ڈاکٹر مبارک علی سے میری ملاقات کا احوال

ڈاکٹر مبارک علی سے میری ملاقات کا احوال 

22 جنوری، 2016 ۔۔۔

شاید 1990 کی بات ہے ۔ تب میری عمر چوبیس سال رہی ہوگی ۔ میں تیمورخانوف کی کتاب کا فارسی سے اردو میں ترجمہ مکمل کر چکا تھا ۔ یہ ہزارہ قوم کی تاریخ سے متعلق اردو میں واحد کتاب تھی جس کا مصنف ایک ترقی پسند تاریخ دان تھا ۔ میری اور میرے دوستوں کی مشترکہ رائے تھی کہ اس کا دیباچہ ڈاکٹر مبارک علی سے بہتر اور کوئی نہیں لکھ سکتا ۔ تب وہ ہمارے پسندیدہ رائٹرز میں شامل تھے ۔
مجھے یاد نہیں کہ کس طرح میرا ان سے رابطہ ہوا البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ میں ہاتھ سے لکھے مسودے کا پلندہ اٹھا کے سندھ کے شہر حیدر آباد جا پہنچا جہاں مجھے یونیورسٹی کے کسی پروفیسر صاحب سے ملنا تھا ۔ وہ ڈاکٹر صاحب کے دوستوں میں سے تھے جو مجھے ان سے ملوانے کا زریعہ تھے ۔ میں سواریاں تبدیل کر کرکے یونیورسٹی پہنچا تو دوپہر کے دو بجنے والے تھے ۔ پروفیسر صاحب بڑی محبت سے ملے پھر جب ہم چائے وغیرہ پی چکے تو وہ گھر جانے کے لئے اٹھے جہاں ڈاکٹر مبارک علی نے آنا تھا ۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ انہوں نے مجھے بھی ساتھ لے لیا تھا ۔ ہم یونیورسٹی کی سٹاف بس پر بیٹھ کر شہر آئے جہاں سے کچھ فاصلہ طے کرکے ہم پروفیسر صاحب کے گھر پہنچے ۔
کہنے کو تو وہ یونیورسٹی کے ایک پروفیسرکا گھر تھا لیکن وہ کسی عسرت زدہ مفلس کی کٹیا کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ جس مہمان خانے میں مجھے بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا وہ بھی پروفیسر صاحب کی ” حیثیت” کا منہ بولتا ثبوت تھا کیونکہ کسی کمرے کے درمیان ایک پردہ لٹکا کے ایک مختصرجگہ کوبیٹھک کی شکل دی گئی تھی ۔
ڈاکٹر مبارک علی آئے تو بڑے تپاک سے ملے ۔ اس ملاقات کے دوران ہم نے کافی گپ شپ کی ۔ پروفیسر صاحب نے بھی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ وہ انتہائی ملنسار شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے میرے جیسے ایک انجان شخص کی نہ صرف مقدور بھر خدمت کی بلکہ مجھے میرے پسندیدہ لکھاری سے ملاقات کا موقع بھی فراہم کیا ۔
میں نے ہاتھ سے لکھا مسودہ جو اغلاط سے بھرپور تھا ڈاکٹر صاحب کے حوالے کیا اور ان سے دیباچہ لکھنے کی خواہش کی ۔ وہ مسکرائے اور انہوں نے دیباچہ لکھنے کا وعدہ کیا ۔ پھر جب شام گئے میں نے ان سے رخصت چاہی تو وہ دونوں اٹھے اور میرے ساتھ پیدل چلتے ہوئے مجھے بس سٹاپ تک چھوڑ آئے ۔
کئی ہفتے گزر گئے تو مجھے ان کی تحریر موصول ہوئی جسے میں نے بطور تبرک کتاب کے آغاز میں شامل کردیا ۔
اس واقعے کو چوبیس سال سے زیادہ گزر چکے ہیں لیکن جب بھی ” تاریخ ہزارہ (مغل) کی بات ہوتی ہے توڈاکٹر صاحب اور ان کے پروفیسر دوست مجھے شدت سے یاد آنے لگتے ہیں ۔ کاش ان کا سایہ ہمارے جیسوں کے سر پر دیر تک قائم رہے اور کاش کبھی ان سے دوبارہ ملاقات کی کوئی سبیل نکل آئے ۔
خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.