی بڑی تعداد آباد تھی ۔ ہماری گلی تو باقاعدہ گلی بلوچاں کے نام سے معروف تھی ۔ ہمارے گھر کے سامنے ہی براہویوں کے گھر تھے جب کہ ساتھ والے گھروں میں مری آباد تھے ۔
ہم نے انگریزی کے نام پر ABCD پڑھنی چھٹی جماعت سے شروع کی جو ہم جیسوں کے لئے ایک نئی مصیبت سے ہرگز کم نہ تھی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دسویں جماعت میں پہنچ کر ہم تمام علاقائی زبانیں تھوڑا بہت سمجھنے اور بولنے تو لگ گئے لیکن ہمیں نہ تو ٹھیک طریقے سے اردو بولنی آئی نہ ہی ہم ڈھنگ کی انگریزی سیکھ سکے ۔
میں شاید اس لحاظ سے کچھ خوش قسمت تھا کہ میرا رجحان شروع سے ہی پڑھنے اور لکھنے کی طرف تھا ۔ میں اس وقت ساتویں جماعت میں ہونگا جب میری کہانیاں بچّوں کے ایک مقامی ہفتہ وار اخبار ” بچّوں کا اخبار ” میں شائع ہونے لگیں ۔ تب وہ کوئٹہ میں اپنی نوعیت کا واحد اخبار تھا جسے صفدر حسین نامی ایک “پنجابی سیٹلر” نکالا کرتے تھے ۔ وہ مصمم ارادوں والے ایک ایسے شخص تھے جو اس اخبار کا تمام بوجھ اکیلا اٹھائے پھرتے تھے ۔ وہ مہینے میں ایک مرتبہ شہر کے تمام ہائی سکولوں میں جاتے اور طلباء کو کہانیاں ، لطیفے ، پہلیلیاں اور اقوال زرین لکھنے پر آمادہ کرتے ۔
اخبار کی قیمت اگرچہ میرے حافظے میں محفوظ نہیں لیکن وہ یقیناَ انتہائی مناسب رہی ہوگی تبھی تو غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود اکثر طلباء اسے نہ صرف خریدتے بلکہ بڑی رغبت سے پڑھتے بھی تھے ۔
بچّوں کا اخبار میں میری کہانیاں شائع ہونے لگیں تو میرا حوصلہ بھی بڑھنے لگا ۔ ان دنوں مجھے خود بھی کہانیاں پڑھنے کا ازحد شوق تھا اس لئے ٹارزن اور ایک آنکھ والے جن کی ” باتصویر” کہانیاں بڑے شوق سے پڑھا کرتا ۔ پھر جب میں آٹھویں جماعت میں پہنچا تو عمروعیار کی کہانیاں اچھی لگنے لگیں ۔ اس لئے سکول سے آنے کے بعد جب بھی موقع ملتا میں ‘ داستان امیر حمزہ ‘ یا عمروعیار کی کوئی کہانی نکال کے بیٹھ جاتا ۔ بڑے بھائی کو ان کتابوں سے شدید چڑ تھی اس لئے جب بھی مجھے ان کتابوں میں منہمک پاتے غصے میں آکر فوراَ لیکچر دینا شروع کردیتے ۔ وہ خود ڈاکٹر علی شریعتی کے مداحوں میں سے تھے اس لئے میری انگلی پکڑ کر مجھے بھی انہی راستوں پر چلانے کی کوشش کرتے ۔ لہٰذا شریعتی کی فارسی میں لکھی کوئی کتاب میرے سامنے رکھتے اور مجھ سے زبردستی پڑھوانے کی کوشش کرتے ۔ ساتھ ہی وہ مجھے اس کا مفہوم بھی سمجھاتے رہتے جبکہ میں کسی روبوٹ کی طرح سر ہلا ہلا کے ایسا ظاہر کرتا جیسے میں ان کی باتیں پوری طرح سمجھ رہا ہوں حالانکہ تب مجھ پر جو قیامت گزر رہی ہوتی اسے میں ہی جانتا تھا ۔
اس زور زبردستی کا فائدہ یہ ہوا کہ اب میں نہ صرف فارسی بھی پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہونے لگا بلکہ شریعتی کے افکار سے بھی آشنائی ہونے لگی ۔