جنت کی حوریں
جنت کی حوریں
7 مارچ 2007، بینگلور(Bangalore)
صبح ہی ہمیں ہسپتال سے فراغت کا پروانہ مل چکا تھا ۔ اگلے دن یعنی آٹھ مارچ کو ممبئی کے لئے ہماری فلائٹ کنفرم تھی۔ کئی مہینوں بعد میں کسی حد تک کروٹ بدلنے ، ٹانگیں سمیٹنے اور سیدھی کرنے کے قابل ہو چکا تھا ۔ لیکن اب بھی اطمینان سے بیٹھنا میرے لئے محال تھا۔
اس رات میں کچھ جلد نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ نہ جانے رات کا کونسا پہر ہوگا جب مجھے کچھ آوازیں سنائی دیں اور کسی نے میرا کندھا تھپ تھپا کر مجھے نیند سے جگایا۔
میں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ کچھ حوریں ہاتھوں میں گلدستہ لئے میرے بستر کے چاروں جانب کھڑی تھیں۔ میں غنودگی سے نکلنے کے لئے آنکھیں ملنے لگا۔ کچھ ہوش بحال ہوئے تو دیکھا کہ وارڈ کی نرسیں حلقہ بنائے میرے بیڈ کے ارد گرد کھڑی تھیں۔ تبھی کورس میں ایک نغمہ گونجنے لگا
“ہیپی برتھ ڈے ٹو یو“
مجھے بڑی حیرانی ہوئی۔ ہوش و حواس مکمل بحال ہوئے تو دیکھا کہ وہ واقعی وارڈ کی نرسیں ہی تھیں۔ ان میں سے ایک نرس جسکا نام جنسی تھامپسن تھا، نے مجھے گھڑی دیکھنے کو کہا۔ میری نظر کمرے کی دیوار پر لگی گھڑی پر پڑی تو بارہ بجکر پانچ منٹ ہورہے تھے۔ آٹھ مارچ کا آغاز ہو چکا تھا جو میری سالگرہ کا دن ہے۔ جنسی سے ہی پتہ چلا کہ اس نے میرے بگ برادر سے میری سالگرہ کے بارے میں پوچھا تھا اور اسی نے وارڈ کی تمام نرسوں کو اس بارے مطلع کیا تھا جس کے بعد ان سب نے مل کر ہسپتال میں میری سالگرہ منانے کا اہتمام کیا تھا۔
وہ یقیناََ حوریں ہی ہوں گی۔ اگرچہ ان کا قد عام لڑکیوں جتنا تھا، انہوں نے ریشمی لباس کے بجائے نرسوں والی یونیفارم پہن رکھی تھیں اور وہ “بظاہر” خوبصورت بھی نہیں تھیں۔ سانولی سلونی، دبلی پتلی، سیدھی سادھی اور میک اپ سے عاری۔
لیکن پتہ نہیں مجھے کیوں اس بات کا پختہ یقین ہے کہ جنت کی حوریں ان جیسی خوبصورت اور مہربان ہرگز نہیں ہوں گی۔