فیس بک کے سادو

فیس بک کے سادو

سادو کو بہت سارے لوگ جانتے ہونگے ۔ سلطان جلّاد کی طرح وہ بھی ایک باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے ۔ شریف اتنے کہ ہمیشہ سرجھکائے ، گردن خم کئے اور نظریں نیچی کئے گھوم گھوم کر اور جھوم جھوم کر، خراماں خراماں چلا کرتے تھے ۔ اس حالت میں اگر ان کی کسی سے ٹکر ہو بھی جاتی تو انتہائی احتیاط سے خمار آلود نظریں اوپراٹھاتے اور بڑی ادا سے ہاتھ پیشانی تک لے جاکر سیلیوٹ کے انداز میں معزرت کرلیتے پھر دوبارہ سر جھکا کر آگے بڑھ جاتے، کسی اور سے ٹکرانے کے لئے ۔ ان کے اس عمل میں اتنی معصومیت ہوتی کہ میں نے کبھی کسی کو ان سے پھنگا لیتے نہیں دیکھا ۔ ایسے ہی ایک موقع پر عالم وجد میں وہ کسی طرف جا نکلے تو ایک جگہ لوگوں کی بھیڑ نظر آئی ۔ کھانے کی خوشبو نتھنوں سے ٹکرائی تو چودہ طبق روشن ہوگئے ۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراَ اس گھر میں گُھس گئے ۔ کسی نے اسے پہچان کر آواز دی اور ہاتھ پکڑ کر ایک طرف بٹھادیا ۔ کھانا آیا تو وہ انتہائی شرافت سے کھانا کھانے لگے ۔ اس دوران کبھی کبھار وہ اپنی مخمور آنکھیں اٹھا کر آس پاس بھی دیکھ لیتے لیکن دھیان مکمل طور پر کھانے کی طرف ہی تھا ۔ پیٹ بھر کر کھا چکے تو شانے پر پڑی چادر سے ہاتھ صاف کئے اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر اونچی آواز میں صدق دل سے دعا مانگی ۔ “خدا بیامرزہ ” یعنی اللہ مرنے والے کی مغفرت کرے ۔
ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ اس کی کمر پر دھپ سے ایک زور دار لات پڑی اور ساتھ ہی کسی کی انتہائی غلیظ گالیاں بکنے کی آواز سنائی دینے لگی ۔ اس کا نشہ فوراَ کافور ہوگیا۔ گالیاں دینے والا اسے دھکے دیکر باہر نکالنے لگا تو اس کی نظر کرسی ہر بیٹھے ایک نوجوان پر پڑی جس کے گلے میں پھولوں کا ہار لدا ہوا تھا اور لوگ گلے مل کر اسے شادی کی مبارک باد دے رہے تھے ۔ تبھی اس کی سمجھ میں آیا کہ اس کی کمر پر زوردار لات کیوں پڑی تھی اور اسے بے عزت کرکے “محفل” سے کیوں نکالا جارہا تھا۔۔۔۔۔
یہ سچا واقعہ مجھے بار بار یاد آتا ہے ۔ خصوصاَ اس وقت جب کسی کے فیس بک پوسٹ پر کوئی فیس بکی “سادو” پوسٹ کی نوعیت یا تحریر سمجھے بغیر اچانک کود پڑتا ہے اور اوٹ پٹانگ تبصرے کرتا اور فتویٰ دیتا نظر آتا ہے ۔ ۔سوال یہ ہے کہ کیا ہر پوسٹ پر اپنی “علمیت” جتانا ضروری ہے ؟ کیا بن بلائے مہمان کی طرح ہر محفل میں گھسنا اچھی بات ہے؟ اور کیا کوئی فتویٰ دئے بغیر اور کسی کو جاہل اور احمق قرار دئے بغیر تبادلہ خیال نہیں ہو سکتا ؟ ہم کب تک اپنے آپ کو عالم اور دوسروں کو جاہل قرار دیتے رہیں گے ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.