سلطان جلّاد
سلطان جلّاد
11 مارچ، 2016….
جن لوگوں نے سلطان جلّاد کے بارے میں سن رکھا ہے وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ سلطان کی شکل سابق ہالی ووڈ اداکار چارلس برانسن سے اس حد تک ملتی تھی کہ وہ چارلس برانسن کی Ditto Copy لگتے تھے۔
اسی مماثلت اور شہرت کو دیکھتے ہوئے کوئٹہ کے ایک مقامی سرمایہ دار نے ایک تاریخی بلیک اینڈ وائٹ فلم بنائی تھی جس میں سلطان جلّاد نے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا ۔ اس فلم میں سلطان جلّاد نے چارلس برانسن کی طرح ایک کاؤ بوائے کا گیٹ اپ اختیارکیا تھا ۔ اس نے بدن پر کاؤ بوائے فلموں کے کسی ہیرو کی طرح چمڑے کی جیکٹ پہن رکھی تھی اور پاؤں میں ایک ایسا لانگ بوٹ پہن رکھا تھا جس کی ایڑی پرزنگ آلود ” گراریاں ” لگی ہوئی تھیں جبکہ سر پرایک میلا کچیلا کاؤ بوائے ہیٹ نظر آرہا تھا ۔ سلطان جلاد کے ایک پرانے دوست ماما یعقوب کے مطابق اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ بروری (Brewery) کے آس پاس ہوئی تھی ۔ فلم کی ہیروئن لاہور سے منگوائی گئی تھی جو وہاں کی فلموں میں ایکسٹرا رول کرتی تھی ۔
ماما یعقوب ہی کے بقول اس فلم کی نمائش طوغی روڈ میں واقع ڈیلایٹ سینما میں ہوئی تھی لیکن چونکہ یہ ایک انتہائی “شاہکار فلم” تھی اس لئے اس کے صرف دو ہی شوز ہوئے تھے جس کے بعد اسے بڑی خاموشی سے اتار کر ڈبوں میں بند کردیا گیا تھا۔
سلطان جلّاد کو میں نے پہلی مرتہ اس وقت دیکھا تھا جب وہ ادھیڑ عمری کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ مسلسل نشے کی وجہ سے اس کا چہرہ کافی حد تک بگڑ چکا تھا لیکن اب بھی اسے دیکھتے ہی چارلس برانسن کا چہرہ نظروں کے سامنے گھوم جاتا تھا۔
جو لوگ اسے کافی عرصے سے جانتے تھے ان کا کہنا تھا کہ سلطان اپنی جوانی میں بہت وجیہہ اورکسرتی بدن کا مالک تھا لیکن نشے کی لت نے اسے کہیں کا نہ چھوڑ رکھا تھا اور وہ وقت سے پہلے بوڑھا نظر آنے لگا تھا۔
یہ کہانی جو میں ابھی بتانے جا رہا ہوں مجھے خود سلطان جلّاد نے سنائی تھی ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں سوزوکی پک اپ چلایا کرتا تھا ۔ تب حالیہ ہزارہ ہاؤسنگ سوسائٹی (سولہ ایکڑ) میں مکانات بننا شروع نہیں ہوئے تھے اور ڈاکٹر جمعہ کے کلینک کے سامنے بنے میدان میں ایک جونپڑی نما ہوٹل ہوا کرتا تھا جس میں جمعرات اور جمعہ کے دن کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا رش لگا رہتا تھا ۔
ایک دن جب میں اس ” ہوٹل ” میں چائے پینے گیا تو وہاں سلطان جلّاد کو بیٹھا دیکھا جو حسب معمول “حالت وجد” میں تھا ۔ میں اس کے پاس ہی بیٹھ گیا ۔ اسے بھی شاید کسی سامع کی ضرورت تھی لہٰذا حال احوال کرنے کے بعد ایک دم اپنے ماضی کے دلچسپ قصے سنانے لگا ۔
اسی دوران ہمارے پاس ہی بیٹھے ہوئے کوئلہ کی کانوں میں کام کرنے والے دو مزدوروں نے مالٹا چھیل کر کھانا شروع کیا ۔ جسے دیکھ کر محترم جلّاد صاحب نے ان سے ایک قاش یعنی ٹکڑے کا تقاضا کیا لیکن مزدورکیونکہ سلطان کی حالت سے باخبر تھے اس لئے انہوں نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی گپ شپ جاری رکھی اوراس کی طرف دیکھا بھی نہیں۔
یہ دیکھ کر سلطان جلّاد کا پارہ آسمان کو چھونے لگا اور اس نے ایک غلیظ گالی دیتے ہوئے کہا کہ ” ان “ریڈ انڈینز” کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟ ”
میں نے بڑی مشکلوں سے اسے سمجھا بجھا کرخاموش کرایا ۔
وہ خاموش ہوا اوراس کا دھیان بٹا تو اس نے مجھے یہ دلچسپ کہانی سائی ۔
کہنے لگا کہ ” جن دنوں میں ایران میں تھا تب لوگ مجھے چارلس برانسن کہہ کر پکارتے تھے ۔ وہ میری بڑی آہ و بھگت کرتے تھے اور میرے ساتھ دوستی کرنے پر خوشی محسوس کرتے تھے ۔ میں تب بھی “راکٹ” کا نشہ کرتا تھا ۔ میرے نشئی دوستوں میں اکثریت ایرانی جوانوں کی ہوتی تھی جن کے ساتھ بیٹھ کر میں “راکٹ” کا نشہ کیا کرتا تھا۔ اس دوران میری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ جہاں تک ہو سکے اپنی قوم کا نام بلند رکھوں ۔ اس لئے میں اپنے ایرانی دوستوں کی نسبت دوگنا نشہ کرتا تاکہ اپنی قوم کا نام روشن رکھ سکوں ”
یہ کہہ کروہ کچھ دیر کے لئے رکا اور اپنی خمار آلود آنکھیں اٹھا کر کہنے لگا کہ ” پھر ایک بار ایسا ہوا کہ میں نے نشہ کرنے سے توبہ کرلی ۔ میں حضرت امام رضا کے روضے پرگیا اور روضے کی جالی پکڑ کر توبہ استغفار کرنے لگا ۔ لیکن اس سے پہلے کہ خدا میری توبہ سن لیتا ، شیطان نے میری توبہ سن لی اور اس نے فوراَ میرے ایک دوست کو میرے پاس بھیج دیا ۔ ابھی میں آنکھیں بند کئے توبہ استغفار میں مصروف تھا جب مجھے اپنے کاندھوں پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا ۔
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مجھے اپنا گول مٹول دوست نظر آیا جس نے میرے کانوں میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ ” میں راکٹ لیکر آیا ہوں چلو مزہ لیتے ہیں ” یہ سنتے ہی میں سارے توبے بھول کراس کے ساتھ چلا گیا اور ہم ایک گوشئہ عافیت میں بیٹھ کرپھر سے راکٹ کا مزہ لینے لگے ۔
یہ کہہ کر سلطان جلّاد مجھے نطر انداز کر کے خلا میں گھورنے لگا جبکہ میں نے بھی اٹھنے میں عافیت جانی ۔
https://www.facebook.com/hasan.rizachangezi/posts/753899401407230