حمید بھائی
حمید بھائی
یہ غالباَ 1991 کی بات ہے۔ میرا تاریخ ہزارہ(مغل) کی چھپائی کے سلسلے میں لاہور جانا ہوا۔ تب میرے کچھ دوست این سی اے کے ایک ہاسٹل میں رہائش پزیر تھے۔ میں اپنا خرچہ بچانے کے لئے انہی میں سے ایک دوست کے گلے پڑ گیا۔ ہاسٹل کے پاس ہی ایک پرچون کی دکان تھی جہاں سے ہم روزمرہ کا سودا سلف لیا کرتے تھے۔ اسی دکان سے ہم سرکاری نرخ کے مقابلے میں انتہائی کم نرخ میں اپنے گھر ٹیلی فون پربات بھی کرلیا کرتے تھے۔ پرچون کی دوکان کے مالک “حمید بھائی” انتہائی ملنسار شخص تھے۔ ہفتے بھر بعد سستے فون کالز کی وجہ سمجھ میں آگئی۔ اصل قصہ کچھ یوں تھا کہ دکان کے مالک حمید بھائی نے ٹی اینڈ ٹی (حالیہ پی ٹی سی ایل) کے کسی اہلکار کے ساتھ گٹھ جوڑ کررکھا تھا جو انہیں غیر قانونی طریقے سے پاکستان بھر میں مفت ٹیلی فون کالیں کرواتا تھا، جن سے کمائی گئی آمدنی دونوں “بھائی” مہینے کے اختتام پر آپس میں منصفانہ طریقے سےبرابر بانٹ لیا کرتے تھے۔
حمید بھائی انتہائی ملنسار شخص تھے۔ وہ اپنے اس کاروبارسے بڑے مطمئن تھے اور ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کیا کرتے تھے۔ انہوں نے دکان میں ایک خوبصورت طغرہ آویزاں کر رکھا تھا جس پر لکھا تھا کہ
” یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے”